کیا امریکہ کا زوال شروع ہو گیا ہے؟

moazzamniaz

Chief Minister (5k+ posts)
امریکہ کا زوال؟


جسٹن ویب
ٹوڈئے پروگرائم




100911145120_us_flag_466x262_nocredit.jpg


۔
امریکہ ریاست کے زوال کی پیشگوئیاں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جب روس نےخلا نو وردی کی دوڑ میں امریکہ کو مات دی تھی اس وقت بھی ایسی پیشگوئیاں شروع ہوگئی تھیں۔ لیکن حالیہ برسوں میں امریکی قرضے میں اضافے اور سیاسی جماعتوں میں بڑھتے ہوئےتفرقے نے ایک بار پھر اس بحث کو زندہ کر دیا ہے۔
جب میں شمالی امریکہ میں بی بی سی ایڈیٹر کے طور پر واشنٹگن میں کام کرتا تھا تو ہم اکثر اپنے بچوں کو واشنگٹن سے دو گھنٹے کی مسافت پر ہرشی چاکلیٹ ورلڈ میں لے جایا کرتے تھے جہاں چاکلیٹ کی مہک کے علاوہ ایک ایسی فلم کی نمائش بھی کی جاتی ہے جو امریکی خواب کی ایک تصویر پیش کرتی ہے۔
110110235348_us_flags_226x170_getty_nocredit.jpg


اس فلم میں دیکھایا جاتا ہے کہ امریکہ میں چاکلیٹ کی صنعت کا بانی ملٹن ہرشی کا آغاز ناکامی سے ہوا لیکن اختتام کامیابی پر ہوا کیونکہ وہ ایک ایماندار اور ہوشیار شخص تھا جسے یقین تھا کہ صارفین کو عمدہ ذائقہ فراہم کرنا ہی کامیابی کا راز ہے۔
ہرشی کی چاکلیٹ ورلڈ میں دیکھائی جانے والی فلم بہترین عکس ہے اس رویے کی جس نے امریکہ کو بنایا۔
یہ چوکلیٹ میوزیم ملٹن ہرشی کے اس پیغام کو واضح کرتا ہے کہ ایماندار، ہوشیار اور محنتی لوگوں نے ہی امریکہ کو عظیم ریاست بنایا۔
امریکہ نے اپنی عظمت کو قرضوں کے انبار پر استوار کیا اور انیسویں صدی میں امریکی ساری دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ وہ اس قرض کے انبار کو کسی وقت بھی اتارنے کی پوزیشن میں ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی خوشحال ہوئے، انہوں نے پہلا ادھار واپس کیا لیکن مزید لے لیا۔امریکیوں نے صارفین کے قرض کو ایجاد کیا اور اس کے استعمال سے دنیا بدل دی۔
110110190635_new_york_224x280_getty.jpg


امریکہ ایک بار پھر قرض میں پھنس چکا ہےاور اس کا قرض اربوں میں نہیں بلکہ کھربوں میں ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے امریکہ کبھی اتنا مقروض نہیں رہا ہے۔
بعض مبصرین کے خیال میں موجودہ قرضے ماضی کے قرضوں کی نسبت بہت خطرناک ہیں اور امریکی زوال کی ایک بڑی وجہ بن سکتے ہیں۔ امریکی زوال کا آغاز معیشت سے ہو گا لیکن وہ ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے کر پوری تہذیب کو گرا دے گا۔
امریکہ کی فارن ریلیشنز کونسل کے صدر رچرڈ ہاس کے مطابق معیشت کا معاملہ اتنا اہم ہے کہ جو امریکہ کو اندرون اور بیرون ملک نقصان پہنچا سکتا ہے۔اگر امریکی سیاستدان قرضے کے مسئلے سے نمٹنے میں کامیاب نہیں ہوتے تو انہیں ایک دن معلوم ہو گا کہ جو کام انہیں کرنا تھا وہ دنیا نے ان کے لیے کر دیا ہے۔
ان مبصرین کےمطابق جس دن بونڈ مارکیٹ کا امریکہ سےاعتبار اٹھ گیا تو پھر امریکہ کے پاس لامحالہ شرحِ سود میں اضافے کے کچھ نہیں رہ جائےگا جس سے معاشی ترقی کی رفتار متاثر ہوگی۔
رچرڈ ہاس کے مطابق شرح سود کے بڑھنے سے معیشت پر پڑنے والےاثرات سے امریکہ کی دنیائے عالم کو قیادت فراہم کرانے اور ایکشن لینے کی صلاحیت انتہائی کم ہو جائے گی جس کا نتیجہ بدنظمی کا شکار دنیا اور کمزور امریکہ کی شکل میں سامنے آئے گا۔
امریکی زوال کی بات کرنے والوں کی نظر میں امریکہ کو خارجی سے زیادہ داخلی خطرات لاحق ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکی قرضے کے مسئلے کو غیر مقبول معاشرتی اقدامات کے بغیر حل نہیں کیا جا سکتا اور اس کے لیے مراعات میں کمی اور ٹیکسوں میں اضافہ ضروری ہے۔ اوباما انتظامیہ کے تیار شدہ بجٹ میں اس مسئلے کو حل کرنے کی جانب ایک اشارہ ضرور ہے لیکن اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی بھی اقدام نہیں ہے۔
امریکی مفکر فرانسس فوکویاما کےخیال میں امریکی قوم کی رائفلوں سے محبت صرف ذاتی تحفظ کے لیے نہیں ہے بلکہ ایک سیاسی بداعتمادی کی فضا کی عکاس ہے جس کی وجہ سے ملک میں کسی معاملے پر اتفاق رائے ناممکن ہو چکا ہے۔
فوکویاما کے خیال میں امریکی سیاسی نظام کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے اور بہت سارے امریکی اس پر رضامند بھی ہوجائیں گے۔ لیکن دوسری جانب ایک طبقہ واشنگٹن کے حکمرانی کے سٹائل سے انتہائی نالاں ہے اور اسے بدعنوان اور ناکارہ سمجھتا ہے۔
بعض لوگوں سمجھتے ہیں کہ امریکہ کا مسئلہ دراصل بہت زیادہ اتفاق رائے ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری سیکس کے مطابق امریکی مسائل اتفاق رائے میں نہیں بلکہ عدم اتفاق رائے میں ہے۔ ان کے مطابق سارا نظام امیر کو مزید امیر کرنے کے اصول پر استوار ہے۔دو سیاسی جماعتیں کم ٹیکس اور کم اصلاحات اور امیروں کو حمایت کی پالیسی پر متفق ہیں۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ اس مسئلے سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ امریکہ ماضی میں اس مسئلے سے نمٹ چکا ہے اور زوال کی منترا الاپنے والوں کو غلط ثابت کر چکا ہے۔ امریکہ کے پاس ایک ایسی صلاحیت موجود ہیں جس سے وہ اس مسئلے سے نمٹنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔
امریکہ کو آج بھی ڈیجیٹل علم اور ٹیکنالوجی میں دنیا پر فوقیت حاصل ہے۔ دنیا کی بہترین یونیوسٹیاں امریکہ میں ہیں۔ پرنسٹن یونیورسٹی کی این میری سلاٹر کے مطابق امریکی یونیورسٹیوں میں سب سے پہلی اور اہم چیز جو طالبعلم کو سیکھائی جاتی ہے وہ ہے استاد سے بھی سوالات کرنا۔
میری سلاٹر کے مطابق امریکہ دنیا کو واحد جگہ نہیں ہے جہاں ایجادات ہوتی ہیں اور نہ ہی اس کی ذہانت اور تعلیم پر اجارہ داری ہے لیکن اتھارٹی کو چیلنج کرنے کی روایت کی وجہ امریکہ آئیڈیا اور جہت کی دنیا میں دوسرں سے بہتر پوزیشن میں ہے۔
میری سلاٹر کے مطابق امریکہ کو عمرانی معاہدے کو ازسرنو توثیق، تعلیم ، صحت اور انفراسٹرکچر کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے لیکن ہم کام کرنے کی صلاحیت سے ابھی عاری نہیں ہوئے ہیں اور کسی زوال سے بچنے کے لیے کام کرنے کی صلاحیت ہی سب سے اہم ہوتی ہے جو امریکہ کے پاس موجود ہے۔
 

Arslan PTI

Voter (50+ posts)
good article dude ..........waisay na jane kyun article parh kar dill kuch ho gya hamesha dushman ko preshani mein dekh kar apni khudi ki tasqeen hoti.........america dobe ya na dobe Pakistanion ko aisay article read kar k thora hosla zaroor ho jaey ga...........
 

moazzamniaz

Chief Minister (5k+ posts)
good article dude ..........waisay na jane kyun article parh kar dill kuch ho gya hamesha dushman ko preshani mein dekh kar apni khudi ki tasqeen hoti.........america dobe ya na dobe Pakistanion ko aisay article read kar k thora hosla zaroor ho jaey ga...........
It just shows that you r a HUMAN, bro!
 

Back
Top