imran mani
MPA (400+ posts)
مذاکرات کے ذریعے پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دینے والے مظاہرین کو احتجاج ختم کرنے پر قائل کرنے میں ناکامی کے بعد اب حالات بظاہر اس نہج پر جاتے دکھائی دے رہے ہیں کہ حکومت کی نظریں بھی اب اس بحران کو ختم کرنے کے لیے فوج پر لگی ہیں۔
وزیراعظم کے قریبی رفقا کا کہنا ہے کہ جمعرات کی شام اسلام آباد میں بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف وزیراعظم کی خواہش پر ان سے ملاقات کے لیے آئے۔ اس ملاقات کا مقصد بظاہر اس رائے کو تقویت دینا ہے کہ فوج اب بھی حکومت کی پشت پر کھڑی ہے۔
دو ہفتے قبل شروع ہونے والی احتجاجی ریلیوں میں اب تک ایک بار بھی ایسا مقام نہیں آیا جب حکومت اعتماد کے ساتھ دعویٰ کر سکی ہو کہ حالات اس کے قابو میں ہیں یا اس کے حق میں ہیں۔
ان دنوں کے دوران حکومتی زعما نے اس وقت کچھ اعتماد حاصل کیا جب ریڈ زون میں داخلے کے وقت عمران خان کے اس اعلان کے جواب میں کہ وہ جلد وزیراعظم ہاؤس میں مظاہرین کے ہمراہ داخل ہو جائیں گے، فوجی ترجمان نے بیان جاری کیا کہ پاکستانی فوج ان ریاستی عمارتوں کی حفاظت کر رہی ہے۔
اس کے بعد حکومت نے طاہرالقادری اور عمران خان کو منانے کی متعدد کوششیں کیں لیکن کوئی بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکی۔
اور اب حکومت ایسی پوزیشن میں آ چکی ہے جہاں اب اس کے وزرا بے بسی کی تصویر بنے دکھائی دے رہے ہیں۔
یہ بے بسی اس وقت نمایاں ہوئی جب نواز شریف کابینہ کے رکن خواجہ سعد رفیق نے جمعرات کی صبح طاہر القادری کی منت سماجت کر کے انھیں دھرنا ختم کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کی:
"طاہر القادری صاحب آپ کو اللہ اور اس کے نبی کا واسطہ، مہربانی کر کے اپنے لوگوں کو تشدد پر نہ اکسائیں اور انہیں گھروں کو جانے کی اجازت دے دیں۔"
سعد رفیق کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اس بحران سے نمٹنے میں اپنے آپ کو کتنا بے بس محسوس کر رہی ہے۔
وزیراعظم کے قریبی رفقا کے ساتھ غیر رسمی بات چیت سے بھی واضح ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس اس بحران سے نکلنے کا اب کوئی راستہ یا تجویز موجود نہیں ہے۔
ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت طاقت کے زور پر ان دھرنوں کو منتشر کرنے کی تجویز پر غور کر رہی ہے اور نہ ہی عمران خان اور طاہر القادری کے ساتھ بات چیت کے آگے بڑھانے کے لیے کوئی نکتہ باقی رہ گیا ہے۔
ایسے میں ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت توقع کر رہی ہے کہ فوج ایک بار پھر آگے آئے اور 15 اگست کی طرح ایک اور بیان جاری کرے جس کے ذریعے عمران خان اور طاہر القادری پر دباؤ ڈالا جا سکے۔
حکومت کو ایسی اطلاعات بھی ملی ہیں کہ طاہر القادری کے پیروکار کسی بھی لمحے پارلیمنٹ ہاؤس پر دھاوا بولنے کے لیے تیار ہیں۔ یاد رہے کہ فوجی جوان مظاہرین اور پارلیمنٹ کی عمارت کے درمیان موجود ہیں۔
حکومتی زعما کا خیال ہے کہ تصادم کی صورت میں اگر جانی نقصان ہوا تو اس کا ذمہ دار بھی حکومت ہی کو قرار دیا جائے گا، جس کے حکم پر فوج ریڈ زون میں تعینات کی گئی ہے۔
ایسے میں حکومت ایک ایسے دوراہے پر ہے، جہاں اس کے پاس حالات کے مطابق رد عمل دینے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں رہ گیا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/08/140828_imran_qadri_nawaz_army_gh.shtml
وزیراعظم کے قریبی رفقا کا کہنا ہے کہ جمعرات کی شام اسلام آباد میں بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف وزیراعظم کی خواہش پر ان سے ملاقات کے لیے آئے۔ اس ملاقات کا مقصد بظاہر اس رائے کو تقویت دینا ہے کہ فوج اب بھی حکومت کی پشت پر کھڑی ہے۔
دو ہفتے قبل شروع ہونے والی احتجاجی ریلیوں میں اب تک ایک بار بھی ایسا مقام نہیں آیا جب حکومت اعتماد کے ساتھ دعویٰ کر سکی ہو کہ حالات اس کے قابو میں ہیں یا اس کے حق میں ہیں۔
ان دنوں کے دوران حکومتی زعما نے اس وقت کچھ اعتماد حاصل کیا جب ریڈ زون میں داخلے کے وقت عمران خان کے اس اعلان کے جواب میں کہ وہ جلد وزیراعظم ہاؤس میں مظاہرین کے ہمراہ داخل ہو جائیں گے، فوجی ترجمان نے بیان جاری کیا کہ پاکستانی فوج ان ریاستی عمارتوں کی حفاظت کر رہی ہے۔
اس کے بعد حکومت نے طاہرالقادری اور عمران خان کو منانے کی متعدد کوششیں کیں لیکن کوئی بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکی۔
اور اب حکومت ایسی پوزیشن میں آ چکی ہے جہاں اب اس کے وزرا بے بسی کی تصویر بنے دکھائی دے رہے ہیں۔
یہ بے بسی اس وقت نمایاں ہوئی جب نواز شریف کابینہ کے رکن خواجہ سعد رفیق نے جمعرات کی صبح طاہر القادری کی منت سماجت کر کے انھیں دھرنا ختم کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کی:
"طاہر القادری صاحب آپ کو اللہ اور اس کے نبی کا واسطہ، مہربانی کر کے اپنے لوگوں کو تشدد پر نہ اکسائیں اور انہیں گھروں کو جانے کی اجازت دے دیں۔"
سعد رفیق کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اس بحران سے نمٹنے میں اپنے آپ کو کتنا بے بس محسوس کر رہی ہے۔
وزیراعظم کے قریبی رفقا کے ساتھ غیر رسمی بات چیت سے بھی واضح ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس اس بحران سے نکلنے کا اب کوئی راستہ یا تجویز موجود نہیں ہے۔
ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت طاقت کے زور پر ان دھرنوں کو منتشر کرنے کی تجویز پر غور کر رہی ہے اور نہ ہی عمران خان اور طاہر القادری کے ساتھ بات چیت کے آگے بڑھانے کے لیے کوئی نکتہ باقی رہ گیا ہے۔
ایسے میں ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت توقع کر رہی ہے کہ فوج ایک بار پھر آگے آئے اور 15 اگست کی طرح ایک اور بیان جاری کرے جس کے ذریعے عمران خان اور طاہر القادری پر دباؤ ڈالا جا سکے۔
حکومت کو ایسی اطلاعات بھی ملی ہیں کہ طاہر القادری کے پیروکار کسی بھی لمحے پارلیمنٹ ہاؤس پر دھاوا بولنے کے لیے تیار ہیں۔ یاد رہے کہ فوجی جوان مظاہرین اور پارلیمنٹ کی عمارت کے درمیان موجود ہیں۔
حکومتی زعما کا خیال ہے کہ تصادم کی صورت میں اگر جانی نقصان ہوا تو اس کا ذمہ دار بھی حکومت ہی کو قرار دیا جائے گا، جس کے حکم پر فوج ریڈ زون میں تعینات کی گئی ہے۔
ایسے میں حکومت ایک ایسے دوراہے پر ہے، جہاں اس کے پاس حالات کے مطابق رد عمل دینے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں رہ گیا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/08/140828_imran_qadri_nawaz_army_gh.shtml
Last edited by a moderator: