کیا واقعی وزیراعظم عمران خان نے جہانگیرترین کو فون کیا؟

murahh12113.jpg


گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان اور تحریک انصاف کے ناراض سینئرر ہنما جہانگیر خان ترین کے درمیان رابطے کی خبریں سامنے آئیں، ان خبروں میں کس حد تک صداقت ہے؟

خبررساں ادارے ڈان نیوز کی نشر کردہ رپورٹ کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے مبینہ طور پراپوزیشن اتحاد کی تحریک عدم اعتماد کے باعث مجبورا جہانگیر ترین سے رابطہ کیا، اس رابطے کا مقصد پرانے رہنماؤں کو اپوزیشن کے ساتھ مل کر عدم اعتماد پر حمایت نہ کرنے سے روکنا تھا۔

ایک اور ادارے 24 نیوز نے بھی یہ دعویٰ کیا لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ اس سے متعلق کسی بڑے ٹاک شو یا چینل پر اس کا ذکر نہیں ہوا۔یہاں تک کہ جہانگیرترین سمیت اسکے ترجمان نے بھی اس کی تصدیق یا تردید نہیں کیا؟

اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ یہ خبر غیرتصدیق شدہ ہے اور تاحال اس خبر کی تصدیق ہونا باقی ہے۔ اگر خبر تصدیق شدہ ہوتی تو مختلف ٹاک شوز میں اسکا لازمی تذکرہ ہوتا ہے اور اس خبر پر سب سے زیادہ تبصرہ ن لیگ اورانکے حامیوں کی طرف سے ہوتا جو یہ کہتے پائے جاتے کہ عمران خان نے اپنی حکومت بچانے کیلئے جہانگیرترین سے بھی رابطہ کرلیا ہے۔

اس حوالے سے جب ایک پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیراطلاعات ونشریات فواد چوہدری سے سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں اس خبر کی تصدیق و تردید نہیں کرسکتا۔

جو خبریں سامنے آئیں ان میں دعویٰ کیا گیا کہ علاج کی غرض سے لندن روانہ ہونے سے قبل جہانگیر ترین اور عمران خان کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا، ٹیلی فون وزیراعظم عمران خان نے کیا او رجہانگیر ترین سے ان کی خیریت دریافت کی۔

اسی حوالے سے ایک بیان وفاقی وزیر داخلہ کی جانب سے دو روز قبل سامنے آیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ میں نے وزیراعظم عمران خان سے اپنے پرانے دوست سے رابطہ کرنے کی درخواست کی ہے مگر پی ٹی آئی کے کچھ اراکین اس خیال سے متفق نظر نہیں آتے۔

انہوں نے اپنی اس تجویز کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ن لیگ اور ق لیگ جیسے سخت سیاسی مخالفین اگر سیاسی مقصد کیلئے 14 سال بعد مل سکتے ہیں تو وزیراعظم عمران خان اور جہانگیر ترین کیوں نہیں مل سکتے؟

واضح رہے کہ یہ ساری خبریں اس وقت سامنے آرہی ہیں جب اپوزیشن کی تمام جماعتیں مل کر حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی تیاری کررہی ہیں، اپنی تحریک کامیاب بنانے اور نمبر گیم پورا کرنے کیلئے اپوزیشن کی جانب سے حکومتی اتحادی اور ناراض اراکین کے ساتھ زور وشور سے رابطے کیے جارہے ہیں۔

ایسی صورتحال میں جہانگیر ترین کا علاج کی غرض سے لندن جانا جہاں مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف پہلے سے موجود ہیں ان دونوں کے درمیان ملاقات یا رابطے کے امکانات کو روشن کرتا ہے جس سے حکومت کیلئے یقینی طور پر پریشانی بڑھ سکتی ہے۔
 

Back
Top