
گلگت بلتستان میں وفاقی تجارتی پالیسیوں کے خلاف تاجروں کی قیادت میں جاری احتجاج اتوار کو شدت اختیار کر گیا جب مظاہرین نے چین پاکستان راہداری کی اہم شاہراہ قراقرم (کے کے ایچ) کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا۔ اس اقدام کے باعث ہزاروں مسافر اور سیاح گھنٹوں سڑک پر پھنسے رہے اور طویل ٹریفک جام دیکھنے میں آیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق احتجاج کی کال گلگت بلتستان امپورٹرز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن، گلگت-نگر چیمبر آف کامرس، اور دیگر چھوٹی تجارتی انجمنوں پر مشتمل اتحاد پاک-چائنہ ٹریڈرز ایکشن کمیٹی نے دی تھی۔ احتجاج میں مقامی تاجروں کے ساتھ ساتھ علمائے کرام، سول سوسائٹی کے ارکان اور سیاسی کارکنان نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔
احتجاجی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی استحصالی پالیسیوں کی وجہ سے مقامی معیشت شدید متاثر ہوئی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ خنجراب پاس کے ذریعے ہونے والی پاکستان-چین تجارتی سرگرمیاں مقامی افراد کی آمدنی کا واحد مؤثر ذریعہ تھیں، جو گزشتہ سات ماہ سے بند ہیں۔ اس بندش کے باعث ٹرانسپورٹرز، دکاندار، مزدور، کسٹم ایجنٹ اور دیگر کاروباری افراد بے روزگار ہو چکے ہیں۔
رہنماؤں نے بتایا کہ سوست ڈرائی پورٹ پر پھنسے ہوئے 240 سے زائد کنسائنمنٹس کی یکمشت کلیئرنس کے لیے ایمنسٹی اسکیم کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، کیونکہ مقامی تاجر اربوں روپے کے نقصان کی سکت نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کی پالیسیوں نے گلگت بلتستان کے عوام کا "معاشی قتل" کیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ مقامی افراد کو سرحدی پاس رکھنے کے باوجود چین سے اشیاء درآمد کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی، جبکہ گلگت بلتستان اور چین کے صوبہ سنکیانگ کے درمیان بارٹر ٹریڈ معطل ہے۔
تاجروں نے 1985 کے سرحدی معاہدے کے تحت بارٹر ٹریڈ کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ جعلی اشیاء جو سوست ڈرائی پورٹ پر ضبط کی گئی ہیں، انہیں گلگت بلتستان میں ہی تلف یا نیلام کیا جائے۔ ان کا مؤقف ہے کہ اگرچہ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت متنازع ہے، پھر بھی مقامی تاجر تمام ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی ادا کر رہے ہیں۔
احتجاج سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) نگر چیپٹر کے صدر اور سابق رکن اسمبلی جاوید حسین نے کہا کہ وفاقی حکومت مسئلے کے حل میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کے دیگر علاقوں میں تجارتی پالیسیوں میں نرمی کی گئی ہے کیونکہ وہاں کے عوام کو پارلیمنٹ میں نمائندگی حاصل ہے، جبکہ گلگت بلتستان کے عوام نمائندگی کے بغیر ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان اگر دہشت گردوں کو معافی دے سکتی ہے تو ٹیکس ادا کرنے والے تاجروں کو 250 کنسائنمنٹس کلیئر کرانے کے لیے ایک بار کی ایمنسٹی دینا کوئی بڑا مطالبہ نہیں۔
مظاہرین سے مذاکرات کے لیے گلگت بلتستان کے وزیر داخلہ شمس لون، رکن اسمبلی ایوب وزیری اور دیگر حکام نے ملاقات کی، تاہم کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہو سکی۔ حکام نے مظاہرین کو یقین دلایا کہ ان کے مطالبات "حقیقی" ہیں اور گلگت بلتستان کی حکومت ان کی حمایت کرتی ہے، لیکن ان مسائل کا تعلق وفاقی حکومت سے ہے اور وزیر اعلیٰ پہلے ہی اسلام آباد کو سفارشات بھیج چکے ہیں۔
وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی محمد علی قائد نے میڈیا کو بتایا کہ گلگت بلتستان کی حکومت کے پاس ان مطالبات کو حل کرنے کا کوئی آئینی اختیار نہیں ہے۔ ان کے مطابق یہ معاملہ سول اور عسکری قیادت پر مشتمل اپیکس کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں زیر غور لایا جائے گا۔
مظاہرین نے اعلان کیا ہے کہ جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے، شاہراہ قراقرم پر دھرنا جاری رہے گا۔
- Featured Thumbs
- https://i.dawn.com/primary/2025/06/0210104677017b7.jpg