سابق نگراں وزیر گوہر اعجاز نے انکشاف کیا ہے کہ عوام سے 31 ہزار میگا واٹ بجلی کے اضافی پیسے وصول کیے جا رہے ہیں۔ گوہر اعجاز نے بتایا کہ پاکستان میں اس وقت 43 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے، جبکہ گزشتہ سال صرف 12 ہزار میگاواٹ بجلی استعمال ہوئی۔ اس اضافی بجلی کے بدلے عوام سے اضافی پیسے وصول کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب جو آئی پی پیز کام کر رہے ہیں، ان سے کہا گیا ہے کہ جو بجلی وہ پیدا کریں گے، اس کے پیسے انہیں ملیں گے۔ گوہر اعجاز نے یہ بھی کہا کہ ہمارے لیے کوئلے کے پلانٹس ایک سنگین مسئلہ بن چکے ہیں کیونکہ یہ پلانٹس صرف 10 فیصد بجلی پیدا کرتے ہیں۔ کچھ آئی پی پیز کو 32، 32 سو کروڑ روپے دیے گئے، مگر وہ پلانٹس بالکل نہیں چل رہے تھے۔
سابق نگراں وزیر نے وزیر خزانہ کے بیان پر بھی تنقید کی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ نقصانات کی سبسڈی صارفین سے وصول کی جائے گی۔ گوہر اعجاز کے مطابق، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بجلی پیدا نہیں ہو رہی، اس کے پیسے بھی عوام سے لیے جائیں گے۔
گوہر اعجاز نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان کی جو 86 فیصد بجلی نیوکلیئر انرجی سے آ رہی ہے، اس کے باوجود حکومت صارفین سے مزید 100 ارب روپے وصول کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اور انہیں یہ کوئی بڑی بات نہیں لگتی۔
اس موقع پر سابق چیئرمین اپٹما آصف انعام نے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی صنعتیں اس لیے متاثر ہو رہی ہیں کیونکہ سارا بجلی کا بوجھ انرجی سیکٹر پر آ رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گوداموں سے گندم یا تیل کی چوری ایک ہی مسئلہ ہے اور اسے اسی طرح سختی سے نمٹنا چاہیے جیسے گندم چوری کے کیسز پر کارروائی کی جاتی ہے۔
اس بحث نے پاکستان کے توانائی بحران، معاہدوں کی پیچیدگیوں اور عوام پر بڑھتے ہوئے بوجھ کو مزید اجاگر کیا ہے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/gohar.jpg