جوبائیڈن اور سعیدہ وارثی
سعید آسی
سعیدہ وارثی نے ہمارے معاشرے کا دو دن کا چلن اور ہماری سیاست کا دو دن کا رنگ دیکھ کر اگر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ وہ پاکستان کی سیاست کے لئے خود کو موزوں نہیں سمجھتیں تو انہوں نے ہمارے سیاسی کلچر کی ٹھیک ہی نشاندہی کی ہے۔ ہمارے سیاسی کلچر میں اگر جھوٹ، بددیانتی، وعدہ خلافی، اختیارات کے ناجائز استعمال، اخلاق باختگی، چوری سینہ زوری اور لوٹ مار کو فروغ دے کر اس پر تاسف کا اظہار بھی نہ کیا جاتا ہو بلکہ وزیراعظم کی سطح پر فخریہ انداز میں باور کرایا جاتا ہو کہ یہ سب کچھ تو ہمارے کلچر کا حصہ ہے تو اس کلچر میں بے چاری سعیدہ وارثی ہی کیا، اوبامہ بھی توبہ توبہ کر اٹھیں۔
برطانوی حکمران کنزرویٹو پارٹی کی چیئرپرسن پاکستان آ کر اس معاشرے میں اسلام کی نشاة ثانیہ والی قدریں ڈھونڈ رہی ہیں مگر یہاں انہیں منافقت، ریاکاری، ہیراپھیری اور انسانی بے توقیری کے سوا کچھ نظر نہیں آیا ہو گا اس لئے ان کی تڑپ بے ساختہ ان کے لبوں پر آ گئی کہ برطانوی معاشرے میں تو اسلامی تعلیمات ساری کی ساری روبہ عمل ہیں مگر اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت خداداد پاکستان میں اسلامی تعلیمات و اقدار کا شائبہ تک نہیں ملتا۔ ہمارا معاشرہ تو پوری دنیا میں یکتائے روزگار ہے۔ کوئی اس کی مثال بن سکتا ہے نہ پیش کر سکتا ہے۔ بقول عدم
میرے محبوب یہ دنیا بڑی دلچسپ دنیا ہے
یہاں آ کر خدا بھی موردِ الزام ہو جائے
یہاں سیاست اس لئے عبادت سمجھ کر اختیار کی جاتی ہے کہ یہ سیاست ہمارے پروٹوکول کلچر کے عین مطابق ہے۔ دوسروں پر اپنی دھاک بٹھانے والے اختیارات اور ہر جرم کی سزا سے خود کو بری الذمہ ٹھہرانے والے اختیارات۔ شہنشاہ معظم بننا اور ظلِ الٰہی کہلانا ہمارے معاشرے ہی کا خاصہ ہے اور شہنشاہ معظم بن کر خود کو قانون، انصاف، عدالت نہ سمجھا جائے، بھلا یہ کیسے ممکن ہے ہم اپنے کلچر کی نفی تو نہیں کر سکتے۔
سعیدہ وارثی کو برطانوی سیاست میں وارد ہونے کے بعد کنزرویٹو پارٹی کے مرکزی عہدے تک پہنچنے کے پراسس میں نہ جانے کتنی ریاضت و عبادت کرنا پڑی ہو گی۔ اگر وہ ہمارے سیاسی کلچر میں پروان چڑھتیں تو جستیں بھرتی ہوئی کہاں سے کہاں جا نکلتیں۔ الیکشن لڑنے کے لئے کسی تعلیمی شرط کو پورا کرنا بھی ان کے لئے چنداں مشکل نہ ہوتا۔ ڈگری جعلی ہو یا اصلی۔ ہمارے کلچر میں سب چلتا ہے اور مسندِ اقتدار پر بیٹھ کر تو اپنی ہر برائی اچھائی بنی نظر آتی ہے اور ہر جرم کی سزا سے استثنیٰ اپنا قانونی اور آئینی استحقاق بنا لیا جاتا ہے اور پھر ان برائیوں کی فخریہ انداز میں وکالت بھی کی جاتی ہے کہ یہ تو ہمارے کلچر کا حصہ ہے۔
اوبامہ نے بھی اپنے بچپنے اور جوانی کے کچھ دن پاکستان میں گزارے ہوئے ہیں۔ اگر وہ ہمارے سیاسی کلچر کو اپنائیں تو امریکہ میں اپنی مورثی سیاست کے بیج بو کر ان کا میٹھا پھل بھی کھا سکتے ہیں مگر نہ جانے کیوں ایسے کم عقلوں کو ہمارے معاشرے کی سیاسی مٹھاس جیسی ترغیب و تحریص کا شعور سجھائی ہی نہیں دیتا۔ امریکی نائب صدر جوبائیڈن ہمارے سیاسی اکھاڑے کے پہلوان ہوتے اور بطور سنیٹر اپنے اختیارات کے معمولی سے ناجائز استعمال پر دو لاکھ 19 ہزار ڈالر کا جرمانہ خاموشی سے بھگت لیتے۔ ان کی تو ہمارے سیاسی کلچر میں ناک ہی کٹ جاتی۔ امریکی عدالت نے تو ان کے نائب صدر کے منصب کا بھی دید لحاظ نہیں کیا اور یہ الزام ثابت ہونے پر کہ انہوں نے 2008ءکے صدارتی انتخاب میں اپنی سنیٹر کی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھا کر ایک نجی کمپنی کا طیارہ ڈسکاﺅنٹ ریٹ پر حاصل کر لیا تھا، ان پر جرمانے کی سزا لاگو کر دی اور انہوں نے بھی اس سزا کو انتقامی سیاسی کارروائی قرار دیا نہ اس سزا کے خلاف اپنا نائب صدر کا استثنیٰ جتایا۔ ہمارے سیاسی کلچر میں تو سرکاری فضائی کمپنی کے طیارے وزیر قانون کی سطح کے سیاستدانوں کی دستبرد سے بھی محفوظ نہیں رہتے۔ ضمنی انتخابات تک میں اپنے پارٹی امیدوار کی مہم کے لئے اپنی سرکاری حیثیت میں قومی خزانے کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے قومی پروازوں کے پھیرے لگوانے میں بھی عار محسوس نہیں کی جاتی اور بلند ترین حکومتی ریاستی منصب پر فائز ہونے کے بعد اس منصب سے پہلے کے سرزد ہونے والے اپنے جرائم پر بھی آئینی استثنیٰ حاصل کر لیا جاتا ہے۔ میرٹ کی دھجیاں بکھیر کر سرکاری ملازمتیں اپنے پیاروں، جاں نثاروں میں ریوڑیوں کی طرح بانٹنا اپنا استحقاق بنا لیا جاتا ہے۔ اپنے محکموں سے متعلق سرکاری سَودوں میں اپنی مرضی کا کمیشن مقرر کرانا اور کک بیک وصول کرنا اپنے حکومتی فرائض میں شامل کر لیا جاتا ہے اور عوام الناس کو راندہ درگاہ بنا کر تمام حکومتی وسائل اور مراعات اپنے گھر کے آنگن میں لا سمیٹنا اپنے منصب و اختیار کے لوازمات کا حصہ بنا لیا جاتا ہے تو بھلا ہمارے اس وکھری ٹائٹ کے سیاسی کلچر کا کون مقابلہ کر سکتا ہے۔
مغربی دنیا کے یہ عجیب انسان ہیں کہ سرکاری مناصب میں خود تو آلائشوں سے پاک رہتے ہیں۔ ہر قسم کی قانونی اور آئینی جوابدہی کے خود کو تابع رکھتے ہیں۔ اپنے اختیارات کے دائرے سے پاﺅں کی ایک انگلی بھی باہر نکالنے کا تصور نہیں کر پاتے۔ موروثی سیاست کو کبھی اپنے ذہن کا خناس نہیں بننے دیتے اور اپنی جمہوری حکمرانیوں کے خلاف آمرانہ جرنیلی سازشوں کا جنون پیدا ہی نہیں ہونے دیتے مگر ہمارے وہی حکمران انہیں اچھے لگتے ہیں جو جمہوریت کا ستیاناس کرکے اقتدار کی مسند پر آ براجمان ہوتے ہوں اور ہر قسم کی آلائشوں سے مالامال ہوں۔ پھر قانون کے آگے جوبائیڈن کی تابعداری اور سعیدہ وارثی کے اسلامی اصولوں کی عظمت کے درس اور ہمارے سیاسی کلچر سے توبہ توبہ کرنے کے ان کے انداز کو کس کھاتے میں ڈالا جائے۔ یہ بھی تو مکاری و عیاری ہے کہ جو اپنے لئے پسند کرتے ہو دوسروں کو اس کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتے اور جو سسٹم آپ کے لئے قابل نفرت ہو اسے دوسروں کے گلے کا ہار بنا دیتے ہو۔ اس لئے بھائی صاحب کیا فرق پڑتا ہے اگر آپ اپنے پوتّر معاشرے کو اپنائے رکھیں اور ہم آلائشوں سے معمور اپنے گندے کلچر کا حصہ بنے رہیں۔ آپ کو اپنی اور ہمیں ہماری سیاست مبارک ہو۔
بھارت کیلئے مخدوموں کی خدمت اور خادم
ڈاکٹر محمد اجمل نیازی
میں حیران تھا کہ ہمارے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے اتنی جرات کیسے کر لی کہ بھارتی وزیر خارجہ کے بارے میں ایسے کلمات کہہ دیئے بھارت سے کسی یشونت سنہا نے کہا کہ مخدوم قریشی وزیر خارجہ بننے کا اہل ہی نہیں، یہ تو اس نے ٹھیک کہا ہے۔ سردار آصف احمد علی کے ہوتے ہوئے اسے وزیر خارجہ بنانا جیسے مخدوم گیلانی کو مخدوم امین فہیم کے ہوتے ہوئے وزیراعظم بنایا۔ سنا ہے مخدوم قریشی کو وزیراعظم بنایا جا رہا تھا۔ بندہ پنجابی ہو اور مخدوم بھی ہو، مخدوم امین فہیم کا مقابلہ اسی طرح ہو سکتا تھا۔ مخدوم امین فہیم کو وزیراعظم بنانے کا اعلان زرداری صاحب نے کیا تھا تو پھر وہ کتنا سطحی کتنا بے اندیش ہے کہ اسے سیاست سے ریٹائر ہو جانا چاہیے تھا اس طرح وزیر بننا حقیر بننا ہے۔ صدر زرداری جیسا سیاستدان اب پیپلز پارٹی میں نہیں بلکہ اب تو پاکستان میں بھی نہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے مقابلے کا آدمی چودھری نثار ہو گیا ہے۔ نوازشریف صدر زرداری کا پیپلز پارٹی والوں سے کم حامی نہیں۔ صدر زرداری سیاست میں نوازشریف سے بہت آگے ہے۔ شہبازشریف سے آگے نہیں تو پیچھے بھی نہیں۔ میڈیا صدر زرداری کے خلاف تھا اب نوازشریف کے خلاف ہے۔ کوئی بھی این آر او کا نام نہیں لیتا پہلے کہتے تھے صدر زرداری کو خطرہ ہے۔ اب کہتے ہیں دونوں کو خطرہ ہے۔ اب آرمی چیف جنرل کیانی کے لئے ایکسٹنشن کی خبریں چلا دی گئی ہیں۔ وہ اس سلسلے میں خاموش ہیں اور خاموشی نیم رضا ہوتی ہے۔ آرمی چیف کو بھی چپ کرا دیا گیا ہے وہ ویسے ہی چپ چاپ آدمی ہیں، گہرے آدمی بھی ہیں گہرائیوں اور خاموشیوں کی فطرت ایک ہے جنرل ضیاءکی خواہش ہوتی تھی کہ اس کے دل کی بات فرشتوں کو بھی کچھ دیر تک معلوم نہ ہو۔ اسے بھٹو نے آرمی چیف بنایا تھا۔ جنرل مشرف کو نوازشریف نے آرمی چیف بنایا تھا۔ اب صدر زرداری کی باری ہے اور نجانے آرمی چیف کے لئے کس کی باری ہے۔
مخدوم گیلانی کو یہ تاثر دیا گیا ہے کہ اس کا مستقبل پیپلز پارٹی کے ساتھ ہے اور پیپلز پارٹی صدر زرداری کے پاس ہے۔ سیاست یہ ہے کہ نوازشریف اور شہباز شریف حتیٰ کہ حمزہ بھی مخدوم گیلانی کی تعریف کرتا ہے اور وہ صرف صدر زرداری کا تابعدار ہے۔ نوازشریف کو اس طرح ڈرا کر رکھا ہوا ہے کہ میری حکومت گئی تو تمہاری باری نہیں آئے گی پھر شہبازشریف کی باری کیسے آئے گی۔ سلمان تاثیر کو صدر زرداری کی آشیر باد حاصل ہے وہ ساتھیوں کو خراب ہونے دیتے ہیں مگر ہر بار نہیں ہوتے دیتے۔ مخدوم قریشی بھارت کے لئے وہی جذبات رکھتا ہے جو صدر زرداری کے خیالات ہیں۔ پھر اس نے مذاکرات میں پورے تعاون کے بعد اچانک پنیترا بدل لیا۔ وہ لاڈ سے مصنوعی انداز میں بولتا ہے اس طرح تو کسی کو گالی دی جائے تو بھی بُرا نہیں لگتا۔ مگر سوچ سوچ کر سچ نہیں بولا جاتا۔ اس کے لئے بے ساختہ پن اور بھولپن کا بانکپن ضروری ہوتا ہے اور وہ مخدوم قریشی میں نہیں۔ اس نے کرشنا کے بھارت چلے جانے کے بعد کشمیر کا نام لیا پہلے کیوں نہ لیا۔ پانی کا مسئلہ کیوں نہ اٹھایا اسے یہ بھی معلوم نہیں کہ ہمارے جماعت علی شاہ کا رابطہ بھارت سے ہے اور وہ جنرل مشرف کا آدمی ہے سارے صوبوں کے گورنر بھی اس کے ہیں۔ جماعت علی شاہ پانی پر کیا بات کرے گا وہ تو پیٹ بھر کر پانی پینے کے بعد بھی پیاسا لگتا ہے مگر پیاس کی اہمیت اور کیفیت کو نہیں جانتا۔ پانی کا مسئلہ بھارت نے پاکستان کے اندر بھجوا دیا ہے۔ مذاکرات ناکام ہوئے سندھ پنجاب میں پانی کا تنازعہ بھی ختم ہو گیا اور پاک افغان راہداری کا معاہدہ بھارت کے لئے ہو گیا۔
بھارت سے مذاکرات کی ناکامی کے بعد خفیہ کامیابی کا تحفہ بھارت کو بھجوایا گیا معاہدہ تو افغانستان سے راہداری اور تجارت کا ہوا اور خوشیاں بھارت میں منائی گئیں۔ پہلے یہ راہداری مسئلہ کشمیر کے ساتھ منسلک تھی۔ چودھری ظہیر الدین نے اسے کشمیر کاز سے غداری قرار دیا ہے۔ رحمت وردگ نے کہا ہے کہ حکمران آزاد ہوتے تو امریکہ یہ معاہدہ نہ کرا سکتا ہم آتش فشاں پر کھڑے ہیں۔ نوازشریف کالا باغ ڈیم کے لئے سنجیدہ نہیں۔ اب پاکستان بالخصوص پنجاب میں دہشت گردی کے لئے بھارت کو مزید آسانی ہو گی۔ امریکی مقاصد بھی پورے ہوں گے کہ پاکستان میں انتشار اور خانہ جنگی کا ماحول پیدا کیا جائے۔ ہلیری نے پاکستان آتے ہی بھارتی وزیر خارجہ کرشنا کو فون کیا یہ بھی توہین ہے۔ مخدوم قریشی کی عزت گئی ۔ کوئی یہ بتائے کہ اس موقع پر امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کیوں آئی۔ امریکی جرنیل اور اہلکار آتے ہی رہتے ہیں سینکڑوں ملکوں میں اتنے امریکی اہلکار اتنی بار نہ گئے ہوں گے۔ انہوں نے پاکستان کو اپنی چراگاہ اور شکار گاہ بنایا ہوا ہے جب مخدوم امین فہیم بھارت کے فائدے کے لئے پاک افغان معاہدے پر دستخط کر رہا تھا تو ہلیری اس کے سر پر کھڑی تھی مگر پاک امریکہ نیو کلیئر معاہدہ کے لئے بڑی رعونت کے ساتھ انکار اور کشمیر کے معاملے میں بھارت کی حمایت؟ پاک چین نیوکلیئر معاہدے پر بھی امریکہ کو اعتراض ہے۔ مخدوم گیلانی نے نوازشریف کو فون پر اعتماد میں لیا پیپلز پارٹی اور ن لیگ بلکہ سب سیاستدان عالمی یعنی امریکی ایجنڈے پر ایک ہیں۔ شہبازشریف نے کرشنا کی شاعری کی تعریف کی۔ نوازشریف نے واجپائی کی شاعری کی تعریف کی واہ واہ پھر ارشاد کیجئے، مکرر بلکہ مقرر
ہلیری کلنٹن نے اس بار بھی صحافیوں کے سامنے بھیگی بلی جیسا انداز اختیار کیا۔ شاہ محمود قریشی کے لئے چالاک لومڑی بنی رہی جب ایوان صدر میں گئی تو صدر زرداری اس کے پیچھے پیچھے تھے۔ فرزانہ راجہ کی خوشامد پر ایک جملہ ہلیری نے کہا ۔ وہ صدر زرداری نے نہیں سنا میں لکھ بھی دوں تو وہ شائع نہیں ہو سکے گا ۔ بختاور اور آصفہ ہلیری سے ملیں، افغان وزیر خارجہ سے بھی ملیں وہ سچ سچ بتائیں کہ زیادہ خوشی کہاں ہوئی؟ اوباما کے ساتھ جذبات کے باوجود ہماری خواہش تھی کہ ہلیری جیت جائے۔ صدر اوبامہ نے مایوس کیا مگر شکر ہے کہ ہلیری امریکی صدر نہیں بنی۔ افغانستان کے ساتھ اتنی محبت بھی امریکی دباو کے تحت ہوئی، اور بھارت نے وہ فائدہ اٹھا لیا کوئی بتائے کہ پاک بھارت مذاکرات ناکام ہوئے یا کامیاب ہوئے۔ اس کے لئے خوشنود علی خان کی یہ بات ہی بہت کافی ہےمیں نے کہا تھا ہلیری آ رہی ہے بڑا غضب ڈھائے گی وہ تماشا دیکھنے آئی تھی اس رعایت کا جو ہم نے بھارت کو افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے بہانے سے دی ہے۔ اس کے بعد پاکستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری بڑھے گی۔ لگتا ہے ہم نے اپنے قومی مفادات کو بیچ دیا ہے ہم امریکی دباو میں ملکی مفادات کا سودا کرنے میں کہاں تک جائیں گے۔