......کھجور کا ایک درخت

maksyed

Siasat.pk - Blogger
......کھجور کا ایک درخت
263387_10150261122155017_299556205016_7634308_6715241_n.jpg


سرکارِ دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہما کے درمیان تشریف فرما تھے کہ ایک یتیم جوان شکایت لیئے حاضر خدمت ہوا۔ کہنے لگا یا رسول اللہ؛ میں اپنی کھجوروں کے باغ کے ارد گرد دیوار تعمیر کرا رہا تھا کہ میرے ہمسائے کی کھجور کا ایک درخت دیوار کے درمیان میں آ گیا۔ میں نے اپنے ہمسائے سے درخواست کی کہ وہ اپنی کھجور کا درخت میرے لیئے چھوڑ دے تاکہ میں اپنی دیوار سیدھی بنوا سکوں، اُس نے دینے سے انکار کیا تو میں نے اُس کھجور کے درخت کو خریدنے کی پیشکس کر ڈالی، میرے ہمسائے نے مجھے کھجور کا درخت بیچنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔

سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس نوجوان کے ہمسائے کو بلا بھیجا۔ ہمسایہ حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے نوجوان کی شکایت سُنائی جسے اُس نے تسلیم کیا کہ واقعتا ایسا ہی ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے فرمایا کہ تم اپنی کھجور کا درخت اِس نوجوان کیلئے چھوڑ دو یا اُس درخت کو نوجوان کے ہاتھوں فروخت کر دو اور قیمت لے لو۔ اُس آدمی نے دونوں حالتوں میں انکار کیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات کو ایک بار پھر دہرایا؛ کھجور کا درخت اِس نوجوان کو فروخت کر کے پیسے بھی وصول کر لو اور تمہیں جنت میں بھی ایک عظیم الشان کھجور کا درخت ملے گا جِس کے سائے کی طوالت میں سوار سو سال تک چلتا رہے گا۔

دُنیا کےایک درخت کے بدلے میں جنت میں ایک درخت کی پیشکش ایسی عظیم تھی جسکو سُن کر مجلس میں موجود سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہما دنگ رہ گئے۔ سب یہی سوچ رہے تھے کہ ایسا شخص جو جنت میں ایسے عظیم الشان درخت کا مالک ہو کیسے جنت سے محروم ہو کر دوزخ میں جائے گا۔ مگر وائے قسمت کہ دنیاوی مال و متاع کی لالچ اور طمع آڑے آ گئی اور اُس شخص نے اپنا کھجور کا درخت بیچنے سے انکار کردیا۔

مجلس میں موجود ایک صحابی (ابا الدحداح) آگے بڑھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اگر میں کسی طرح وہ درخت خرید کر اِس نوجوان کو دیدوں تو کیا مجھے جنت کا وہ درخت ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ہاں تمہیں وہ درخت ملے گا۔

ابا الدحداح اُس آدمی کی طرف پلٹے اور اُس سے پوچھا میرے کھجوروں کے باغ کو جانتے ہو؟ اُس آدمی نے فورا جواب دیا؛ جی کیوں نہیں، مدینے کا کونسا ایسا شخص ہے جو اباالدحداح کے چھ سو کھجوروں کے باغ کو نہ جانتا ہو، ایسا باغ جس کے اندر ہی ایک محل تعمیر کیا گیا ہے، باغ میں میٹھے پانی کا ایک کنواں اور باغ کے ارد گرد تعمیر خوبصورت اور نمایاں دیوار دور سے ہی نظر آتی ہے۔ مدینہ کے سارے تاجر تیرے باغ کی اعلٰی اقسام کی کھجوروں کو کھانے اور خریدنے کے انتطار میں رہتے ہیں۔

ابالداحداح نے اُس شخص کی بات کو مکمل ہونے پر کہا، تو پھر کیا تم اپنے اُس کھجور کے ایک درخت کو میرے سارے باغ، محل، کنویں اور اُس خوبصورت دیوار کے بدلے میں فروخت کرتے ہو؟

اُس شخص نے غیر یقینی سے سرکارِ دوعالم کی طرف دیکھا کہ کیا عقل مانتی ہے کہ ایک کھجور کے بدلے میں اُسے ابالداحداح کے چھ سو کھجوروں کے باغ کا قبضہ بھی مِل پائے گا کہ نہیں؟ معاملہ تو ہر لحاظ سے فائدہ مند نظر آ رہا تھا۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور مجلس میں موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہما نے گواہی دی اور معاملہ طے پا گیا۔
ابالداحداح نے خوشی سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور سوال کیا؛ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، جنت میں میرا ایک کھجور کا درخت پکا ہو گیا ناں؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
نہیں۔ ابالدحداح سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے حیرت زدہ سے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا اُس کا مفہوم یوں بنتا ہے کہ؛ اللہ رب العزت نے تو جنت میں ایک درخت محض ایک درخت کے بدلے میں دینا تھا۔ تم نے تو اپنا پورا باغ ہی دیدیا۔ اللہ رب العزت جود و کرم میں بے مثال ہیں اُنہوں نے تجھے جنت میں کھجوروں کے اتنے باغات عطاء کیئے ہیں کثرت کی بنا پر جنکے درختوں کی گنتی بھی نہیں کی جا سکتی۔ ابالدحداح، میں تجھے پھل سے لدے ہوئے اُن درختوں کی کسقدر تعریف بیان کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اِس بات کو اسقدر دہراتے رہے کہ محفل میں موجود ہر شخص یہ حسرت کرنے لگا اے کاش وہ ابالداحداح ہوتا۔

ابالداحداح وہاں سے اُٹھ کر جب اپنے گھر کو لوٹے تو خوشی کو چُھپا نہ پا رہے تھے۔ گھر کے باہر سے ہی اپنی بیوی کو
آواز دی کہ میں نے چار دیواری سمیت یہ باغ، محل اور کنواں بیچ دیا ہے۔ بیوی اپنے خاوند کی کاروباری خوبیوں اورصلاحیتوں کو اچھی طرح جانتی تھی، اُس نے اپنے خاوند سے پوچھا؛ ابالداحداح کتنے میں بیچا ہے یہ سب کُچھ؟ابالداحداح نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے یہاں کا ایک درخت جنت میں لگے ایسے ایک درخت کے بدلے میں بیچا ہے جِس کے سایہ میں سوار سو سال تک چلتا رہے۔

ابالداحداح کی بیوی نے خوشی سے چلاتے ہوئے کہا. ابالداحداح، تو نے منافع کا سودا کیا ہے۔ ابالداحداح، تو نے منافع کا سودا کیا ہے۔

دنیا کی قُربانی کے بدلے میں آخرت کی بھلائی یا دُنیا میں اُٹھائی گئی تھوڑی سی مشقت کے بدلے کی آخرت کی راحت۔۔۔۔ کون تیار ہے ایسے سودے کیلئے؟؟؟ زندگی کی سمت متعین کرنے کیلئے آپ سوچیئے گا ضرور۔؟

**********************************

A Tree of Dates ......

One day Muhammed (S.A.A.W) and Sahaba (companions) (R.A.A) were sitting along and an orphan young man came to complain to the prophet (S.A.A.W). He said that “Oh messenger of Allah! I am building a wall around my date trees and one tree of my neighbor comes in between, I requested him to grant me the tree so that I can build the wall straight, but he denied then I asked him to sell the tree to me but he still denied.

The prophet (
S.A.A.W) called the young man’s neighbor. On the neighbor’s arrival he was informed that the young man has a request for him, to which he agreed to be right. The prophet (S.A.A.W) told him to either leave the tree or sell it to the young man. The man denied both the conditions.

Muhammed (
S.A.A.W) repeated the same comments “Sell the tree to the young man and you will get a huge tree in the heaven, the shadow of the tree is as long as if a horse rider try to travel beneath it for 100 years it will still not finish.

The offer of exchanging worldly tree with the heavenly tree was so exciting that the whole gathering were amazed. They were thinking that a man owning a tree in heaven; how can he not enter heaven and go to hell. But unluckily due to the greed of worldly desires and wealth the man refused.

A companion among the gatherers Aba Al Dahdah (R.A.A) came ahead and said, Oh messenger of Allah (
S.A.A.W) by any way if I could buy this young man that tree will I get the tree in heaven? Yes you will, replied the prophet (S.A.A.W).

Aba Al Dahdah (R.A.A) turned towards this man and told him do you know about my date trees garden? The man instantly replied, yes indeed’ who in Madina city will not be knowing the garden of Aba Al Dahdah having 600 trees and having a castle in the middle of it and having clean and sweet water well and a beautiful wall around it. Traders come from far away to eat and buy the dates from you.

On completion of the talk Aba Al Dahdah (R.A.A) told him, will you then trade the tree with the garden of mine?

The man was shocked and was thinking that will he be able to get such a good opportunity? The trade was then settled upon the witness of the messenger of Allah (
S.A.A.W) and the companions (R.A.A).

Aba Al Dahdah (R.A.A) happily looked at the prophet (
S.A.A.W) and asked him, Oh messenger of Allah (S.A.A.W) is my tree in heaven confirmed?

The messenger of Allah (
S.A.A.W) said, No!

Aba Al Dahdah (R.A.A) were bit confused, while prophet (
S.A.A.W) completed saying that Allah all mighty grant one tree for one tree but you have given the whole garden, Allah by his graciousness has granted to so many gardens that the trees are uncountable. Prophet (S.A.A.W
) continued saying, I can’t explain in words that how beautiful these trees full of fruits are looking, he repeated this several times that every one from the gatherers started thinking that they wish they could be Aba Al Dahdah.

Aba Al Dahdah (R.A.A) stood and left being so happy that he could not keep his happiness within that he didn’t waited to go inside his home and started calling his wife from outside of home saying that I sold the garden along the walls and the well.

His wife knew his business capabilities and asked him that how much did you trade all that for?

Aba Al Dahdah (R.A.A) told her that that I have traded one tree of this world with heaven’s tree which shadow is as long as if a horse rider try to travel beneath it for 100 years it will still not finish.

His wife due to happiness shouted and said that Aba Al Dahdah You have done a profitable trade.


Get lot when you sacrifice a little in life on earth… so do think about it.
 
Last edited:

shikari

Politcal Worker (100+ posts)
یہ وقت تجدید عہد کا ہے ۔۔ عہد اس بات کا ! کہ ہم سب اسلام ہی کے لیے جئیں گے اور اسلام ہی کے لیے مریں گے ۔۔ اورکوئی دوسرا راستہ بچاؤ اور سدھار کا اس کے علاوہ نہیں ہے ۔۔
 

shehreyar

MPA (400+ posts)
allah tala hum sab ko eman ki rah maien sabat qadam rakhay or eman ko mazbut karay aamien ,bhayo or bahno naykiyan tu hamary samany pari hoti haien bas hum ko un ko daykhana hay . sona hay kay jab tum naki ka eradah kar laytay ho tu tum ko usi waqat tumharay hisab maien likh di jati hay ,or agher tum borai ka eradah kartay ho tu woh tab tak tumharay hisab maien nay likhi jatai jab tak tum kar nay laytay ,daien naki ka kitana sowab hay kay tum naki ka sochatay ho tu tumharay hisab maien likh di jati hay mager badi jab tak kar na lo , lihaza bhaiyo or bahno bhali ki taraf ao kiyon kay esi maien najat hay .