Imran Siddiqi
Minister (2k+ posts)

جرمنی کی کمپنی بائیون ٹیک اور امریکی کمپنی فائزر کے اشتراک سے تیار ہونے والی کووِڈ-19 کی ویکیسن کے پیچھے ایک ترک نژاد جوڑے کی کہانی ہے جس نے اپنی پوری زندگی کینسر کے خلاف امیون سسٹم کو بہتر بنانے کے لیے وقف کر دی۔
فائیزر نے اعلان کیا ہے کہ تجرباتی سطح پر کووِڈ-19 کے لیے تیار ہونے والی ویکسین کے ابتدائی سطح پر کیے گئے تجربے، تجزیے اور مطالعے سے ثابت ہوا ہے کہ اس کے 90 فیصد نتائج بہتر آئے ہیں۔ اس کمپنی کو امید ہے کہ جلد ہی امریکہ کی فوڈ اینڈ ڈرگز ایجنسی ہنگامی بنیادوں پر اس ویکسین کے استعمال کی اجازت دے دے گی۔

خبر رساں ادارے روئیٹرز کے مطابق، اس ترک نژاد جوڑے کا تعلق ایک کم آمدن طبقے سے تھا۔ بائیون ٹیک کے 55 برس کے سربراہ ڈاکٹر اوگر شاہین جرمنی کے شہر کولون میں فورڈ کمپنی میں ایک ترک تارکِ وطن کے طور پر مزدور تھے۔ اب ڈاکٹر شاہین کا اپنی 53 برس کی بیوی ڈاکٹر اوزلم تورجی کے ہمراہ جرمنی کے سو ارب پتیوں میں شمار ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر اوگر شاہین شام کے شہر حلب کے کی سرحد کے قریب ترکی کے شمال جنوبی شہر اسکندرون میں پیدا ہوئے تھے۔ روئٹرز کی خبر کے مطابق وہ اپنے والد کے ساتھ جرمنی منتقل ہوئے تھے۔ اس وقت امریکی حصص کمپنی 'ناسدق' کے مطابق ڈاکٹر شاہین اور ڈاکٹر تورجی کی کمپنی کی قیمت 21 ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکی ہے۔ گزشتہ جمعے تک اس کی قیمت 4.6 ارب ڈالر تھی۔

بائیون ٹیک میں سرمایہ کاری کرنے والے وینچر کیپٹل ایم آئی جی-اے جی کے بورڈ کے ممبر ماتھیاس کرومیر کہتے ہیں کہ ڈاکٹر اوگر شاہین بہت سادہ مزاج شخص ہیں اور جب بھی اپنے دفتر میں بڑے سے بڑے اجلاس میں آتے ہیں تو ہلمٹ پہن کر اپنی بائیسکل پر سوار ہو کر آتے
اور جینز پہنے ہوئے ہوتے ہیں۔
روئٹرز نے لکھا کہ ڈاکٹر اوگر شاہین ان افراد میں سے ہیں جنہیں بچپن سے ہی میڈیسن پڑھنے کا شوق تھا اور وہ کوئی بڑا کام کرنا چاہتے تھے۔ اپنے اس خواب کی تکمیل کے لیے انھوں نے تعلیم کے بعد کولون اور ہومبُرگ کے مختلف تدریسی ہستالوں میں کام کیا۔ ہومبُرگ میں اپنے کیریئر کے آغاز میں ان کی ملاقات ڈاکٹر تورجی سے ہوئی۔
میڈیکل ریسرچ اور علمِ سرطان (اونکولوجی) میں دونوں کی گہری دلچسپی تھی۔
ڈاکٹر تورجی خود ایک ترک نژاد ڈاکٹر کی بیٹی ہیں جو خود ترکی سے ایک تارک وطن کی حیثیت سے جرمنی آئے تھے۔ ایک جریدے کے مطابق دونوں کو اپنے کام سے اتنا زیادہ لگاؤ تھا کہ جس روز ان کی شادی تھی وہ اس روز بھی اپنی لیبارٹری میں کام کر رہے تھے اور وہیں سے گھر پہنچ کر تیار ہوئے اور
شادی کی رسومات ادا کی گئیں۔
ان دونوں نے اپنی تحقیق کے دوران جسم کے دفاعی مزاحمت کے ایسے نظام (امیون سسٹم) کا سراغ لگایا جو کینسر کے خلاف لڑائی میں مددگار ثابت ہوتا ہے اور ہر ایک ٹیومر کی منفرد خصوصیات کے مطابق
اس کے خلاف مزاحمت پر تحقیق کی۔
روئٹرز کے مطابق ان کے بزنس کا آغاز اس وقت ہوا جب انھوں نے سنہ 2001 میں گینیمڈ فارماسیوٹیکلز کا آغاز کیا اور کینسر سے لڑنے والے اینٹی باڈیز تیار کیے۔ لیکن شاہین اس وقت یونیورسٹی آف مینز میں پروفیسر تھے، انھوں نے اپنی تحقیق اور تدریس کا کام کبھی بھی نہیں روکا۔
ان کے کام کو بہت اہمیت ملی اور انھوں نے دو وینچر کیپیٹل سرمایہ کار کمپنیوں سے سرمایہ کاری حاصل کر لی۔ ایک تو اے آئی جی-اے جی تھی جبکہ دوسری ٹامس اینڈ اینڈریاز سٹرونگمین تھی جس نے نے ان جنرک ادوایات سازی کا کاروبار ہیگسیلز اور نووارٹیس کو فروخت کیا۔
اس کے بعد یہ وینچر کمپنی جاپان کی ایسٹالا کمپنی کو سنہ 2016 میں تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالرز میں فروخت کردی گئی۔ اس دوران گینیمڈ کمپنی جو اس سرمایہ کاری میں شامل تھی، وہ بائیون ٹیک کے بنانے میں ان کا ساتھ شامل ہو گئی، جس نے سنہ 2008 میں کینسر کی امینولوجی کا نظام (امیونوتیھریپی) تیار کرنے کا ایک بڑا بیڑا اٹھایا ہوا
تھا۔
اس میں ایک ایسا مواد بھی (ایم آر این اے) تیار کرنا شامل تھا جو خلیوں کو جینیاتی پیغام دے سکے۔ایم آئی جی کمپنی کے لیے ڈاکٹر شاہین اور ڈاکٹر توراجی ایک ایسی ٹیم تھی جو ان کے ایک بڑے خواب کی تعبیر دینے والی تھی۔ انھوں نے ان پر بھرپور سرمایہ کاری کی اور انھیں اس بات کی مکمل آزادی دی کہ وہ اپنی مرضی سے حقائق کے
مطابق اپنی ریسرچ جاری رکھیں۔
بائیون ٹیک کی ترقی کی کہانی میں،روئٹرمز نے لکھا کہ، اس وقت ایک منفرد تبدیلی آئی جب ڈاکٹر شاہین کی نظر سے چین کے ووہان شہر میں کورونا وائرس پر ایک ریسرچ مقالہ گزرا۔ اس وقت ان کے ذہن میں خیال آیا کہ کینسر کے خلاف تیار کی جانی والی ’ایم آر این اے‘ دوا اور وبا پھیلانے والے اس وائرس 'ایم آر این اے' کی ویکسین کے درمیان کتنا کم فرق ہے۔
BBC Article on Covid Vaccine
Daily Mail Article on Covid Vaccine
Last edited by a moderator: