چند دن گزرے کہ میں اپنے ایک دوست نما بزرگ سے بات کر رہا تھا۔۔۔ کہ ہر کچھ عرصے بعد ہمارے ملک میں ایک شوشہ اٹھتا ہے. سیکولر ازم اور لبر ل ازم کے جلو میں کفر کی ترجمانی کرنے والے؛بی بی سی ،عاصمہ جہانگیر،پرویز ہود بھائی و محمد حنیف اور اس نسل کے جاہل و بے عقل افراد ، قانونِ توہین (blasphemy law) کی آڑ میں ہمارے دین پر طعنہ زنی اور نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں توہین آمیز رویہ کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں۔۔۔ اور اس مکروہ شور کو لگام سلمان تا ثیر اور شہباز بھٹی کو جہنم واصل کرنے سے ہی ملتی ہے۔
اب کی بار رمشاء مسیح کے معاملے کو تروڑ مروڑ کر جس انداز سے اچھالا گیا، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔اس پر ہمیں کیا لکھنا چاہیے، اور کیا کرنا چاہیے۔۔۔؟
ذہن میں یہ سارے منظر اور یہ ساری کہانیاں تازہ ہیں کہ جب اللہ ربّ العزت کے بعد سارے جہانوں میں سب سے محترم و محبوب، ہادیٔ برحق، نبیٔ آخر الزماں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کی گئیں۔۔۔کبھی اخباروں میں خاکے چھاپے گئے، کبھی خاکے بنانے کے مقابلے کروائے گئے، اور کبھی فلم سازی کی گئی!ہماری غیرت و حمیت ِ ایمانی کو للکارا جاتا رہا!۔۔۔ اور مسلم امت کے نوجوانوں نے اپنے ایمان کی نشانیاں دکھانے اور نبیٔ اکرم ﷺ پر نثار ہونے کی تاریخ کو سینے سے لگائے رکھا۔۔۔ قاتلِ گستاخِ رسول، حضرت محمد بن مَسْلَمہ رضی اللہ عنہ کی سنت کو زندہ رکھا!کہیں غازی علم الدین شہید رحمہ اللہ کی صورت ابھرے، کہیں ممتاز قادری نے عشقِ نبی ﷺ کی پکار پر لبیک کہا اور کہیں عامر چیمہ رحمہ اللہ کے تیز دھار چاقو نے کفر کا دل دہلایا۔۔۔
ابھی میں انھی سوچوں میں گم تھا کہ ایک اور واقعہ میری توجہ کا مرکز بن گیا۔۔۔ اور خیال آیا کہ کہیں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ایسا نہ ہو کہ ساری قوم علامہ اقبال ؒ کے اسی تاریخی جملے کو کورَس میں دہرانے پر اکتفا کیے بیٹھی رہے کہ ....اسّی گلّاں کردے رہ گئے، تے ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا!
میڈیا پر نظر رکھنے والے حضرات بخوبی آگاہ ہوں گے کہ ہمارے ایمان پر چوٹ لگانے کے لیے، ہمارے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک گستاخانہ فلم بنائی گئی جس پر ساری دنیا میں احتجاج کی آوازیں بلند ہوئیں۔ ہم نے بھی کئی بلند بانگ دعوے کیے، تقریریں کیں، فیس بک پر تصویریں شیئر کیں، سٹیٹس اپڈیٹ کرتے رہنے کو ادائیگیٔ فرض سمجھا، جمعے کے بعد پُرامناحتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کی کال دی۔۔۔ مگر یمن، مصر اور لیبیا میں امت کے بیٹے اپنا عہد وفا کر کے ایک بار پھر بازی لے گئے!
میرے جذبات، میرے احساسات ناقابلِ بیاں ہیں، میرے ہاتھ یہ الفاظ تحریر کرتے کانپ رہے ہیں، ذہن اِس ایک نکتے کے علاوہ دیگر تمام سوچوں سے عاری ہے۔۔ مگر مجھ پر یہ سطریں لکھنا اس لیے لازم ہے۔۔۔ کہ لوگوں تک دل کی آواز بھی تو پہنچانی ہے ۔اگر حوضِ کوثر پر اُن کی سرکار سے جام پینا ہے۔۔۔تو عملی اقدام سے پہلے۔۔۔زبان سے گواہی بھی تو دینی ہے(ﷺ)! میرے پاس کہنے کو اگر کوئی جملہ ہے تو بس۔۔۔آخر کب تک۔۔۔؟۔ ذہن سوچتا ہے تو یہ کہ ہم کب تک خاموش رہیں گے؟ کب تک؟
اے میرے پیارے لوگو!۔۔۔ یمن، مصر و لیبیا والے پہلے بھی تم سے بازی لے گئے کہ انھوں نے امت کو اللہ کے حکم سے ایک نئی روشن امید دی ۔۔۔ جہاں کا نعرہ ۔۔۔الشعب یرید ۔۔۔اسقاط النظام۔۔۔ یعنی عوام چاہتے ہیں۔۔۔نظامِ کفر کا انہدام اور۔۔۔ الشعب یرید۔۔۔تحکیم شرع اللہ۔۔۔یعنیعوام چاہتے ہیں ۔۔۔اللہ کی شریعت کا نفاذ ہے!۔فصل ابھی کٹنا شروع ہوئی ہے۔۔۔اور انتہا ساری دنیا میں خلافت علی منہاج النبوۃ کا قیام ہے!۔۔۔ اور ذرا سوچو! اگر یہ خلافت قائم ہو جائے تو کیا کسی نجس کافر میں اتنی جرات باقی رہے گی کہ کائنات کے اعلیٰ و افضل ترین انسان ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے کا سوچ بھی سکے!
یمن کے بعض علاقوں میں شریعت کے نفاذ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔اس کے علاوہ مصر، شام اور لیبیا میں بھی دینی بیداری کی فضا موجود ہے۔ آج وقت تقاضا کر رہا ہے تو اس بات کا کہ ہمارے وطن میں بھی اللہ کی حاکمیت کے لیے تن من دھن وار دیا جائے۔۔۔شریعت یا شہادت کو اپنا نصب العین بنایا جائے، اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کو قائم کیا جائےاور اس تحریک کا حصہ بن جایا جائے کہ جس کا آغاز، آج سے بیس (۲۰) برس قبل، امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد نصرہ اللہ کی قیادت میں قندھار سے ہو اتھا!
ذکر ہمارے نبیٔ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اہانت آمیز فلم کا چل رہا تھا۔ اطلاعات کے مطابق اس فلم کو بنانے میں گستاخِ قرآن، ملعون ٹیری جونز کا بھی حصہ ہے اور وہ لعین اس خبر کے منظرِ عام پر آنے کے بعد اپنی جان بچاتا پھر رہا ہے۔۔۔کہ سارے ہی اس امر سے آگاہ ہیں کہ ان گستاخوں کا انجام وہی ہے جو کعب بن اشرف یہودی اور ابو رافع کا ہوا تھا!۔۔۔ مگر کیا ہوا کہ گستاخوں کو ان کے انجام تک پہنچانے کا کام اللہ اور اس کے رسول نے جس کے ذمہ لگایا تھا وہ مدہوش پڑا ہے؟۔۔۔وہ فقط نعروں اور جلسوں پر اکتفاء کرتا ہے۔۔۔حواس ختم ہوتے جارہے ہیں۔۔۔ہوش باقی نہیں رہا۔۔۔ غیرت و حمیت کے جذبات تو دور کی بات۔۔۔یہ الفاظ بھی اجنبی محسوس ہو رہے ہیں!
اے میرے وطن کے ہوش مند مسلمانو! اے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی شمع کے پروانو! اے قرآن کے پڑھنے والو!۔۔۔خوابِ غفلت سے جاگو!۔ اپنے احساسِ زیاں کو بیدار کرو، ایمانوں کو گرماؤ!، اور عالمِ کفر کو یہ پیغام دو کہ ہمارا گوشت ہماری ہڈیوں پر سے ادھیڑ دیا جائے۔۔۔یہ ہم پر چنداں گراں نہیں! مگر ہمارے نبی کی شان میں گستاخی!۔۔۔ اس کا جواب تو ہمارے پاس فقط تلواروں کی زبان میں ہے اور ہاں تلوار بھی اس لیے کہ اس سے زیادہ مہلک اور کوئی چیز میسر نہیں !
میرے بھائیو!میرے باحمیت جوانو! وہ عمل اپنائو جو بن غازی(لیبیا) میں امت کے بیٹوں نے امریکی سفیر کے ساتھ کیا ہے! انھوں نے کفر کے سینے کو چاک کر کے نبی ﷺ کا بدلہ لیا ہے کہ جس پر صلیبی کفر کا امام، اوباما بھی بِلبلا اٹھا ہے!۔ دیکھو مصر والے بازی لے گئے ہیں! انھوں نے قاہرہ میں موجود امریکی سفارت خانے پر لا الہ الا اللہ والے نبوی جھنڈے لہرا دیئے ہیں!۔ پرچمِ شریعت، یمن کے قلب صنعاء میں واقع امریکی سفارت خانے پر بھی لہرا رہے ہیں!۔ یہ جھنڈے عالمِ کفر کے لیے پیغام ہیں کہ جس نبیﷺ کی حرمت پر تم وار کر رہے ہو اس کے امتی اس کا فوری بدلہ لیبیا میں امریکی سفیر کرسٹوفر سٹیونسن(Christopher Stevensin) کے قتل کی صورت، افغانستان میں امیر المومنین ملا محمدعمر مجاہد نصرہ اللہ کے حکم کے مطابق ہر ہر جگہ امریکیوں کے قتل کی صورت لیں گے!۔۔۔ اور پوری مسلم دنیا میں نفاذِ اسلام کے لیے نظامِ کفر سے مکمل بغاوت کی لہر برپا کر کے خلافت علیٰ منہاجِ النبوۃ کی داغ بیل ڈال رہے ہیں۔۔۔ تاکہ تمہاری ان رزیل حرکتوں کا باب مستقلاً بند کر دیا جائے۔
ہمارے پاس سوچنے کا وقت نہیں ۔۔۔ یہ عمل کی گھڑی ہے! عالمِ کفر کو وہ پیغام دینے کا وقت ہے، جو تحریر اسکوائرکے پاس امریکی سفارت خانے کے باہر درج ہے: If your freedom of speech has no limits, may you accept our freedom of action! اگر تمہارے آزادیٔ اظہارِ رائے کی کوئی حدود نہیں ہیں، تو ہماری جانب سے عملی آزادیٔ اظہار، یعنی ہمارے ہاتھوں اپنا قتل ہونا قبول کرو!