Hamza Shahbaz's bail extended by Lahore High Court

brohiniaz

Chief Minister (5k+ posts)
بچپن میں اپنے بڑوں کو اکثر کہتے سنا تھا، تواتر سے جھوٹ بولنے والے کا منہ کالا مگر آج یہ کہاوت اپنے معنی کھو چکی ہے ہر طرف جھوٹ کے جھکڑ اور باطل نظام۔ اسی طرح ظلم کے حوالے سے کہا جاتا تھا ، ظالم کی عمر کوتاہ، نیز ظلم کی سزا مل کر رہتی ہے۔ ہمیں مسجد و منبر سے یہ دلاسا بھی دیا جاتا ہے، ظالم کی رسی دراز ضرور ہے مگر گرفت سے آزاد نہیں ! لیکن یہاں تو ظلم و بربریت کی داستانوں کا ایک تسلسل ہے جو بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ حضرت علامہ اقبال نے اپنے مشہور زمانہ کلام جواب شکوہ میں کہا تھا:۔

دل سے جو آہ نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پَر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

قاتل، ڈکیت اور بدعنوان اگر پکڑے بھی جائیں تو چند ماہ بعد رہا ہو کر پہلے سے بھی زیادہ خطرناک اور دلیر ہو کر امن پسند، دیانت دار لوگوں کا جینا حرام کر دیتے ہیں، نہ کہیں داد نہ فریاد کیونکہ عدلیہ میں بیٹھی کالی بھیڑیوں کی یہی کوشش ہے کہ عوام میں بے بسی اور احساس محرومی پیدا کر دیا جائے تاکہ ان میں ظلم کیخلاف آواز اٹھانے کی جرأت ہی نہ رہے، وہ اپنی اپنی روزمرہ ضرورتوں کے تابوت کندھوں پر اٹھائے کالی بھیڑیوں سے امداد کی آس لگائے روزمرتے اور جیتے رہیں، کچھ حسرت و یاس کے مارے اپنی زندگی کی ڈور خود اپنے ہاتھوں کاٹ کر نجات پانے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ آئے روز گردے اور بچے بیچنے کے واقعات الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر سنے اور دیکھے جا سکتے ہیں۔ اجتماعی احساس کے فقدان کی وجہ سے قومی غیرت کا بھی جنازہ اٹھ چکا ہے اسکی ایک وجہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مسلمان تو ہر طرف نظر آتے ہیں مگر اسلام اور اسلامی قوانین کی حقیقی روح اور عملداری کہیں نظر نہیں آتی۔ اگر زانی کو سنگسار، شرابی کو کوڑے اور چور کے ہاتھ کاٹنے جیسے قرآنی قوانین نافذ کر دیئے جاتے تو آج نہ جبری مشقت ہوتی اور نہ چور اچکے قومی خزانہ لوٹنے کی جسارت کرتے۔ یہ سب ہمیں قرآن و سنت کے قوانین سے انحراف کی سزا ہی تو مل رہی ہے۔

جرائم کے بڑھتے ہوئے رجحانات دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے ہماری عدلیہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو جرائم کا معاشرہ، ظلم، ناانصافی اور خوف پھیلا کر معاشرتی اقدار پامال کرکے زر او زورکا نظام چاہتی ہے کہ کسی طرف سے نہ کوئی صدائے احتجاج بلند ہو اور نہ کوئی باضمیر شخص سر اٹھا کے چل سکے: