گو کہ کہنے والے اب بھی یہی کہیں گے کہ اسٹیل ملز پر لگنے والا پیسہ اونٹ کے منہہ میں زیرے کے برابر ہے، لیکن یہاں اگر کل کے بجٹ کی چیدہ چیدہ باتیں اور اخراجات کو دیکھا جائے، تو سوچیں کہ ان اعداد و شامر کی روشنی میں ہمارے اس سال کا بجٹ کیا ہوتا؟
حکومت کو اڑھائی بلین ڈالر کا ہر سال خسارہ صرف مہنگا اسٹیل دراآمد کرنے سے ہوتا ہے۔ یہ قریباً چار سو ارب روپے کا خسارہ ہے۔
وفاق جمع تمام صوبوں کا صحت کا بجٹ قریباً پانچ سو ارب روپے ہے۔ اگر اسٹیل ملز ایک روپیہ بھی منافع میں حکومت کو نہیں دیتی، تب بھی ، صرف یہ بچت ہمیں کہاں سے کہاں لے کر جا سکتی ہے؟
رواں مالی سال میں کرونا سے نمٹنے کے لیئے حکومت نے سات ارب روپے کا پیکج رکھا ہے۔ جو کہ بائیس کروڑ عوام کے لیئے ہے۔
اسٹیل ملز کا قریباً نو ارب روپے کا خسارہ صرف اور صرف ساڑھے نو ہزار ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات میں جاتا ہے۔ سوچیں،اگر یہ پیسہ ملک کے پاس ہوتا، تو اس مشکل وقت میں کرونا جیسی وبا سے بچنے کے لیئے حکومتی پیکج کیا ہو سکتا تھا؟
اسٹیل ملز پر قریباً اڑھائی سو ارب روپے کا قرضہ ہے۔ اگر رعائتی قرض کے حساب سے اس پر شرح سود صرف دس فیصد سالانہ بھی لگایا جائے، تو بھی یہ اڑھائی ارب روپے سالانہ بنتا ہے۔
اس کے علاوہ، اسٹیل ملز اگر بغیر منافع بھی چلائی جائے اور صرف ستّر فصد پیداوار دے، تب بھی یہ بارہ ارب روپے کا صرف سیلز ٹیکس حکومت کو دے سکتی تھی۔
اس کے ساتھ ساتھ، جو اس صنعت سے ملحقہ صنعتیں ہیں، مثلاً جیسے پاکستان میں گاڑیاں بنانے کی صنعت آجکل بحران کا شکار ہے، اور دیگر چھوٹی صنعتیں بھی ہیں، وہ بھی چل رہی ہوتیں۔ حکومت کو اور ٹیکس بھی آسکتے تھے جو کہ کئی ارب روپے ہوتے۔ کتنے لوگوں کو روزگار میّسر ہوتا؟
پھر سوچیں، کہ اگر یہ اسٹیل ملِ چل رہی ہوتی، تو اس سال کا بجٹ کیسا ہو سکتا تھا؟ اور اگر اب بھی کسی نے آپ کو ٹرک کی بتّی کے پیچھے لگا کر یہ کہنے کی کوشش کی کہ پہلے ان لوگوں کو پکڑو جنھوں نے اسے تباہ کیا ہے اور جب تک وہ پکڑے نہیں جاتے تب تک ان مزدوروں کو مفت کی تنخواہیں بھی دو، روز بڑھتے ہوئے خسارے بھی جھیلو اور اس کی نجکاری سے جو پیسہ حاصل ہو سکتا ہے، اس سے بھی دور رہو، تو آپ خود سوچ لیں، کہ آپکا اگلے سال کا بجٹ کیا ہوسکتا ہے؟
کیا صرف دس ہزار کے مفت کے روزگار کے لیئے، بقیہ بائیس کروڑ کے ساتھ زیادتی؟ کیا یہ درست ہوگا؟
حکومت کو اڑھائی بلین ڈالر کا ہر سال خسارہ صرف مہنگا اسٹیل دراآمد کرنے سے ہوتا ہے۔ یہ قریباً چار سو ارب روپے کا خسارہ ہے۔
وفاق جمع تمام صوبوں کا صحت کا بجٹ قریباً پانچ سو ارب روپے ہے۔ اگر اسٹیل ملز ایک روپیہ بھی منافع میں حکومت کو نہیں دیتی، تب بھی ، صرف یہ بچت ہمیں کہاں سے کہاں لے کر جا سکتی ہے؟
رواں مالی سال میں کرونا سے نمٹنے کے لیئے حکومت نے سات ارب روپے کا پیکج رکھا ہے۔ جو کہ بائیس کروڑ عوام کے لیئے ہے۔
اسٹیل ملز کا قریباً نو ارب روپے کا خسارہ صرف اور صرف ساڑھے نو ہزار ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات میں جاتا ہے۔ سوچیں،اگر یہ پیسہ ملک کے پاس ہوتا، تو اس مشکل وقت میں کرونا جیسی وبا سے بچنے کے لیئے حکومتی پیکج کیا ہو سکتا تھا؟
اسٹیل ملز پر قریباً اڑھائی سو ارب روپے کا قرضہ ہے۔ اگر رعائتی قرض کے حساب سے اس پر شرح سود صرف دس فیصد سالانہ بھی لگایا جائے، تو بھی یہ اڑھائی ارب روپے سالانہ بنتا ہے۔
اس کے علاوہ، اسٹیل ملز اگر بغیر منافع بھی چلائی جائے اور صرف ستّر فصد پیداوار دے، تب بھی یہ بارہ ارب روپے کا صرف سیلز ٹیکس حکومت کو دے سکتی تھی۔
اس کے ساتھ ساتھ، جو اس صنعت سے ملحقہ صنعتیں ہیں، مثلاً جیسے پاکستان میں گاڑیاں بنانے کی صنعت آجکل بحران کا شکار ہے، اور دیگر چھوٹی صنعتیں بھی ہیں، وہ بھی چل رہی ہوتیں۔ حکومت کو اور ٹیکس بھی آسکتے تھے جو کہ کئی ارب روپے ہوتے۔ کتنے لوگوں کو روزگار میّسر ہوتا؟
پھر سوچیں، کہ اگر یہ اسٹیل ملِ چل رہی ہوتی، تو اس سال کا بجٹ کیسا ہو سکتا تھا؟ اور اگر اب بھی کسی نے آپ کو ٹرک کی بتّی کے پیچھے لگا کر یہ کہنے کی کوشش کی کہ پہلے ان لوگوں کو پکڑو جنھوں نے اسے تباہ کیا ہے اور جب تک وہ پکڑے نہیں جاتے تب تک ان مزدوروں کو مفت کی تنخواہیں بھی دو، روز بڑھتے ہوئے خسارے بھی جھیلو اور اس کی نجکاری سے جو پیسہ حاصل ہو سکتا ہے، اس سے بھی دور رہو، تو آپ خود سوچ لیں، کہ آپکا اگلے سال کا بجٹ کیا ہوسکتا ہے؟
کیا صرف دس ہزار کے مفت کے روزگار کے لیئے، بقیہ بائیس کروڑ کے ساتھ زیادتی؟ کیا یہ درست ہوگا؟
Last edited by a moderator: