Absent Mind
MPA (400+ posts)
خُرم سہیل۔
پاکستان میں ریڈیو اور ٹیلی وژن کی آمد کامقصد بڑانیک تھا۔ ابتدایہ سوچ کر کی گئی تھی کہ معاشرے میں مثبت تبدیلیاں کی جائیں۔ افراد کی ذہنیتربیت کا عمل شروع ہوسکے، سب سے بڑھ کر تہذیب اور ثقافت کی اہمیت اجاگر کی جاسکے۔ مہذب دنیا اور تعلیم یافتہ معاشروں میں انسان گنے نہیں، تولے جاتے ہیں، ان کے ہاں ہر شعبے کا معیار ہے، تخصیص ہے، جس کی بنیاد پر طے ہوتا ہے، کون کس شعبے کا ماہر ہے، کس کے کریڈٹ پر کتنا کام ہے۔ اپنے ملک سے باہر نکلتے ہی وہ اپنی ثقافت اور سماجیات کی سفارت کاری کرتے ہیں۔ ہر شخص اپنے کام میں وزن دار ہوتا ہے۔پاکستان میں کچھ عرصے سے گنگا الٹی بہنے لگی ہے۔
ایک وقت تھا، ہمارا ریڈیو اور ٹیلی وژن، اکلوتے ہونے کے باوجود، معاشرے کی تربیت اور فکری آبیاری کا کام کر رہے تھے، مگر اب جس کثرت سے ذرایع ابلاغ میں اضافہ ہوا، اسی تیزی سے ہم تہذیب وتمدن اورعلم وفکر سے عاری ہوتے چلے گئے۔ کتاب سے تعلق پرانا تھا، مگر حیرت انگیز طور پر کتابیں شایع بھی بہت ہو رہی ہیں، مگر قارئین کی اکثریت عنقا، کیونکہ کتاب کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے، وہ بھی بہت فکرانگیز ہے، جس میں ناشرین کی اکثریت غیر معیاری کتابیں چھاپ کر، معاشرے میں ردی کے بوجھ کا اضافہ کر رہی ہے۔ لکھنے والے بھی ایسے ہیں کہ اگر شاعری شروع کی اور شہرت کی دیوی ان پر مہربان نہ ہوئی، تو ناول لکھنے بیٹھ گئے ورنہ ڈراما لکھنا شروع کردیا۔ غرض کہ کسی بھی فن سے لگائوکی وجہ، ذات کا سکون یا فن کی خدمت نہیں، بلکہ شہرت کا حصول ٹھہری۔
یہ زمینی حقیقت ہے۔ایک مثال کے طور پر کچھ برسوںسے پاکستان میں مشروب بنانے والی بین الاقوامی کمپنی نے ’’کوک اسٹوڈیو‘‘ کے نام سے فیوژن میوزک کا ایک سلسلہ شروع کیا، ابتدا میں تو معاملات کچھ ٹھیک رہے، اب حالیہ سیزن 10کی دو اقساط دیکھنے تک، ان کے تخلیقی حالات کافی پتلے ہوگئے ہیں۔ رواں برس، کوک اسٹوڈیو نے 10 برس مکمل ہونے پر خاکسار کو بھی شہر کے دیگر صحافیوں کی طرح مدعو کیا۔ اس تقریب میں کچھ گلوکار بھی مدعو تھے، جن میں نئی نئی شہرت پانے والی مومنہ مستحسن بھی تھیں۔ ان سے ملاقات کرکے احساس ہوا، نئی نئی دولت حاصل کرنے والوں کی طرح، نئی نئی شہرت حاصل کرنے والوں کے اخلاقی حالات کچھ مختلف نہیں ہوتے۔ اس سیزن میں محترمہ شامل ہیں اور معروف گلوکار علی ظفر کے بھائی کے ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ کرتی ہوئی نظرآئیں۔
اس سیزن میں کسی گلوکار کا بیٹا تو کسی کا بھائی اور کسی کی بیٹی اورکسی کا سجن بیلی شامل ہیں، اس بار کافی سماجی تعلقات پر مبنی سیزن ہے، اسی میں موسیقی بھی فروغ پاجائے، تو اضافی بات ہوجائے گی۔عہدِ موجود میں مومنہ مستحسن پاکستانی ثقافت کے بد ترین منظر نامے کاخوبصورت چہرہ ہے۔ فیس بک ہویا ٹوئٹر، اپنی تصویریں خود کھینچ کراپ لوڈ کرتی رہتی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا، اگر تھوڑی سی محنت گانے پر بھی کرلیتیں، جس کی وجہ سے وہ موسیقی کے شعبے میں داخل ہوئیں یا کرائی گئیں۔ کہاں ایک طرف گلوکار اپنی البم ریلیز کر کے انتظار کرتے ہیں،
کب ان کے لیے دروازے کھلیں اور دوسری طرف ان جیسی خواتین ہیں، جن کے لیے سنگل گانے کی بھی شرط نہیں، کوک اسٹوڈیو کے دروازے ان کے لیے کھلے ہیں، شرط جان پہچان اورحسن دلآرا ہے، ہائے بھلی صورت بھی کیا بری شے ہے۔
پاکستان میں ریڈیو اور ٹیلی وژن کی آمد کامقصد بڑانیک تھا۔ ابتدایہ سوچ کر کی گئی تھی کہ معاشرے میں مثبت تبدیلیاں کی جائیں۔ افراد کی ذہنیتربیت کا عمل شروع ہوسکے، سب سے بڑھ کر تہذیب اور ثقافت کی اہمیت اجاگر کی جاسکے۔ مہذب دنیا اور تعلیم یافتہ معاشروں میں انسان گنے نہیں، تولے جاتے ہیں، ان کے ہاں ہر شعبے کا معیار ہے، تخصیص ہے، جس کی بنیاد پر طے ہوتا ہے، کون کس شعبے کا ماہر ہے، کس کے کریڈٹ پر کتنا کام ہے۔ اپنے ملک سے باہر نکلتے ہی وہ اپنی ثقافت اور سماجیات کی سفارت کاری کرتے ہیں۔ ہر شخص اپنے کام میں وزن دار ہوتا ہے۔پاکستان میں کچھ عرصے سے گنگا الٹی بہنے لگی ہے۔
ایک وقت تھا، ہمارا ریڈیو اور ٹیلی وژن، اکلوتے ہونے کے باوجود، معاشرے کی تربیت اور فکری آبیاری کا کام کر رہے تھے، مگر اب جس کثرت سے ذرایع ابلاغ میں اضافہ ہوا، اسی تیزی سے ہم تہذیب وتمدن اورعلم وفکر سے عاری ہوتے چلے گئے۔ کتاب سے تعلق پرانا تھا، مگر حیرت انگیز طور پر کتابیں شایع بھی بہت ہو رہی ہیں، مگر قارئین کی اکثریت عنقا، کیونکہ کتاب کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے، وہ بھی بہت فکرانگیز ہے، جس میں ناشرین کی اکثریت غیر معیاری کتابیں چھاپ کر، معاشرے میں ردی کے بوجھ کا اضافہ کر رہی ہے۔ لکھنے والے بھی ایسے ہیں کہ اگر شاعری شروع کی اور شہرت کی دیوی ان پر مہربان نہ ہوئی، تو ناول لکھنے بیٹھ گئے ورنہ ڈراما لکھنا شروع کردیا۔ غرض کہ کسی بھی فن سے لگائوکی وجہ، ذات کا سکون یا فن کی خدمت نہیں، بلکہ شہرت کا حصول ٹھہری۔
یہ زمینی حقیقت ہے۔ایک مثال کے طور پر کچھ برسوںسے پاکستان میں مشروب بنانے والی بین الاقوامی کمپنی نے ’’کوک اسٹوڈیو‘‘ کے نام سے فیوژن میوزک کا ایک سلسلہ شروع کیا، ابتدا میں تو معاملات کچھ ٹھیک رہے، اب حالیہ سیزن 10کی دو اقساط دیکھنے تک، ان کے تخلیقی حالات کافی پتلے ہوگئے ہیں۔ رواں برس، کوک اسٹوڈیو نے 10 برس مکمل ہونے پر خاکسار کو بھی شہر کے دیگر صحافیوں کی طرح مدعو کیا۔ اس تقریب میں کچھ گلوکار بھی مدعو تھے، جن میں نئی نئی شہرت پانے والی مومنہ مستحسن بھی تھیں۔ ان سے ملاقات کرکے احساس ہوا، نئی نئی دولت حاصل کرنے والوں کی طرح، نئی نئی شہرت حاصل کرنے والوں کے اخلاقی حالات کچھ مختلف نہیں ہوتے۔ اس سیزن میں محترمہ شامل ہیں اور معروف گلوکار علی ظفر کے بھائی کے ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ کرتی ہوئی نظرآئیں۔
اس سیزن میں کسی گلوکار کا بیٹا تو کسی کا بھائی اور کسی کی بیٹی اورکسی کا سجن بیلی شامل ہیں، اس بار کافی سماجی تعلقات پر مبنی سیزن ہے، اسی میں موسیقی بھی فروغ پاجائے، تو اضافی بات ہوجائے گی۔عہدِ موجود میں مومنہ مستحسن پاکستانی ثقافت کے بد ترین منظر نامے کاخوبصورت چہرہ ہے۔ فیس بک ہویا ٹوئٹر، اپنی تصویریں خود کھینچ کراپ لوڈ کرتی رہتی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا، اگر تھوڑی سی محنت گانے پر بھی کرلیتیں، جس کی وجہ سے وہ موسیقی کے شعبے میں داخل ہوئیں یا کرائی گئیں۔ کہاں ایک طرف گلوکار اپنی البم ریلیز کر کے انتظار کرتے ہیں،
کب ان کے لیے دروازے کھلیں اور دوسری طرف ان جیسی خواتین ہیں، جن کے لیے سنگل گانے کی بھی شرط نہیں، کوک اسٹوڈیو کے دروازے ان کے لیے کھلے ہیں، شرط جان پہچان اورحسن دلآرا ہے، ہائے بھلی صورت بھی کیا بری شے ہے۔
[FONT="]
مصنف، کوک اسٹوڈیو کی تقریب میں مومنہ مستحسن کے ساتھ[/FONT]
مصنف، کوک اسٹوڈیو کی تقریب میں مومنہ مستحسن کے ساتھ[/FONT]
کوک اسٹوڈیو کی تعارفی تقریب میں یہ خاتون، صحافیوں کویہ کہتے ہوئے پائی گئیں، میں مردوں کے ساتھ تصویر نہیں بنواتی اورشاید ہی تقریب میں کوئی مرد فنکار ایسا چھوڑا ہوگا، جس کے ’ساتھ‘ محترمہ نے تصویر نہ لی ہو۔ کبھی یہ بھی سننے میں آتا تھاکہ کوک اسٹوڈیو میں ظاہری حلیے کو بہت اہمیت حاصل ہے، مومنہ مستحسن کو دیکھ کر اس کا یقین آگیا، مگراس میں ان کا کیا قصور، اگر باریکی سے جائزہ لیا جائے، تو کوچۂ سیاست میں عائشہ گل لئی اور ریحام خان بھی اسی سکے کا دوسرا رخ ہیں۔پاکستان کے ٹیلی وژن پر نت نئے اور خوبصورت چہرے دکھائی دیتے ہیں،
لیکن معاشرے کاچہرہ اتنا خوبصورت ہے نہیں۔ جمالیات اور فکری روشنائی سے تو خیر ہمارے سماج کی اکثریت کو کچھ لینا دینا نہیں، مگر ظاہری طور پر عیاں کرتے ہیں کہ شایدان کے پیٹ میں تہذیب کا مروڑ اٹھتا ہے، بالخصوص طبقہ اشرافیہ، جن کے لیے کچرے کے ڈھیر سے روٹی کے ٹکڑے چنتے ہوئے بچے کی تصویر، آرٹ کا اعلیٰ نمونہ ہوتی ہے۔جہالت کی کالک، سُرخی پائوڈر سے نہیں چھپ سکتی، معیار رنگ وروغن کی بجائے افکار سے آتا ہے، جن معاشروں سے یہ پیشہ ور متاثر ہیں، وہاں علم کی قدر بھی ہے۔ نوٹنکی والے کیاجانیں، انہیں صرف پیسے کمانے سے غرض ہے اور ایک ایسا معاشرہ، جس کی ترجیح میں ثقافت اور تہذیب نہ ہو، اس میں یہ بات کرنا بھی لا حاصل ہو چکی ہے۔پاکستان میں زمانہ موجود میں مشروب ساز ادارے بتا رہے ہیں،
بہتر موسیقی کیا ہوتی ہے، بین الاقوامی مصنوعات اور فنڈز کے زور پر چلنے والے ادبی میلے ادبی تہذیب سکھا رہے ہیں۔ غیر ملکی ایڈ کے پیسے سے ہمارے ثقافتی منظر نامے کو محفوظ رکھنے کی سعی ہو رہی ہے۔ موبائل فون کمپنیاں، بینک اور کارپوریٹ سیکٹر ہمارے معاشرتی چہرے کے خدوخال بھر رہا ہے۔ حکومت اورحزب اختلاف کے ہاں ثقافت کوئی موضوع ہی نہیں، ثقافتی طائفہ نامی چیز کبھی کبھار اپنے غیر ملکی دوروں پر لے جاتے ہیں، مگر وہ قصہ بھی اب تقریباً گول ہوا، ان کی جگہ نام نہاد صحافیوں نے لے لی ہے۔
علمی زوال کی زندہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ کتاب پڑھنے والے کم اور اپنے آپ کو کتابی کہنے والے زیادہ ہیں، ان دنوں معاشرے میں ثقافت کے نام پر صرف تجارتی تماشے ہو رہے ہیں، چونکہ معاشرہ کو تفریح و طبع کی بھی ضرورت ہے
، تو ان کو جو کچھ میسرآتا ہے، اسی میں خوش ہیں، عالم یہ ہے کہ عیدالفطرپردو پاکستانی فلمیں اور تین انگریزی فلمیں ریلیز ہوئیں، ان پانچوں فلموں کے ہائوس فل تھے۔ لائبریریاں ویران ہوئیں تو کیا ہوا۔پاکستانی معاشرے میں علم والوں کی قوت مدافعت ٹوٹ رہی ہے، باشعور عوام نے ہتھیار ڈالنے شروع کر دیے ہیں۔ اب ہر کوئی صرف اپنی روٹی پر دال گھسیٹنے کی فکر میں ہے۔ تھوڑی بہت، علمی ٹھرک سوشل میڈیا کے ذریعے سے پوری ہوجاتی ہے، وہی کافی ہے۔ کیسی تہذیب اور کون سا معاشرہ، صرف ’’یاشیخ، اپنی اپنی دیکھ‘‘ کے مصداق ہو گیا ہے سب کچھ، جہاں زندگی صرف گزررہی ہے، جینے کی بات جانے دیں۔
دانش۔ پی کے پر شائع ہوا۔
لیکن معاشرے کاچہرہ اتنا خوبصورت ہے نہیں۔ جمالیات اور فکری روشنائی سے تو خیر ہمارے سماج کی اکثریت کو کچھ لینا دینا نہیں، مگر ظاہری طور پر عیاں کرتے ہیں کہ شایدان کے پیٹ میں تہذیب کا مروڑ اٹھتا ہے، بالخصوص طبقہ اشرافیہ، جن کے لیے کچرے کے ڈھیر سے روٹی کے ٹکڑے چنتے ہوئے بچے کی تصویر، آرٹ کا اعلیٰ نمونہ ہوتی ہے۔جہالت کی کالک، سُرخی پائوڈر سے نہیں چھپ سکتی، معیار رنگ وروغن کی بجائے افکار سے آتا ہے، جن معاشروں سے یہ پیشہ ور متاثر ہیں، وہاں علم کی قدر بھی ہے۔ نوٹنکی والے کیاجانیں، انہیں صرف پیسے کمانے سے غرض ہے اور ایک ایسا معاشرہ، جس کی ترجیح میں ثقافت اور تہذیب نہ ہو، اس میں یہ بات کرنا بھی لا حاصل ہو چکی ہے۔پاکستان میں زمانہ موجود میں مشروب ساز ادارے بتا رہے ہیں،
بہتر موسیقی کیا ہوتی ہے، بین الاقوامی مصنوعات اور فنڈز کے زور پر چلنے والے ادبی میلے ادبی تہذیب سکھا رہے ہیں۔ غیر ملکی ایڈ کے پیسے سے ہمارے ثقافتی منظر نامے کو محفوظ رکھنے کی سعی ہو رہی ہے۔ موبائل فون کمپنیاں، بینک اور کارپوریٹ سیکٹر ہمارے معاشرتی چہرے کے خدوخال بھر رہا ہے۔ حکومت اورحزب اختلاف کے ہاں ثقافت کوئی موضوع ہی نہیں، ثقافتی طائفہ نامی چیز کبھی کبھار اپنے غیر ملکی دوروں پر لے جاتے ہیں، مگر وہ قصہ بھی اب تقریباً گول ہوا، ان کی جگہ نام نہاد صحافیوں نے لے لی ہے۔
، تو ان کو جو کچھ میسرآتا ہے، اسی میں خوش ہیں، عالم یہ ہے کہ عیدالفطرپردو پاکستانی فلمیں اور تین انگریزی فلمیں ریلیز ہوئیں، ان پانچوں فلموں کے ہائوس فل تھے۔ لائبریریاں ویران ہوئیں تو کیا ہوا۔پاکستانی معاشرے میں علم والوں کی قوت مدافعت ٹوٹ رہی ہے، باشعور عوام نے ہتھیار ڈالنے شروع کر دیے ہیں۔ اب ہر کوئی صرف اپنی روٹی پر دال گھسیٹنے کی فکر میں ہے۔ تھوڑی بہت، علمی ٹھرک سوشل میڈیا کے ذریعے سے پوری ہوجاتی ہے، وہی کافی ہے۔ کیسی تہذیب اور کون سا معاشرہ، صرف ’’یاشیخ، اپنی اپنی دیکھ‘‘ کے مصداق ہو گیا ہے سب کچھ، جہاں زندگی صرف گزررہی ہے، جینے کی بات جانے دیں۔
دانش۔ پی کے پر شائع ہوا۔
- Featured Thumbs
- https://i.ytimg.com/vi/foxAc0SZmVo/maxresdefault.jpg
Last edited by a moderator: