Asad Varda
Citizen
لیڈی ٹی وی: دہشت گردی اور شدت پسندی سے متاثرہ شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں جدید صحافت کا آغاز کرنے والی لڑکیاں
پاکستان میں جب خواتین روزگار یا اپنے شوق کے لیے کسی ایسے شعبے کا انتخاب کرتی ہیں جسے رجعت پسند معاشرے میں پسند نہیں کیا جاتا تو انھیں ہر زاویے سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایسی ہی کچھ خواتین نے پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں جب شعبہ صحافت کا انتخاب کیا تو انھیں یہ کہا گیا کہ لوگ کیا کہیں گے، تمہارے رشتے نہیں آئیں گے، کہیں انھیں خاتون سمجھ کر کوریج سے روکا گیا تو کہیں معاشرتی اقدار کی پاسداری کی بات کہی گئی۔
لیکن ان تعلیم یافتہ لڑکیوں نے فرسودہ روایات کی زنجیروں کو توڑا اور اس نظام سے بغاوت کی ہے جس میں خواتین کو حقوق حاصل نہیں ہیں۔
پاکستان کے اس پسماندہ شہر میں سات سہیلیوں نے اپنے شوق کو پورا کرتے ہوئے عملی صحافت کرنے کا انتخاب کیا جس کو مقامی معاشرے میں خواتین کے لیے پسند نہیں کیا جاتا۔ ٹیکنالوجی اورسوشل میڈیا کی بدولت ان لڑکیوں نے معاشرتی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے علاقے کے مسائل عوام تک پہنچائے ہیں۔
گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان کے شعبہ صحافت سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ان لڑکیوں نے ویب چینل اور سوشل میڈیا پر ویب پیج کا آغاز کیا۔ ان میں ایمن شیخ، شفق شیرازی، عروہ احمد اور کلثوم شیخ سے ملاقات میں انھوں نے اس معاشرے کی تصویر کشی کی ہے جہاں خواتین کے لیے صرف چند ایک شعبے ہی قابل قبول ہیں جن میں تعلیم، صحت وغیرہ۔
شعبہ صحافت سے فارغ التحصیل ان لڑکیوں نے جو کچھ پڑھا اور سمجھا، اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے مختلف میڈیا دفاتر کے دروازے کھٹکھٹائے لیکن انھیں کوئی پزیرائی حاصل نہیں ہوئی۔ جس کے بعد ان لڑکیوں نے سوشل میڈیا پر اپنا ویب پیج شروع کیا جس کا نام لیڈی ٹی وی رکھا۔
ان خواتین صحافیوں کا کہنا تھا کہ اب وہ بااختیار ہیں اور اپنی مرضی سے کام کرتی ہیں انھیں کسی کی جانب سے کوئی دباؤ نہیں ہوتا اور جب ان کی بنائی گئیں رپورٹس پر لوگ اپنی رائے دیتے ہیں تو اس سے وہ بہت کچھ سیکھتی ہیں۔
شفق شیرازی اس وقت جرنلزم میں ایم فل کر رہی ہیں۔ وہ لیڈی ٹی وی کے لیے بطور رپورٹر اور پروڈیوسر کام کرتی ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں گھر والوں کی جانب سے اسلام آباد میں تو کام کرنے کی اجازت دی گئی لیکن ڈیرہ اسماعیل خان میں کام کے لیے مختلف توجیہات پیش کی گئیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض معاشروں میں جب خواتین کوئی کام ذرا ہٹ کر کرتی ہیں تو اسے قبول نہیں کیا جاتا۔
اس ٹیم کی دوسری رکن شفق شیرازی کا کہنا تھا کہ ’بہت سارے لوگ (خواتین) اس لیے بھی باہر نہیں آنا چاہتے کیونکہ وہ اس چیز کو برا سمجھتے ہیں کہ ان کی بیٹیاں اس طرح باہر فیلڈ میں نکلیں گی تو لوگ باتیں کریں گے اور سب سے بڑی بات یہاں پر یہ کہ اگر کوئی لڑکی فیلڈ میں آئی گی تو اس کا رشتہ ہی نہیں آئے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہاں لڑکیوں کو فیلڈ میں عملی صحافت کرنے کے لیے مجبوراً نقاب کرنا پڑتا ہے تاکہ کوئی انھیں پہچان نہ سکے کہ ان کا تعلق یہ کس خاندان سے ہے۔
شفق شیرازی کے بقول انھوں نے اس شعبے کا انتخاب اپنی پسند سے کیا اور جب وہ کسی مسئلے پر کوئی رپورٹ تیار کرتی ہیں تو انھیں اس پر اطمینان ہوتا ہے کہ انھوں نے ایک اچھا کام کیا ہے جس سے معاشرے کو یا ملک کو کوئی فائدہ ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے دیکھا دیکھی اب اور بھی خواتین اس میدان میں سامنے آ رہی ہیں۔
کلثوم شیخ بھی اسی گروپ کی رکن ہیں اور انھوں نے قانون کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے لیکن انھیں صحافت کا شوق ہے۔ کلثوم شیخ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ جب مقامی سطح پر میڈیا کے دفاتر کام کے لیے گئیں تو ان کو کام نہیں ملا اور مختلف وجوہات بیان کی گئیں جس کے بعد تمام ساتھیوں نے سوشل میڈیا پر اپنا چینل شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
Source: https://www.bbc.com/urdu/pakistan-49916419

پاکستان میں جب خواتین روزگار یا اپنے شوق کے لیے کسی ایسے شعبے کا انتخاب کرتی ہیں جسے رجعت پسند معاشرے میں پسند نہیں کیا جاتا تو انھیں ہر زاویے سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایسی ہی کچھ خواتین نے پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں جب شعبہ صحافت کا انتخاب کیا تو انھیں یہ کہا گیا کہ لوگ کیا کہیں گے، تمہارے رشتے نہیں آئیں گے، کہیں انھیں خاتون سمجھ کر کوریج سے روکا گیا تو کہیں معاشرتی اقدار کی پاسداری کی بات کہی گئی۔
لیکن ان تعلیم یافتہ لڑکیوں نے فرسودہ روایات کی زنجیروں کو توڑا اور اس نظام سے بغاوت کی ہے جس میں خواتین کو حقوق حاصل نہیں ہیں۔
پاکستان کے اس پسماندہ شہر میں سات سہیلیوں نے اپنے شوق کو پورا کرتے ہوئے عملی صحافت کرنے کا انتخاب کیا جس کو مقامی معاشرے میں خواتین کے لیے پسند نہیں کیا جاتا۔ ٹیکنالوجی اورسوشل میڈیا کی بدولت ان لڑکیوں نے معاشرتی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے علاقے کے مسائل عوام تک پہنچائے ہیں۔
گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان کے شعبہ صحافت سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ان لڑکیوں نے ویب چینل اور سوشل میڈیا پر ویب پیج کا آغاز کیا۔ ان میں ایمن شیخ، شفق شیرازی، عروہ احمد اور کلثوم شیخ سے ملاقات میں انھوں نے اس معاشرے کی تصویر کشی کی ہے جہاں خواتین کے لیے صرف چند ایک شعبے ہی قابل قبول ہیں جن میں تعلیم، صحت وغیرہ۔
شعبہ صحافت سے فارغ التحصیل ان لڑکیوں نے جو کچھ پڑھا اور سمجھا، اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے مختلف میڈیا دفاتر کے دروازے کھٹکھٹائے لیکن انھیں کوئی پزیرائی حاصل نہیں ہوئی۔ جس کے بعد ان لڑکیوں نے سوشل میڈیا پر اپنا ویب پیج شروع کیا جس کا نام لیڈی ٹی وی رکھا۔
ان خواتین صحافیوں کا کہنا تھا کہ اب وہ بااختیار ہیں اور اپنی مرضی سے کام کرتی ہیں انھیں کسی کی جانب سے کوئی دباؤ نہیں ہوتا اور جب ان کی بنائی گئیں رپورٹس پر لوگ اپنی رائے دیتے ہیں تو اس سے وہ بہت کچھ سیکھتی ہیں۔
شفق شیرازی اس وقت جرنلزم میں ایم فل کر رہی ہیں۔ وہ لیڈی ٹی وی کے لیے بطور رپورٹر اور پروڈیوسر کام کرتی ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں گھر والوں کی جانب سے اسلام آباد میں تو کام کرنے کی اجازت دی گئی لیکن ڈیرہ اسماعیل خان میں کام کے لیے مختلف توجیہات پیش کی گئیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض معاشروں میں جب خواتین کوئی کام ذرا ہٹ کر کرتی ہیں تو اسے قبول نہیں کیا جاتا۔

اس ٹیم کی دوسری رکن شفق شیرازی کا کہنا تھا کہ ’بہت سارے لوگ (خواتین) اس لیے بھی باہر نہیں آنا چاہتے کیونکہ وہ اس چیز کو برا سمجھتے ہیں کہ ان کی بیٹیاں اس طرح باہر فیلڈ میں نکلیں گی تو لوگ باتیں کریں گے اور سب سے بڑی بات یہاں پر یہ کہ اگر کوئی لڑکی فیلڈ میں آئی گی تو اس کا رشتہ ہی نہیں آئے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہاں لڑکیوں کو فیلڈ میں عملی صحافت کرنے کے لیے مجبوراً نقاب کرنا پڑتا ہے تاکہ کوئی انھیں پہچان نہ سکے کہ ان کا تعلق یہ کس خاندان سے ہے۔
شفق شیرازی کے بقول انھوں نے اس شعبے کا انتخاب اپنی پسند سے کیا اور جب وہ کسی مسئلے پر کوئی رپورٹ تیار کرتی ہیں تو انھیں اس پر اطمینان ہوتا ہے کہ انھوں نے ایک اچھا کام کیا ہے جس سے معاشرے کو یا ملک کو کوئی فائدہ ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے دیکھا دیکھی اب اور بھی خواتین اس میدان میں سامنے آ رہی ہیں۔
کلثوم شیخ بھی اسی گروپ کی رکن ہیں اور انھوں نے قانون کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے لیکن انھیں صحافت کا شوق ہے۔ کلثوم شیخ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ جب مقامی سطح پر میڈیا کے دفاتر کام کے لیے گئیں تو ان کو کام نہیں ملا اور مختلف وجوہات بیان کی گئیں جس کے بعد تمام ساتھیوں نے سوشل میڈیا پر اپنا چینل شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
Source: https://www.bbc.com/urdu/pakistan-49916419
Last edited by a moderator: