نواز اور زرداری کے نورا کشتی ٹولے تو اپنی بنیاد سے دروغ گو اور حرام پرست تھے ان سے کسی اخلاق یا میعار کی توقع بیکار تھی ۔ وہ ناقابل اصلاح تھے اور رہیں گے، ۔ جعلی لبرل ٹولا بھی کئی در کا وضیفہ خوار ہے اور وہ وہی بولے اور سوچے گا جس خاطر اسے پروان چڑھایا گیا ، اسکی اصل حثیئت نائین الیون کے بعد مسلط خرید کردہ جنگی ہتھیار کی سی ہے ، وہ تضاد اور منافقت کی سوچ سے تشکیل پایا ہے ، وہ مروڑ تڑوڑ کر سچ اور حقیقت کو یونہی گندھلاتا کرتا رہے گا
مگر
کوڑھی کمانڈ نے حالیہ جو کارنامے سر انجام دیئے ہیں وہ بے مثال ہیں، ان کا خبث و حماقت غیر متوقع اور ناقابل بیان ہے ، اسنے ہر ذی شعور کو دنگ کر دیا ہے
اکثر کہا جاتا ہے کہ ایک بہت بڑے ادارے کی ساخت میں اتنی فہم بن جاتی ہے کہ وہ لاکھ اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کرے مگر میانہ روی اور اصلاح کو بھی مدِنظر رکھتا ہے کہ اسکے حقیقی مفادات ذاتی نہیں دور رس ہوتے ہیں اور اسکی ذات بھی کسی طور سبھی سے جڑی ہوتی ہے ، کوڑھی کمانڈ نے اپنے قبیح اعمال سے اسکی نفی کر دی ہے ،
اگرچہ بھونڈے پراپگنڈے اور اضطراب کو استعمال کر کے کھلے دنوں قتل کرنے کی ناکام کوشش سے کچھ اندازہ ہوا تھا کہ اس ادارے میں بلوغت کا شدید فقدان ہے خواہ اسے چند بھٹکے ارکان کی مہم جوئی سمجھا گیا، مگر اس عمل سے ادارے کے اندرون شکست و ریخت منظر پر آئی
مگر حالیہ اعمال اور اضطرابی ابال سے یہ روز روشن ہے کہ ادارہ کسی جزوی شکست و ریخت نہی بلکہ مکمل انتشار اور پھوٹ کا شکار ہے اور اپنی بنیاد سے سرک چکا ہے ،
تاریخ نے بہت فسطائیت دیکھی ہے ، بہت سے مہم جو فسطائی گزرے ہیں مگر فسطائیت اور حماقت کا ایسا ملغوبہ بنایا ہے کہ فرق کرنا دشوار ہے ، یہ کوئی اداراتی رکن نہیں کسی جاسوسی پلاٹ کے ٹکے ٹکے کے درجہ سوئم سکرپٹ نگار لگتے ہیں، لگتا ہے یہ کوئی اجتماعی ادارہ نہیں بلکہ کوئی بگڑا بوا ، خلل ذدہ کم سن بچہ ہے جو اپنے ہی قابو میں نہیں ، پروفیشنل پزمردگی کی اس بڑھ کر مثال کیا ہو گی کہ شاید یہ ادارہ اجتماعی طور رانا ثنا جیسے کسی ڈیرے میں شاگرد رہا ہے ، نہ کہ کسی اکیڈمی میں چند برس ٹریننگ لی ہو ، عقل اور تعلیم کا مکمل فقدان صریح جھلک رہا ہے ،
یہ کیسے کب اور کیوں واقع ہوا وہ ایک عؑلیحدہ لمبی بحث ہے مگر اب اسے ایک اجتمائی پروفیشل یا ذہنی طور استادہ ادارہ سمجھنا سراسر بیوقوفی ہو گی ، ملک اندر اور باہر پاکستانی اور غیر ممالک شہریوں کو اس بات کو سمجھنا چاہیے ، کوڑھی کمانڈ کا طفل پن اور حماقت ایسی نہیں کہ اسپر ہنسا جائے یا ہمدردی کی جائے۔
صحافت اور عدالت بارے بطور ادارہ اس وقت تبصرہ قبل از وقت ہو گا کہ ان میں سو خرابیاں اور خراب افراد ہیں مگر وہ دونوں ایک بپھر ے، بپھلے بچے کی حماقتوں سے اپنی بقا کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں ، وہی ممکنہ اسے قابو بھی سکتے ہیں ۔