Pakistani1947
Chief Minister (5k+ posts)
اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے۔ یہ کردار سے پھیلا ہے تلوار کے زور سے نہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفار و مشرکین کو ایمان کی دعوت دیتے ہوئے اپنے کردار کو پیش کیا تھا۔ قرآن حکیم میں ہے
(Qur'an 10:16) قُل لَّوْ شَاءَ اللَّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا أَدْرَاكُم بِهِ ۖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
کہہ دو اگر الله چاہتا تو میں اسے تمہارےسامنے نہ پڑھتا اورنہ وہی تمہیں اس سے خبردار کرتا کیوں کہ اس سے پہلے تم میں ایک عمر گذار چکا ہوں کیا پھر تم نہیں سمجھتے
لوگوں میں عمر گزارنا سیرت و کردار کا پتا دیتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صادق اور امین جانے جاتے تھے اور کفار و مشرکین کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن اخلاق اور حسن کردار کا اس حد تک اعتراف تھا کہ بت پرستی پر قائم رہنے کے عوض وہ وہ آپ کی ساری باتیں ماننے پر تیار تھے۔ جب وہ اس پر سمجھوتہ نہ کرنے کے حوالے سے مکمل طور پر مایوس ہو گئے تو انہوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہاء کر دی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں مسلمان حاضر ہوتے تو کوئی زخمی حالت میں ہوتا، کسی کو کوڑوں سے مارا گیا ہوتا، تو کسی کو تپتی ریت پر گھسیٹا گیا ہوتا۔ یہ درد ناک صورتحال دیکھ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کو صبر کی تلقین فرماتے۔
بیعت عقبہ اولیٰ کے موقعہ پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو مدینہ روانہ فرمایا۔ ان کی دعوت اس قدر پر اثر ثابت ہوئی کہ اگلے سال حضرت مصعب رضی اللہ عنہ 75 مسلمانوں کو بیعت عقبہ ثانیہ کے لئے مکہ لے کر آئے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے ہمراہ 12 انصار صحابہ کو نقباء مقرر فرما کر مدینہ رخصت کیا اور جب ہجرت مدینہ ہوئی تو مدینہ کے لوگوں کی غالب اکثریت اس حال میں مسلمان ہو چکی تھی کہ نہ تلوار اٹھائی گئی اور نہ ہی اذن قتال نازل ہوا تھا۔
قرآنی تعلیمات اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 63 سالہ انقلابی جدوجہد سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں جتنے بھی معرکے ہوئے، ان میں کسی کو زبردستی مسلمان بنانے کی ایک بھی مثال نہیں ملتی۔ اگرچہ ضرورت کے وقت دفعِ شر اور فتنہ و فساد کو روکنے کے لئے جنگ میں پہل کی گئی لیکن زیادہ تر معرکوں کی نوعیت دفاعی رہی۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب بھی مخالفین نے سرِ تسلیم خم کیا یا راہِ فرار اختیار کی، صلح کے لئے ہاتھ بڑھایا یا ہتھیار ڈال دیئے تو پھر مسلمانوں نے بھی ان پر ہتھیار نہ اٹھائے۔ اسلام میں جنگ محض برائے جنگ نہیں بلکہ قیامِ امن کا ذریعہ ہے۔ محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا تو سندھ دار السلام بن گیا۔ یہ محض مسلمانوں کے کردار اور ان کے ثقافتی غلبہ کا اثر تھا کہ غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہوتے گئے اور دنیا میں ہر طرف اسلام کا ڈنکا بجنے لگا۔
کچھ علمائے کرام نے یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ دنیا میں اسلام کی توسیع اونٹ کی سواری ، تلوار سے چلانے والے وحشیوں کی وجہ سے تھی ، جو بنیادی طور پر بڑے پیمانے پر یہ نظریہ پیش کرتی ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ۔ حقیقت سے آگے کچھ نہیں ہوسکتا تھا۔ اگرچہ فتح کے ذریعے اسلام دوسرے خطوں میں پھیل گیا ، لیکن زمین کے لوگوں کا مذہب تبدیل ہونا ایک بہت ہی آہستہ عمل تھا۔ معروف برطانوی مورخ ، ڈی لیسی اولیری نے اپنی کتاب ، اسلام میں کراس روڈ میں لکھا ہے ، "تاریخ یہ واضح کرتی ہے کہ ... پوری دنیا میں جارحیت پسند مسلمانوں کا افسانہ اور فتح کرنے والی نسلوں پر تلوار کے نوک پر اسلام کو مجبور کرنا، تاریخ کا ایک انتہائی مضحکہ خیز افسانہ ہے جسے مورخین نے بار بار دہرادیا ہے۔
دنیا کے دوسرے حصوں میں ، اسلام آسانی سے تجارت کے ذریعہ پھیل گیا ، اور لوگوں کے ذریعہ ایک بار پھر اسلام قبول کرنا ایک تدریجی اور پیچیدہ عمل تھا۔ اس کے نظریہ کی سادگی کی وجہ سے مقامی لوگ مذہب کی طرف راغب ہوگئے۔ اسلام یہ ماننے کا مطالبہ کرتا ہے کہ عبادت کے لائق صرف ایک خدا ہے اور حضرت محمّد ﷺ آخری نبی تھے۔ اسلام خود بار بار اپنے پیروکاروں کو بھی اپنی ذہانت اور مشاہدے کا اختیارات استعمال کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔
قرآن مجید ، حضرت محمّد ﷺ کی زندگی کی روایات کے ساتھ ، مسلمانوں کو روز مرہ کی زندگی ، شادی بیاہ اور خاندانی زندگی سے لیکر حلال کھانا پینے ، لباس میں اعتدال اور معاشرے میں فضیلت سے متعلق رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ مذہبی آزادی اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے آداب۔ دوسرے لفظوں میں ، اسلام ہمارے وجود کے تمام پہلوؤں کو گھیرے میں لے کر ، اپنے پیروکاروں کو خوشحال زندگی کی روشنی میں پیش کرتا ہے ، اور آخرت میں کامیابی کا باعث بنتا ہے۔ جب غیر مسلم مذہب کے اس جوہر کا تجربہ کرتے ہیں تو ، وہ اسلام کی طرف راغب ہوجاتے ہیں ، جس کی وجہ سے وہ اکثر اسلام قبول کرتے ہیں۔
بے شک ، انڈونیشیا ان پرامن انداز کی ایک مثال ہے جس میں اسلام دنیا کے اس حصے میں پھیل گیا۔ اسلام نے مقامی آبادی کے دل و دماغ کو کھول دیا اور انہوں نے اسے اپنا مذہب تسلیم کرلیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ، یہ نسل در نسل انڈونیشی مسلمانوں کی نسلوں میں سرایت کر گیا - آخر کار اس کی حیثیت دنیا کے سب سے بڑے مسلم آبادی والے ملک کی حیثیت اختیار کر گئی۔
بدقسمتی سے ہمارے علماء کی تنگ نظری اور اسلام کی روح سے ناوافقیت، انسانوں کی لکھی ہوئی کتابوں کو قرآن پر فوقیت دینے کے رجحان، نت نئی نیکیاں کمانے کے طریقے دریافت کر نے کی تگ و دو، اور جنت میں جانے کے شارٹ کٹ کی تلاش نے اسلام جیسے سادہ دین کا حلیہ بگاڑ کر ایک ایسی شکل دے دی ہے جو کہ نہ صرف اس دین میں نئے آنے والوں کے لئے مشکلات پیدا کر نے کا با عث بنا بلکہ مسلمانوں کی نئی نسل کے اس دین سے لا تعلقی کا بھی سبب بنا ۔
(والله أعلم)
(Qur'an 10:16) قُل لَّوْ شَاءَ اللَّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا أَدْرَاكُم بِهِ ۖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
کہہ دو اگر الله چاہتا تو میں اسے تمہارےسامنے نہ پڑھتا اورنہ وہی تمہیں اس سے خبردار کرتا کیوں کہ اس سے پہلے تم میں ایک عمر گذار چکا ہوں کیا پھر تم نہیں سمجھتے
لوگوں میں عمر گزارنا سیرت و کردار کا پتا دیتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صادق اور امین جانے جاتے تھے اور کفار و مشرکین کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن اخلاق اور حسن کردار کا اس حد تک اعتراف تھا کہ بت پرستی پر قائم رہنے کے عوض وہ وہ آپ کی ساری باتیں ماننے پر تیار تھے۔ جب وہ اس پر سمجھوتہ نہ کرنے کے حوالے سے مکمل طور پر مایوس ہو گئے تو انہوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہاء کر دی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں مسلمان حاضر ہوتے تو کوئی زخمی حالت میں ہوتا، کسی کو کوڑوں سے مارا گیا ہوتا، تو کسی کو تپتی ریت پر گھسیٹا گیا ہوتا۔ یہ درد ناک صورتحال دیکھ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کو صبر کی تلقین فرماتے۔
بیعت عقبہ اولیٰ کے موقعہ پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو مدینہ روانہ فرمایا۔ ان کی دعوت اس قدر پر اثر ثابت ہوئی کہ اگلے سال حضرت مصعب رضی اللہ عنہ 75 مسلمانوں کو بیعت عقبہ ثانیہ کے لئے مکہ لے کر آئے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے ہمراہ 12 انصار صحابہ کو نقباء مقرر فرما کر مدینہ رخصت کیا اور جب ہجرت مدینہ ہوئی تو مدینہ کے لوگوں کی غالب اکثریت اس حال میں مسلمان ہو چکی تھی کہ نہ تلوار اٹھائی گئی اور نہ ہی اذن قتال نازل ہوا تھا۔
قرآنی تعلیمات اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 63 سالہ انقلابی جدوجہد سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں جتنے بھی معرکے ہوئے، ان میں کسی کو زبردستی مسلمان بنانے کی ایک بھی مثال نہیں ملتی۔ اگرچہ ضرورت کے وقت دفعِ شر اور فتنہ و فساد کو روکنے کے لئے جنگ میں پہل کی گئی لیکن زیادہ تر معرکوں کی نوعیت دفاعی رہی۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب بھی مخالفین نے سرِ تسلیم خم کیا یا راہِ فرار اختیار کی، صلح کے لئے ہاتھ بڑھایا یا ہتھیار ڈال دیئے تو پھر مسلمانوں نے بھی ان پر ہتھیار نہ اٹھائے۔ اسلام میں جنگ محض برائے جنگ نہیں بلکہ قیامِ امن کا ذریعہ ہے۔ محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا تو سندھ دار السلام بن گیا۔ یہ محض مسلمانوں کے کردار اور ان کے ثقافتی غلبہ کا اثر تھا کہ غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہوتے گئے اور دنیا میں ہر طرف اسلام کا ڈنکا بجنے لگا۔
کچھ علمائے کرام نے یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ دنیا میں اسلام کی توسیع اونٹ کی سواری ، تلوار سے چلانے والے وحشیوں کی وجہ سے تھی ، جو بنیادی طور پر بڑے پیمانے پر یہ نظریہ پیش کرتی ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ۔ حقیقت سے آگے کچھ نہیں ہوسکتا تھا۔ اگرچہ فتح کے ذریعے اسلام دوسرے خطوں میں پھیل گیا ، لیکن زمین کے لوگوں کا مذہب تبدیل ہونا ایک بہت ہی آہستہ عمل تھا۔ معروف برطانوی مورخ ، ڈی لیسی اولیری نے اپنی کتاب ، اسلام میں کراس روڈ میں لکھا ہے ، "تاریخ یہ واضح کرتی ہے کہ ... پوری دنیا میں جارحیت پسند مسلمانوں کا افسانہ اور فتح کرنے والی نسلوں پر تلوار کے نوک پر اسلام کو مجبور کرنا، تاریخ کا ایک انتہائی مضحکہ خیز افسانہ ہے جسے مورخین نے بار بار دہرادیا ہے۔
دنیا کے دوسرے حصوں میں ، اسلام آسانی سے تجارت کے ذریعہ پھیل گیا ، اور لوگوں کے ذریعہ ایک بار پھر اسلام قبول کرنا ایک تدریجی اور پیچیدہ عمل تھا۔ اس کے نظریہ کی سادگی کی وجہ سے مقامی لوگ مذہب کی طرف راغب ہوگئے۔ اسلام یہ ماننے کا مطالبہ کرتا ہے کہ عبادت کے لائق صرف ایک خدا ہے اور حضرت محمّد ﷺ آخری نبی تھے۔ اسلام خود بار بار اپنے پیروکاروں کو بھی اپنی ذہانت اور مشاہدے کا اختیارات استعمال کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔
قرآن مجید ، حضرت محمّد ﷺ کی زندگی کی روایات کے ساتھ ، مسلمانوں کو روز مرہ کی زندگی ، شادی بیاہ اور خاندانی زندگی سے لیکر حلال کھانا پینے ، لباس میں اعتدال اور معاشرے میں فضیلت سے متعلق رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ مذہبی آزادی اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے آداب۔ دوسرے لفظوں میں ، اسلام ہمارے وجود کے تمام پہلوؤں کو گھیرے میں لے کر ، اپنے پیروکاروں کو خوشحال زندگی کی روشنی میں پیش کرتا ہے ، اور آخرت میں کامیابی کا باعث بنتا ہے۔ جب غیر مسلم مذہب کے اس جوہر کا تجربہ کرتے ہیں تو ، وہ اسلام کی طرف راغب ہوجاتے ہیں ، جس کی وجہ سے وہ اکثر اسلام قبول کرتے ہیں۔
بے شک ، انڈونیشیا ان پرامن انداز کی ایک مثال ہے جس میں اسلام دنیا کے اس حصے میں پھیل گیا۔ اسلام نے مقامی آبادی کے دل و دماغ کو کھول دیا اور انہوں نے اسے اپنا مذہب تسلیم کرلیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ، یہ نسل در نسل انڈونیشی مسلمانوں کی نسلوں میں سرایت کر گیا - آخر کار اس کی حیثیت دنیا کے سب سے بڑے مسلم آبادی والے ملک کی حیثیت اختیار کر گئی۔
بدقسمتی سے ہمارے علماء کی تنگ نظری اور اسلام کی روح سے ناوافقیت، انسانوں کی لکھی ہوئی کتابوں کو قرآن پر فوقیت دینے کے رجحان، نت نئی نیکیاں کمانے کے طریقے دریافت کر نے کی تگ و دو، اور جنت میں جانے کے شارٹ کٹ کی تلاش نے اسلام جیسے سادہ دین کا حلیہ بگاڑ کر ایک ایسی شکل دے دی ہے جو کہ نہ صرف اس دین میں نئے آنے والوں کے لئے مشکلات پیدا کر نے کا با عث بنا بلکہ مسلمانوں کی نئی نسل کے اس دین سے لا تعلقی کا بھی سبب بنا ۔
(والله أعلم)
- Featured Thumbs
- https://i.ibb.co/F64KRtD/was-Islam-spread-by-sword-1.jpg
Last edited: