jani1
Chief Minister (5k+ posts)

گل خان کاگلہ، میراثیوں کے گلے۔۔۔۔ تحریر؛جانی
صبح جب میں اپنی کھٹارا چیاسی، لگتی رہتی ہے جسے اکثر کھانسی میں گھر سے بازار کی طرف گاوں کے لہلاتے کھیتوں کے قریب سے
گزرہا تھا ۔۔ تو راستے میں میرا جگری یار گل خان ملا۔۔ بڑا اداس لگ رہا تھا۔۔ میرے پوچھنے پر پہلے تو ٹال مٹول کرتا رہا پھر کہنے لگا۔۔
زمانہ بدل گیا ہے یار، ۔۔ اب بلو وہ بلو نہ رہی جو کھبی میری راہ تکتی رہتی تھی۔ یا پھر یہ اس کے ڈاکو ابے کا اس پر بڑھتا کنٹرول ہے کہ نہ فون اٹھاتی ہے، نہ میری کسی پوسٹ پر لائیک دیتی ہے اور نہ ہی وزٹ۔۔ سوچھتا ہوں فیس بک اور سوشئیل میڈیا سے تعلق توڑ کر اور ان جھمیلوں سے منہ موڑ کر کہیں اپنا موبائل کباڑی کو بیچ ڈالوں ، اور بدلے میں چائینہ کا کوئی ارسطو خرید لوں، کم از کم مفت میں اپنی چولوں سے دل پشوری تو کراتا رہے گا۔۔
یار تم تو بڑے دور نکل گئے۔۔ بلو سے سیدھے ارسطو پر وہ بھی چائنہ کے۔۔ میری بات کا جواب دیتے ہوئے وہ پیسنجر سیٹ پر بیٹھ گیا اور اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے بولا۔۔
نہیں ناں یار۔۔ تم خود ہی دیکھ لو۔۔ جو چولوں کا بازار آجکل گرم ہے۔۔ اس نے تو بڑے بڑے اپنی ذات میں مکمل دانشوروں کی شلوار اتار کر ان کے سرپر باندھ دی ہے۔۔ اور نسوار کی ایک چُٹکی ان کے۔۔۔۔۔۔۔
ہاہاہاہا۔۔۔ بس کرو یرا۔۔۔ اب کیا ہوگیا ۔۔ کیوں ایسے آگ برسارہے ہو آج۔۔اس کی ناقابل اشاعت بات پر میں گاڑی کے ساتھ اپنی ہنسی کی سٹیرنگ بھی سنبھالتے ہوئے بولا۔۔
یار یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ کوئی میراثی میری گلی میں روزانہ یا اکثر لوگوں کے خوشی و غم کی خبروں سے روزی کمائے۔۔ مگر جب کوئی نئی
خبر نہ آئے اور وہ پیسہ نہ بنا پائے تو گاوں والوں کو قصور وار ٹہرائے۔۔ یرا تم کوئی اور کام کیوں نہیں کرلیتے۔۔
کچھ ہی عرصے میں میری دی ہوئی ڈائجسٹوں اور دوچار تاریخی کتابوں اور ایوننگ اسپیشل جیسے اسپیشل اخباروں کے بجائے کچھ عام اخباروں کو پڑھنے سے جس تیزی سے گل خان نے اپنی اردو صاف کی تھی ۔۔ ملکی صحافت اور اس کی دن بدن خستہ ہوتی حالت پر بات اس سے بھی صاف مگر گہری کرگیا تھا وہ۔۔
بات تو ٹھیک ہے تیری مگر۔۔ کیا کریں۔۔ پچھلے ادوار میں جن کے ہاتھ میں اقتدار تھا انہوں نے ان کی عادتیں بگھاڑیں۔۔ ورنہ یہی لوگ تھوڑے میں بھی گزارہ کرنےوالے تھے۔۔مطلب ۔۔ ان کے کام کا معاوضہ اگر پچاس ہزار سے ایک لاکھ بننا تھا تو ادارے حکومتی سرپرستی میں انہیں پانچ پانچ لاکھ اور دس دس لاکھ سے نوازتے ۔۔ کیونکہ یہ صحافی کم اور ان کے ڈھونڈھورچی زیادہ بن گئے تھے۔۔میں نے ایک ہی سانس میں اس کی گہری بات کا جواب گاڑی کو بازار میں داخل کرتے ہوئے دیا۔۔
اس کا مطلب ہے ۔۔ اس حکومت نے انہیں مفت میں پالنا بند کیا ہے۔ جس سے اب یہ تڑپ رہے ہیں اور زیادہ تر بےروزگار اور بقیہ پہلے والے فل ٹائم بے ایمان، اب کچھ بےایمان تو کچھ ایماندار بن رہے ہیں۔
چلو اچھا ہے ان کی جھوٹی سچی خبروں سے یہ قبروں میں چلے جائیں اور ان سے قوم کی جان چھوٹ جائے تو اور ہمیں کیا چاہیئے۔۔اخخختھوووو۔۔۔
اس نے بات مکمل کرتے ہی نسوار ایسے تھوکی جیسے کسی لفافی کے منہ پر تھوک دی ہو۔۔مگر۔۔ ساتھ ہی ساتھ ہمارے ایک پرانے جاننے والے مسٹر آزاد بھی بال بال بچ پائے تھے۔۔اور اس بات پر میں نےگاڑی کو چمن خان کے ہوٹل کے پاس روکتے ہوئے اللہ کا شکر بھی اداکیا ۔۔کیونکہ مسٹر آزاد کا وجود کسی سوکھے کجور کی طرح تھا مگر اس کے مار کھانے کا جزبہ اب بھی جوان تھا۔۔یہ وہی تھا جسے گل خان نے اسی سیریز کی ایک قسط میں دندان ساز کے خرچے سے بچایا تھا۔۔اور مفت میں اس کا کام کردیا تھا۔ ۔ جب اس نے آزادی اظہار رائے کی آڑ میں گل خان کے یا اس کی بلو کے بارے میں کچھ کہا تھا۔۔
پخیر راغلے۔۔ بڑا دن باد آیا تم لوگ اس طرف۔۔ ہم تو سمجھا تھا کہ خفا ہوگیا اے ام سے۔۔
ہماری گاڑی کو پارک ہوتا دیکھ کر۔۔چمن خان ہوٹل کے اندر سے باہر آتے ہوئے تقریبا چہنگاڑا۔۔ اور گل خان کے گلے ایسے لگا جیسے کشتی لڑرہا ہو۔۔ جب علیک سلیک سے فار غ ہوئے تو چمن خان نے چھوٹے کو شپیشل چائے انڈے پراٹوں کے ساتھ پیش کرنے کا کہا۔۔
ہم ابھی چائے پراٹوں سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ ڈھول کی تھاپ کہیں دور سے قریب آتی سنائی دی۔۔ اور کچھ ہی دیر میں عین ہمارے سروں پرآگئی۔۔دیکھا تو ڈھولاسرہ اپنے یار کامی شودے کے ساتھ مل کر بازار کے بیچ میں کچھ اعلان کرنے یا خبر دینے آیا تھا۔۔
سنو سنو گاوں والو۔۔ تم لوگوں کو کچھ حیا ہے بھی کہ نہیں۔۔ او کوئی مرتا کیوں نہیں۔۔ جلدی جلدی شادیاں کیوں نہیں کرتے۔۔ تم لوگوں کو اپنی عادتیں بدلنی ہونگی۔۔ ورنہ ہم اگر غصے میں آگئے تو ۔۔۔
ابھی انہوں نے اتنا ہی کہا تھا۔۔ کہ گل خان کی پشاوری چپل ان میں سے ایک کو لگی اور اس کے ساتھ ہی جیسے انہیں ہوش آگیا ۔۔ کہ ہم اپنی حدوں سے آگے بڑھ گئے۔۔ مگر بیچاروں نے دیر کردی تھی۔۔ کہ گل خان ان کے پیچھے اور وہ دونوں آگے بھاگے جارہے تھے۔۔
گل خانا۔۔رکو۔۔جانے دو۔۔۔ معاملہ جب گرم ہوا تو میں بھی اپنی جگہ سے اچھلے بنا نہ رہا۔۔
نہیں چھوڑے گا ہم ان کو۔۔۔ ان کا دانت ۔۔بلکہ زبان کھینچ لے گا۔۔
گل خان اتنا غصے میں تھا کہ اردو کی بھی شامت آگئی تھی۔۔ اور میں سمجھ گیا تھا کہ میراثیوں نے نادانی میں بازار والوں کو یہ سمجھ کر للکارا کہ ہماری کو ن
سنے گا۔۔ چلو دل ہلکا کرلیں گے ۔۔انہیں کیا خبر تھی کہ۔۔خیر۔۔ چلو اچھا ہے۔۔آئیندہ کے لیئے لوگوں کے کان نہیں کھاسکیں گے یہ کمینے میراثی۔۔
https://www.facebook.com/JANI1JANI1/
Last edited: