Ethics and Self-Accountability Via Hassan Nisar

Kamran Stu

MPA (400+ posts)
Ethics:

The topic of ethics can be confusing, difficult and, at times, downright baffling! Somatic practitioners encounter ethical issues and dilemmas that do not always have simple, obvious solutions.

Self-Accountability:




As individuals, it is our capacity for self-accountability that keeps us functioning ethically and responsibly. While people may be accountable to others, they may not be as accountable to themselves when there is no one else to observe, monitor or hold them responsible.

Self-accountability is the cornerstone of ethics: It is who you are and what you do when no one is watching. When you have a well-developed sense of self-accountability, you are honest with yourself, and are answerable and responsible for what you say and do. You have the ability to look beyond the immediate moment to consider the consequences and know if you are willing to pay them. You have personal ethics.

Personal ethics is the precursor to professional ethics, since we are not likely to be more ethical in our professional life than in our personal life. As the saying goes, "No matter where you go, there you are." In other words, if we are dishonest in our personal life, we are likely to be dishonest in our business affairs. Likewise, if we cannot keep the secret of a friend, our client's confidentiality is also at risk.

Great Hassan Nisar Writting:


اندر کے جانور کی قربانی





کبھی کبھی کسی کا ایک جملہ یا جیسچر زندگی بھر کے لئے آپ سے چپک کے رہ جاتا ہے جیسے اس بھلی لوک کا یہ جملہ کہ چھٹیوں کے بعد چھٹیوں کی تھکن اتارنے کے لئے مزید چھٹیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ میری کلاس فیلو نہیں لیکن اچھی دوست تھی۔ اب تو اس کا ڈیپارٹمنٹ بھی یاد نہیں رہ گیا۔ ایک بار دوماہ کی چھٹیوں کے بعد ملے تو میں نے رسماً پوچھ لیا کہ ’’چھٹیاں کیسی رہیں؟‘‘برا سا منہ بناکر وہ تاریخی جواب دیا جو 40سال بعد بھی ہمیشہ تعطیلات کے بعد مجھے یاد آتا ہے تو اس کا چہرہ آنکھوں اور لہجہ کانوں میں رس گھولنے لگتا ہے۔بقر عید بلکہ بکرا عید کی چھٹیوں کے بعد ’’آرام کی تھکن‘‘ سے بدن ٹوٹ رہا ہے۔
حرام خوری کی عادت سی پڑ گئی ہے اور گوشت خوری چھوڑ کر ویجی ٹیرین ہو جانے کوجی چاہتا ہے۔ اس لئے نہیں کہ کھایا بلکہ اس لئے کہ ٹی وی سے لے کر گلی گلی دیکھا بہت۔ اوپر سے قربانی کے جانوروں کی آلائشیں اتنی کہ ٹی وی سے گھن اور بدبو آنے لگی جو اب تک آ رہی ہے۔ وہ گند ڈالنا ہی کیوں جسے سنبھالنا مشکل ہو جائے لیکن ہم تو وہ زندہ دلان ہیں جو گند تو خود ڈالتے ہیں لیکن صفائی کے لئے غیرملکی کمپنیوں کو لمبے لمبے ٹھیکے دیتے ہیں، پھر اس کا کریڈٹ ہی نہیں کمیشن بھی لیتے ہیں۔اونٹ سے لے کر بکرے تک قربانی کے جانور ذبح کرنا بلکہ کرانا بہت آسان ہے لیکن اپنے اندر کے جانور کو قربان کرنا آسان نہیں، تقریباً ناممکن ہے۔ اس کے لئے تو قصائی بھی کرائے پر نہیں ملتا اور خود کو ذبح کرنے کے لئے بڑا جگرا چاہئے کیونکہ اپنے خون کے ساتھ ہولی کھیلنا بڑی جی داری کا کام ہے جو مفادات کے پجاری ، بیوپاری کر نہیں سکتے۔
اپنے اندر کے جانور قربان کرنے کے لئے ہتھیار اور اوزار بھی تو کسی منڈی میں دستیاب نہیں۔ نہ چھریاں نہ چھرے نہ بندے جو اپنے ہاتھوں اپنے خلاف استعمال کئے جاسکیں کہ یہ صرف صاحبانِحال کا کمال ہےورنہ عام آدمی تو اپنے اندر کے باڑے کے ہر جانور کو اولاد کی طرح پالتا اور افزائش نسل پر خوش ہوتا ہے۔اپنے اندر کے باڑے میں بندھے یا کھلے پھرتے جانور قربان کر دینا ہی اصل قربانی ہے لیکن المیہ یہ کہ ایسے جانور اونٹوں، گائیوں، بھینسوں، بکروں، چھتروں کی مانند معصوم، بے ضرر اور کمزور نہیں ہوتے جنہیں جھٹکے سے چشم زدن میں بوٹی بوٹی کیا جاسکے۔ لالچ، لوبھ، خودغرضی اور ہوس کے چارے پر پلنے والے یہ جانور بہت سخت جان ہوتے ہیں۔
بالکل ان اساطیری جانوروں جیسے جنہیں دو حصوں میں کاٹ دیا جائے تو وہ ایک سے دو ہو جاتے ہیں۔ ان دو کے چار ٹکڑے کردیئے جائیں تو و ہ چار میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس۔ایسے معاشرے جن میں ایسے جانور انسانوں کی اصل آبادی سے کئی گنا زیادہ ہوجائیں مثلاً انسان 20کروڑ اور یہ جانور 100کروڑ ہو جائیں تو خود ہی سوچ لیں وہاں بنے گا کیا؟ ماحول کیسا ہوگا؟ انسانی زندگی اور رشتے کیسے ہوں گے؟ اقدار اور معیار کا کیا بنے گا؟آنکھیں نہیں اپنی کبھی چہرہ نہیں اپناوہ بھوک ہے اعضا کہیں اعضا کو نہ کھالیںانسانی معاشرہ انسانی جسم کی مانند ہی ہوتا ہے۔ اک ایسے جسم کا تصور کریں جس کے دانت خود اپنے مختلف اعضا کو ہی کھانے، چبانے، نوچنے، بھنبھوڑنے، چچوڑنے لگیں۔ دایاں بازو بائیں کو توڑ رہا ہو، ایک ٹانگ دوسری کو ٹھڈے ماررہی ہو، ہاتھ بڑھے ہوئے ناخنوں کے ساتھ خود اپنی ہی آنکھیں نکالنے پر تل جائیں۔
خود اپنا قیمہ، گردہ اور کلیجی اپنی ہی چربی میں بھوننا اور پھر اس پر نمکیات چھڑک کر اس ڈش سے لطف اندوز ہونا کیسا لذیذ تجربہ ہوتا ہوگا؟ ایک بار کھا کردوسری بار کھانے کی ہوس ہے جو ہر کھانے کے بعد دوچند ہوتی چلی جاتی ہے اور پورا انسانی معاشرہ ’’آئی فار مائی سیلف‘‘ کی جیتی جاگتی مثال دکھائی دینے لگتاہے۔ہم بھی بہت عجیب ہیں، اتنے عجیب ہیں کہ بسخود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیںتہواروں کی روحوں سے دوری ہو جائے، ان سے جانکاری باقی نہ رہے تو جاں کنی کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے یعنی اک ایسی کیفیت جس میں نہ پوری طرح زندہ نہ پوری طرح مردہ اور یہی وہ مرحلہ ہے جس میں اپنے بھی یہ دعا مانگنے پرمجبور ہو جاتے ہیں کہ ’’اللہ پاک اس کو صحت عطا فرما یا اس کی مشکلیں آسان فرمادے۔‘‘اک عام آدمی تقریباً 25، 30سال میں خودکفیل ہو کر قربانی کے قابل ہوتا ہے۔ 30
سے بھی شروع کریں تو 50سال کی عمر تک پہنچنے میں 20سال درکار ہیں اور اگر آدمی ہر عید قربان پر اپنی کسی ایک برائی بدی کا صرف ایک جانور ذبح، قربان کردے تو اس کا مطلب ہے 50سال کا ہونے تک وہ بیس برائیوں اور بدیوں سے چھٹکارا پا چکا ہوگا اور سچی بات ہے میں نے آج تک کوئی ایسا انسان نہیں دیکھا جس میں بیس برائیاں ہوں لیکن پھر وہی بات کہ سو اونٹوںکی قربانی دینے والاشخص بھی اپنے اندر کے باڑے کا صرف ایک جانور بھی ذبح اور قربان نہیں کرسکتا حالانکہ یہی وہ قربانی ہے جس کے بارے کہا گیا تھا ’’اللہ کو پیاری ہے قربانی‘‘ کہ صرف جانور قربان کرنے سے ہی قربانی مکمل نہیں ہوتی۔جب کبھی سنت ِابراہیمی ؑ کا سوچتا ہوں، روح کانپنے اور کپکپانے لگتی ہے لیکن یہاں تو ’’بڑی عید‘‘ کا مطلب ہی صرف ’’بڑی خوشی‘‘اور ’’بڑا جشن‘‘ رہ گیا ہے۔اے میرے رب! ہر عید قرباں پر اپنے اندر کا ایک جانور قربان کرنے کی توفیق، ہمت اور بصیرت عطا فرما تاکہ میں تیرے پسندیدہ لوگوں کی صف میں جگہ پاسکوں۔

https://jang.com.pk/print/371095-andar-ke-janwar-ki-qurbani

 
Last edited by a moderator:

Back
Top