jazibalisaleemi
New Member
ہمارے آج کے نام نہاد سیاستداناور حکمرانحد درجے تک جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں اور اپنے اقتدار اور کرپشن کو بچانے کے لئے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہیں۔ ان کا پیٹ یہ پیسہ، اقتدار یا شہرت نہیں بھر سکتے بلکہ قبر کی مٹی بھرے گی ، اور ہوس کی حد تو یہ ہے انہی سیاستدانوں کے چمچے کڑچھے اپنی آخرت انکو بنانے کے لئے برباد کر رہے ہیں ۔ اور کچھ تو ڈیزل کے نام پر ہی اپنا دین ایمان داؤ پر لگا دیتے ہیں ، آج تک یاد نہیں پڑتا کہ جو لوگ سیاست میں ہیں ان لوگوں نے دین کے بارے میں کوئی بات کی ہو یا کچھ بھی کہا ہو، ان ایک صاحب تو سینٹ کے ڈپٹی چئرمین ہیں ، مجال ہے اس شخص کی زبان سے دین کی کے بارے میں کوئی بات کی ہو یا کوئی بیان برما کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں جاری کیا گیا ہو ان کی طرف سے۔
کیونکہ سیٹ مل گئی ہے اور پاور بھی مل گئی ہے۔ پتہ نہیں کتنے رشتے دار، دوست احباب اور برادری والوں کے کام ہو رہے ہونگے یا ہو چکے ہونگے اور انکی ہوس کی حد یہ ہوگی کہ آنے والے الیکشنز کے لئے انکو قابو بھی کیا جارہا ہوگا کسی نہ کسی طریقے سے۔ میرٹ تو گیا تیل لینے اور بھاڑ میں، جو للُو پنجُو رشتے دار یا دوست احباب میں سے یا برادری والے میں سے کیا کوئی ایسا ہو جس سے پیسہ یا ووٹ ملے آجائے بس اسکا کام ہو جائے گا، لیکن شرط یہ ہے کہ اگلے الیکشنز میں جتوانا ہے۔
انہی کی جماعت کے لیڈر ہیں ان کی تو کیا ہی بات ہے، ان کی زبان سے بھی مجال ہے کہ کوئی دین کی بات سنی ہو، صرف اور صرف اقتدار کی ہوس اور کچھ نہیں۔ انکو یا تو وزارتِ اعلٰی یا وزارتِ عظمٰی کے خواب آتے ہیں یا پھر عمران خان میں کیڑے نظر آتے ہیں ، عمران خان سے میری کوئی دلچسپی نہیں ہے نہ اسکی سائیڈ لے رہا ہوں، لیکن جو حقیقت ہے وہ ایک کھلی کتاب کی طرح سامنے ہے۔
ان لوگوں کو تو خوفِ خُدا ہے ہی نہیں بلکہ انکو یہ بھی یاد نہیں ہے کہ اب ان لوگوں نے مرنا بھی ہے لیکن یہ لوگ اپنی دنیا بنانے کے لئے جھوٹ اور دروغ گوئی کا سہارا لے رہے ہیں۔ کہیں سے چار بندے اکٹھے کرتے ہیں اور نام نہاد بے غیرت جمہوریت کا راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔کوئی بھی اس ملک کے ساتھ مخلص نہیں ہے ایک بھی شخص، صدر سے لیکر ایک غریب مزدور تک بھی مخلص نہیں ہے ۔ کرپشن میں ایک غریب آدمی بھی ڈوبا ہوا ہے، اسکا داؤ لگے تو پتہ نہیں کیا کیا کر جائے، ہماری اخلاقیات کا لیول اس حد تک تو گر چکا ہے کہ باہر کسی پانی کے کولر کے ساتھ پلاسٹک کے گلاس کو بھی زنجیر لگا کر قابو کیا جاتا ہے ،
لیکن کاروائی کرنے والے کر جاتے ہیں ۔ اور بڑے لیول کی کرپشن کی تو کیا ہی بات ہے، ان تک تو آپ کی جرآت نہیں کہ آپ آواز بلند کر سکیں انکی کرپشن کے خلاف۔ آپ لوگوں کا اندازہ ہو کہ ایک منصوبے کا اعلان ہوتا نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ کرپشن کرنے کے لئے تیاریاں پہلے سے ہی ہو رہی ہوتی ہیں۔ پھر مکمل ہونے تک اس کے ساتھ کیا کیا میگا کرپشنز ہوتی ہیں یہ ایک عام آدمی سمجھنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ آپ لوگوں کے خیال میں پارلیمنٹ میں جو لوگ بیٹھے ہیں سب کے دل میں عوام کا درد ہے کیا؟ ایک فیصد بھی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، صرف اور صرف ٹائم پاس ، بھنگ پئو اور سو جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارا الیکشن کا جو لیول ہے وہ بھی سب سے نرالا ہے ، آئیڈیلزم، پرسینلٹی، فرقہ، مسلک، محلہ، شہر، برادری، خاندان اور پتہ نہیں کیا کیا جس کی بنیاد پر ہم لوگ ووٹ دیتے ہیں، اور آپس میں یہ ڈسکس کر رہے ہوتے ہیں "یار اوہنوں ووٹ دیو، اے ویکھو کہ آپ ساڈے دروازے تے چل کے آیا اے"، برادری کے نام نہاد وڈیرے جو لوگوں کو جذباتی بلیک میل کرتے ہیں یا پھر ڈراوے دھمکاوے دیتے ہیں، یاکسی کن ٹُٹے کی گھر کے سامنے چار اینٹیں لگا کر اسکو ووٹ کے لئے پکا کر لیتے ہیں ، کسی کے لڑکے کو سرکاری نوکری لگوادی، پولیس میں بھرتی کروادیا، اور اسکی پوری برادری کو قابو کر لیا ، بلکہ وہ ووٹ لینے کے اتنے قریب ہو جاتے ہیں اور ہمدرد بن جاتے ہیں کہ اگر کسی کا کھوتا بھی مر جائے تو اس کے افسوس کے لئے آتے ہیں بلکہ تعزیت کے ساتھ ساتھ ایک کھوتا بھی دے جاتے ہیں ، اب اسکی طرف سے ووٹ پکے ہو جاتے ہیں، کیونکہ ان صاحب کی کھوتے کی تعزیت کا سین جو بار بار سامنے آتا ہے اور ضمیر گوارہ نہیں کرتا کہ کسی اور کو ووٹ دیں اس لئے ووٹ انہی کو دینا ہے۔
ہمارے ریلوے کا ادارہ ایک بہت ہی منافع بخش ادارہ تھا، لیکن سابقہ وزیر نے تو اسکو برباد کرنے میں بالکل بھی کسر نہیں چھوڑی،اس شخص نے قسم کھائی ہوئی تھی کہ جب تک ریلوے کا ادارہ بند نہیں ہو جاتا میں نے اس وقت تک بالکل بھی پیچھے نہیں ہٹنا بلکہ جس حد تک ڈھیٹ بننا ہے بن جاؤں گا۔ مال گاڑیاں تو ایک بہت ہی پرانا خواب ہے جو کبھی دیکھتے تھے، کیونکہ اب انہی صاحب کے ٹرک، ٹرالے اور کنٹینر ہی اتنے ہو گئے ہونگے کہ مال گاڑیاں جائیں بھاڑ میں بلکہ بھاڑ میں جھونک دی گئی ہونگی اور انکا سریا بن چکا ہوگا اور کہیں نہ کہیں لگ بھی چکا ہو گا۔
چین میں سابق وزیر ریلوے کو کرپشن کے الزام میں سزائے موت سنادی گئی
ویب ڈیسکپير 8 جولائ 2013
ریلوے کے وزیر لیو ذی جن پر الزام تھا کہ انہوں نے رشوت اور اپنے رشتہ داروں کو ریلوے کے غیر قانونی ٹھیکے دیئے۔
بیجنگ: چین میں سابق وزیر ریلوے کورشوت لینے اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے کے الزام میں 10 سال قید اور موت کی سزا سنا دی گئی۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق 2003 میں کمیونسٹ پارٹی سے منتخب ہونے والے چین کے ریلوے کے وزیر لیو ذی جن پر الزام تھا کہ انہوں نے رشوت اور اپنے رشتہ داروں کو ریلوے کے غیر قانونی ٹھیکے دیئے جس پر انہیں 2011 میں وزارت سے ہٹا کر کرپشن سمیت دیگر الزامات کے تحت مقدمات قائم کئے گئے، بیجنگ کی ایک عدالت نے انہیں اختیارات کے غلط استعمال پر 10 سال قید اور رشوت لینے پر موت کی سزا سنا دی ہے جس کے بعد انہیں جیل منتقل کردیا گیا۔۔۔۔۔۔۔
اس خبر کے بعد ایسا سوچنا ہمارے ملک میں جرم ہے ، کیونکہ سیاستدانوں کا احترام کرنا چاہئے چاہے وہ جو بھی کریں ۔
Source
ہمارا میرٹ لیول تو اس سے بھی بڑھ کر کمال ہے کہ قتل میں ملوث صاحب کو قانون کی وزارت دی جاتی ہے، منی لانڈرنگ کا الزام ثابت ہونے والے صاحب کو وزارتِ خزانہ دی جاتی ہے
اور ایفی ڈرین کیس میں ملوث صاحب کو میڑو پرجیکٹ کا کرتا دھرتا بنا دیا جاتا ہے اور پتہ نہیں کیا کیا گل کھلائے جارہے ہونگے اور کھلائے جائیں گے۔
موبائل کی ٹیکنالوجی آنے سے ان نام نہاد جمہوریت کے ٹھیکیداروں سے عام آدمی کے ہاتھ میں موبائل برداشت نہیں ہو رہا کہ یہ ہمارے برابر؟کیوں؟۔۔۔۔۔تعلیم تو دور کی بات ہے
اگر آپ تعلیم یافتہ ہو گئے تو ان لوگوں کے مقابلے میں آجائیں گے پھر انکے بچے کیسے اپنی بادشاہت قائم رکھ سکیں گے کیوں کہ آپ تو تعلیم یافتہ ہو کر آواز اٹھائیں گے خاص طور پر سندھ تو اس کی مضبوط گرفت میں ہے۔ اس لئے تعلیم حاصل کرنی ہے تو اپنی حد میں رہ کر کرنا ورنہ گھر میں بیٹھ جائیں۔
پولیس کا محکمہ تو کیا ہی بات ہے، کرپشن کا گڑھ، تھانے کی اینٹیں بھی رشوت مانگتی ہیں۔ تھانوں میں تعیناتیاں سیاسی بنیادوں پر کی جاتی ہیں، بھرتیاں بھی اسی بنیاد پر کی جاتی ہیں ۔ کچہری کا نظام ہمارے اس ملک کے وکیل ٹھیک نہیں ہونے دیتے اور نہ ہی ہونے دیں گے، کیوں کہ اگر کسی کیس کا فیصلہ جلدی ہو گیا تو دال روٹی کیسے چلے گی؟ آئے روز نئے کیس رجسٹرڈ ہو رہے اور فیصلہ ہونے میں نسلیں چلی جاتی ہیں لیکن کیس ختم نہیں ہوتا۔
ان سب چیزوں سے بڑھ کر ہم خود ہی ٹھیک نہیں ہیں، ہم لوگ اپنے گھر میں ہی ایک دوسرے کی صورت دیکھنے کو تیار نہیں ہوتے، اپنے ہمسائے کو تنگ کرکے خوش ہوتے ہیں ، اگر ہمسایہ تکلیف میں ہوتو جائے بھاڑ میں، ہمیں تو بس اپنی پرواہ ہے، اپنا الو سیدھا کرو، باقی جائیں بھاڑ میں۔ گھر سے لیکر ہمسائے تک، ہمسائے سے گلی تک اور گلی سے محلے تک ہم جب ایک خود ہی ٹھیک نہیں ہونگے تو ہم کس چیز کی امید رکھتے ہیں اپنے حکمرانوں سے، وہ تو کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ ہم لوگ ٹھیک ہوں کیونکہ اگر ہم لوگ ٹھیک ہو گئے تو انکا حقہ پانی بند ہو جائے گا۔ملاوٹ میں ہم کسی سے کم نہیں، منافع خوری، چور بازاری، ذخیرہ اندوزی میں بھی ہم کسی سے کم نہیں ہیں،
خاص طور پر رمضان المبارک میں ، کیونکہ یہی تو سیزن ہوتا ہے کام کاج کا اور پیسے کمانے کا۔ان سب سے بڑھ کر میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے اس ملک کے حالات خراب کرنے میں ، اینکرز اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لئے دو یا تین پارٹیوں کے فارغ بندوں کو یا مائیوں کو لا کے بٹھا دیتے ہیں اور چغل خور عورتوں کی طرح بات شروع کرکے چسکے لینا شروع کردیتے ہیں ۔
ہمارے اند ر تبدیلی آنا ممکن ہے لیکن صرف اور صرف اس صورت میں جب تک ہم برادری، مسلک، فرقہ، محلہ، شہر یا اس قسم کی کوئی بھی دیوار توڑ کر ایک ہی نظریہ پر اکٹھے ہوجائیں، اپنے آپ کو بدل لیں اور اسکی ابتدا گھر سے کی جائے پھر ہمسائے سے ، پھر گلی سے اور اس طرح چراغ سے چراغ جلتا ہے۔ یہ کالم محض باتیں ہیں اس پر عمل ہوتا نظر نہیں آئے گا کیونکہ ہم بہت ہی سہل پسند ہوگئے ہیں اورکبھی یہ نہیں سوچا کہ ہم اپنی آنے والی نسل کو کیا دے کر جا رہے ہیں؟
ہم لوگ تو باتیں کرتے رہ جائیں گے اور اشرافیہ اپنی آنے والی نسلوں کے لئے بہت بڑی بڑی منصوبہ بندیا ں کر رہے ہیں کہ ہمارے بعد یہ آگے آئیں لیکن سب سے بڑا منصوبہ ساز اللہ پاک ہے ، جس کی لاٹھی بہت ہی بے آواز ہے۔یہ ایک بہت ہی پرانی اور جانی مانی بات ہے کہ اللہ پاک بھی ان لوگوں کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے آپکو نہیں بدلتے۔کیونکہ جیسے ہمارے اعمال ہونگے ویسے ہی ہمارے سروں پر حکمراں مسلط کئے جائیں گے یہ فیصلہ کسی انسان کا نہیں بلکہ اللہ پاک کا ہے، کہ جیسے تم لوگوں کے اعمال ہونگے ویسے ہی لوگ تم پر مسلط کردوں گا جو تم لوگوں کو طرح طرح کے عذاب دیں گے،
اور یہ عذاب آپ سب کے سامنے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن، دہشت گردی، قتل وغارت، ڈکیتیاں، چوریاں اور ان سب میں پولیس کا ملوث ہونا، یہ سب ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے جو ہم کبھی بھی نہیں سوچتے۔ہم جب تک اپنے آپکو ٹھیک نہیں کرتے اس وقت تک تبدیلی ممکن ہی نہیں ہے کسی بھی صورت میں۔ اس پر عملدرآمد بہت مشکل ہے اگر ہوجائے تو کیا ہی بات ہے لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس کے علاوہ تبدیلی کا سوچنا محض ایک دیوانے کا خواب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- Featured Thumbs
- http://freeformfitness.ca/wp-content/uploads/2015/02/Change.jpg
Last edited by a moderator: