اِسطرح کی ڈیبیٹس میں کوئی سنجیدہ اور ڈھنگ کی بات نہیں ہو سکتی بلکہ پوائنٹ سکورنگ اور چرب زبانی چلتی ہے۔ حکمتِ عملی یہ ہو جسمیں جواب دینے کی بجائے سوالات کیئے جائیں، اپنی خوبیاں اور صفائیاں کم اور مُخالف کی بھد بے حساب اُڑائی جائے، زلیل و رُسوا کیا جائے، مُخالف شُرکاء کی ذاتی کمیاں کوتاہیاں تیار کر کے لائی جائیں۔
لوگ کوئی اعداد و شُمار، جی ڈی پی ریشو، منشور اور پالیسی سُننا نہیں چاہتے نہ لوگ اِن چیزوں کو جانتے ہیں نہ سمجھتے ہیں۔ بد قسمتی سے یہاں ایسا کوئی رواج رہا ہے نہ سماج کی تربیت جمہوری بُنیادوں پر ہوئی ہے لہٰزا وہ صرف زبانی حملے دییکھنا چاہتے ہیں اور اُسکے نتیجے میں کون جیتا کون ہارا کا فیصلہ کرتے ہیں۔
تحریکِ اِنصاف کو درجہ بدرجہ ننگی لیگ کے لوگوں کی ایک فہرست مرتب کرنا ہوگی مثلاً
رانا ثنااللہ بمُقابلہ ڈبل شِفٹ والی سٹیٹمنٹ
مشاھداللہ بمُقابلہ میاں محمود الرشید
حنیف عباسی بمقابلہ انعاماُللہ نیازی
صدیق الفاروق بمقابلہ فاروق امجد میر
شرمیلا فاروقی، فوزیہ وہاب، ماروی میمن، کشمالہ طارق وغیرہ بمقابلہ فوزیہ قصوُری
عابد شیر علی بمقابلہ عمران اِسماعیل
خواجہ سعد، خواجہ آصف، احسن اقبال بمقابلہ شفقت محمود، عارف علوی، جہانگیر ترین
خرم دستگیر، مہتاب عباسی، ظفر اِقبال جھگڑا بمقابلہ شاہ محمود قریشی، سردار آصف احمد علی، خورشید قصوری
ترتیب بدلنا چاہیں یا کوئی تجاویز؟