ہراسمنٹ کا کیس کرنے پر خاتون افسر کیخلاف افغان کمشنریٹ میں تفتیش

3afghnawomenharrasment.jpg

افغان کمشنریٹ سے تعلق رکھنے والی خاتون افسر نے اپنے ادارے کے خلاف ہراسمنٹ کا کیس کیا جس کے خلاف ایکشن لے لیا گیا، خاتون افسر کی جانب سے کیس کرنے پر افغان کمشنریٹ نے تفتیش شروع کردی ہے،

افغان کمشنریٹ کی خاتون افسر نے بتایا کہ جب سے انہوں نے ادارے کے دو افسران کے خلاف ہراساں کرنے کا کیس کیا ہے اس کے بعد سے انہیں مزید ہراساں کیا جارہا ہے،خاتون افسر نے اپنے خلاف شروع ہونے والی انکوائری پر عدالت سے رجوع کرلیا۔

خاتون افسر کی درخواست پر سماعت جسٹس محمد ابراہیم خان اور جسٹس شکیل احمد پر مشتمل دو رکنی بنیچ نے کی،درخواست گزار کے وکیل سلیم شاہ ہوتی نے عدالت کو بتایا کہ خاتون افسر نے کمشنریٹ کے دو افسران کے خلاف ہراسمنٹ کیس کیا تو کمشنریٹ نے الٹا خاتون کے خلاف انکوائری شروع کر دی ہے اور اب ان کو مختلف طریقوں سے تنگ کیا جا رہا ہے۔

افغان کمشنریٹ کے وکیل رزتاج انور نے عدالت کو بتایا کہ ایسا کچھ نہیں ہے، خاتون افسر نے 2012 سے 2020 تک مختلف ممالک کے 12 دورے کیے ہیں اور کوئی این او سی نہیں لیا، اسی پر انکوائری شروع کی گئی ہے، اس کے خلاف کوئی اور انکوائری نہیں ہو رہی۔

جسٹس محمد ابراہیم خان نے خاتون افسر سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو شوکاز ملا ہے؟ اس پر خاتون افسر نے بتایا کہ ان کو ابھی تک کوئی شوکاز نوٹس نہیں دیا گیا، افغان کمشنریٹ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ خاتون کو شوکاز نہیں دیا گیا، بلکہ ان کو چارج شیٹ کیا گیا ہے۔

جسٹس محمد ابراہیم خان نے استفسار کیا کہ چارج شیٹ ہراسمنٹ کیس کے بعد کیا گیا ہے یا پہلے؟ درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ چارج شیٹ ہراسمنٹ کیس دائر کرنے کے دو تین دن بعد کیا گیا۔

جسٹس محمد ابراہیم خان نے ریمارکس دیے کہ ہراسمنٹ کیس کرنے کے بعد چارج شیٹ کیا گیا، اس کا مطلب ہے ڈیپارٹمنٹ ہیڈ اس خاتون سے خوش نہیں ہے، اس وجہ سے چارج شیٹ کیا گیا ہے۔

جسٹس شکیل احمد نے مزید ریمارکس دیے کہ جن افسران کے خلاف ہراسمنٹ کیس کیا گیا، ان کی درخواست بھی زیر سماعت ہے، آج اگر ہم اس کیس پر فیصلہ جاری کرتے ہیں، تو اس کیس پر اس کا اثر پڑے گا، اس پر جسٹس محمد ابراہیم خان نے کہا کہ ہم ان دونوں کیسز کو ایک ساتھ سنیں گے اور فیصلہ جاری کریں گے،عدالت نے کمشنر افغان کمشنریٹ کو ذاتی حیثیت میں کل پیش ہونے کا حکم دے دیا اور سماعت کل تک کے لیے ملتوی کر دی۔

سماعت کے بعد خاتون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نجی ٹی وی سے گفتگو میں بتایا کہ جب سے میں نے ہراسمنٹ کیس کیا ہے اس دن سے یہ لوگ میرے پیچھے پڑے ہیں، افسران ہمیں مختلف طریقوں سے ہراساں کر رہے تھے، اس کے خلاف کمشنر کو درخواست دی لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔‘‘

خاتون نے کہا’’ہم نے صوبائی محتسب کو درخواست دی، انھوں نے کیس وفاقی محتسب کو بھیج دیا، وفاقی محتسب نے کیس کو سنا اور 8 ماہ بعد فیصلہ دیا، اور الزامات ثابت ہونے پر دونوں افسران کو نوکری سے برخاست کرنے کا حکم دے دیا۔‘‘

خاتون افسر کا کہنا تھا کہ اس کے بعد کمشنر نے ان کا تبادلہ ہری پور اور دوسری ساتھی خاتون کا تبادلہ ڈی آئی خان کیا، جس پر انھوں نے اس کے خلاف ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی، اور عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا، اور ٹرانسفر کی نوٹیفکیشن معطل کر دی۔

انھوں نے مزید بتایا لیکن جب ہم آفس گئے تو دوسرے ہی دن ہمارا تبادلہ پھر دوسرے آفس کیا گیا، جس آفس میرا تبادلہ کیا گیا ہے وہاں میرا کوئی کام نہیں ہے، میں روز جاتی ہوں لیکن کوئی کام نہیں ہوتا، اس آفس میں سارے مرد ملازمین ہیں، پورے آفس میں صرف میں ایک خاتون ہوں، ہراسمنٹ کیس کرنے کی یہ سزا مجھے دے رہے ہیں۔

ہراسمنٹ کیس میں نوکری سے برخاست ہونے والے افسران نے وفاقی محتسب کے فیصلے کے خلاف صدر پاکستان کو اپیل کی تھی، لیکن صدر پاکستان نے بھی ملزم افسران کی اپیل مسترد کر دی، اس کے بعد اب افغان کمشنریٹ نے بھی دونوں افسران کو نوکری سے فارغ کردیا۔
 

Back
Top