کوروناوائرس: بھارت میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے پر اقوام متحدہ کی تشویش
بھارت میں سختگیر ہندو تنظیمیں اور میڈیا کا ایک حلقہ کورونا وائرس کے نام پر مسلمانوں کو بدنام کرنے میں لگا ہے جس کے سبب مسلمانوں کے خلاف حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اقوام متحدہ نے کورونا وائرس کے تعلق سے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو اس کی روک تھام کے لیے فوری طور پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت میں سخت گیر ہندو تنظیمیں اور میڈیا کا ایک حلقہ کورونا وائرس کے نام پر مسلمانوں کو بدنام کرنے میں لگا ہے جس کے سبب مسلمانوں کے خلاف حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اس سے قبل عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو ایچ او)نے بھی بھارت میں کورونا وائرس کے تعلق سے مسلم فرقہ کو نشانہ بنائے جانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سخت نکتہ چینی کی تھی۔
بھارت میں مقامی غیر سرکاری تنظیموں اور عالمی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے والے اقوام متحدہ کی بھارتی مندوب رینتا لوک ڈیزلن نے موجودہ صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو کووڈ- انیس کے تعلق سے، '' ایک خاص برادری کے لوگوں کو بدنام کرنے کے خلاف لڑنے اور مہاجر مزدوروں کے مسائل سے فوری طور پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔"
اس سے قبل عالمی ادارہ صحت نے بھی بھارت میں کورونا کو ایک خاص مذہب سے جوڑنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح کی چیزوں کو آخر بھارت میں ہی پنپنے کا موقع کیوں ملتا ہے؟ ادارے کے پروگرام ڈائریکٹر مائک رائن کا کہنا تھا، ''ممالک کو چاہیے کہ وہ نئے کورونا وائرس کے مریضوں کے کیسز کی مذہب یا پھر کسی دوسری بنیادوں پر پروفائلنگ سے گریز کریں۔''
دارالحکومت دہلی میں حضرت نظام الدین کے علاقے میں واقع تبلیغی جماعت کے عالمی مرکز میں مقیم بعض افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہونے کے بعد سے بعض سخت گیر ہندو رہنما اور ان کا حامی میڈیا کا ایک حلقہ مسلمانوں کو نشانہ بناتا رہا ہے۔ کورونا وائرس اور تبلیغی جماعت کے حوالے سے ایک خاص طبقہ تمام بھارتی مسلمانوں کو ملک دشمن کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رکن پارلیمان نے اسے ''کورونا جہاد“ قرار دے دیا۔
اس حوالے سے بھارتی میڈیا میں اس قدر پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ ملک کے مختلف حصوں سے مسلمانوں پر حملوں کی خبریں آرہی ہے۔ دہلی
کے بوانا میں ایک ہجوم نے تبلیغی جماعت سے وابستہ ایک مسلم نوجوان کو اتنا مارا کہ بعد میں وہ اسپتال میں دم توڑ گیا۔ نفرت انگیز بیانات کا اثر یہ ہوا ہے کہ بہت سے علاقوں میں مسلم دکانداروں کا اب بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔
بھارت میں اقوام متحدہ کی مندوب نے حکومت سے اس سلسلے میں فوری کارروائی کا مطالبہ کیا جس کے بعد بھارتی حکومت نے اپنی ایک ایڈوائزری میں کورونا وائرس کو کسی ایک خاص کمیونٹی سے نہ جوڑنے کا بیان جاری کیا ہے۔ حکومت نے بیان میں کہا ہے کہ اس طرح کے رویے سے لوگوں میں ایک دوسرے کے خلاف تعصب میں اضافہ ہوگا۔ اور ''اس سے آپس میں عداوتیں، بدنظمی اور سماجی انتشار میں اضافہ ہوسکتا ہے۔''
بھارتی محکمہ صحت کی جانب سے ہر روز کورونا وائرس سے متعلق یومیہ بریفنگ دی جاتی ہے اور اس میں بھی حکومت تبلیغی جماعت کی مسجد کا نام لے کر ان کے اعداد و شمار الگ سے پیش کرتی ہے۔ مسلم حلقوں کی جانب سے اس پر بھی اعتراض کیا گیا ہے۔ دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ظفرالاسلام خان نے حکومت سے اپنی بریفنگ میں تبلیغی جماعت کانام بار بار دہرانے سے باز رہنے کے لیے حکومت کو ایک خط لکھا ہے۔
انہوں نے حکومت کے اس رویے پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے لکھا، ''اس طرح کی درجہ بندی سے گودی میڈیا(بھارت میں حکومت نواز میڈیا کو طنزیہ طور پرگودی میڈیا کہاجاتا ہے) اور ہندوتوا فورسز کے اسلامو فوبیا ایجنڈے کو تقویت ملتی ہے۔ یہ درجہ بندی ملکی سطح پر مسلمانوں پر حملہ کرنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ اسی کے نتیجے میں مختلف علاقوں میں مسلمانوں پر حملے ہورہے ہیں، سماجی سطح پر ان کے بائیکاٹ کی اپیل کی جارہی ہیں۔ شمال مغربی دہلی میں ایک مسلم نوجوان کو اسی کے نام پر بھیڑ نے مار مار کو ہلاک کر دیا ہے اور دوسروں پر حملے جاری ہیں۔''
سورس
بھارت میں سختگیر ہندو تنظیمیں اور میڈیا کا ایک حلقہ کورونا وائرس کے نام پر مسلمانوں کو بدنام کرنے میں لگا ہے جس کے سبب مسلمانوں کے خلاف حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اقوام متحدہ نے کورونا وائرس کے تعلق سے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو اس کی روک تھام کے لیے فوری طور پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت میں سخت گیر ہندو تنظیمیں اور میڈیا کا ایک حلقہ کورونا وائرس کے نام پر مسلمانوں کو بدنام کرنے میں لگا ہے جس کے سبب مسلمانوں کے خلاف حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اس سے قبل عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو ایچ او)نے بھی بھارت میں کورونا وائرس کے تعلق سے مسلم فرقہ کو نشانہ بنائے جانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سخت نکتہ چینی کی تھی۔
بھارت میں مقامی غیر سرکاری تنظیموں اور عالمی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے والے اقوام متحدہ کی بھارتی مندوب رینتا لوک ڈیزلن نے موجودہ صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو کووڈ- انیس کے تعلق سے، '' ایک خاص برادری کے لوگوں کو بدنام کرنے کے خلاف لڑنے اور مہاجر مزدوروں کے مسائل سے فوری طور پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔"
اس سے قبل عالمی ادارہ صحت نے بھی بھارت میں کورونا کو ایک خاص مذہب سے جوڑنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح کی چیزوں کو آخر بھارت میں ہی پنپنے کا موقع کیوں ملتا ہے؟ ادارے کے پروگرام ڈائریکٹر مائک رائن کا کہنا تھا، ''ممالک کو چاہیے کہ وہ نئے کورونا وائرس کے مریضوں کے کیسز کی مذہب یا پھر کسی دوسری بنیادوں پر پروفائلنگ سے گریز کریں۔''
دارالحکومت دہلی میں حضرت نظام الدین کے علاقے میں واقع تبلیغی جماعت کے عالمی مرکز میں مقیم بعض افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہونے کے بعد سے بعض سخت گیر ہندو رہنما اور ان کا حامی میڈیا کا ایک حلقہ مسلمانوں کو نشانہ بناتا رہا ہے۔ کورونا وائرس اور تبلیغی جماعت کے حوالے سے ایک خاص طبقہ تمام بھارتی مسلمانوں کو ملک دشمن کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رکن پارلیمان نے اسے ''کورونا جہاد“ قرار دے دیا۔
اس حوالے سے بھارتی میڈیا میں اس قدر پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ ملک کے مختلف حصوں سے مسلمانوں پر حملوں کی خبریں آرہی ہے۔ دہلی
کے بوانا میں ایک ہجوم نے تبلیغی جماعت سے وابستہ ایک مسلم نوجوان کو اتنا مارا کہ بعد میں وہ اسپتال میں دم توڑ گیا۔ نفرت انگیز بیانات کا اثر یہ ہوا ہے کہ بہت سے علاقوں میں مسلم دکانداروں کا اب بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔
بھارت میں اقوام متحدہ کی مندوب نے حکومت سے اس سلسلے میں فوری کارروائی کا مطالبہ کیا جس کے بعد بھارتی حکومت نے اپنی ایک ایڈوائزری میں کورونا وائرس کو کسی ایک خاص کمیونٹی سے نہ جوڑنے کا بیان جاری کیا ہے۔ حکومت نے بیان میں کہا ہے کہ اس طرح کے رویے سے لوگوں میں ایک دوسرے کے خلاف تعصب میں اضافہ ہوگا۔ اور ''اس سے آپس میں عداوتیں، بدنظمی اور سماجی انتشار میں اضافہ ہوسکتا ہے۔''
بھارتی محکمہ صحت کی جانب سے ہر روز کورونا وائرس سے متعلق یومیہ بریفنگ دی جاتی ہے اور اس میں بھی حکومت تبلیغی جماعت کی مسجد کا نام لے کر ان کے اعداد و شمار الگ سے پیش کرتی ہے۔ مسلم حلقوں کی جانب سے اس پر بھی اعتراض کیا گیا ہے۔ دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ظفرالاسلام خان نے حکومت سے اپنی بریفنگ میں تبلیغی جماعت کانام بار بار دہرانے سے باز رہنے کے لیے حکومت کو ایک خط لکھا ہے۔
انہوں نے حکومت کے اس رویے پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے لکھا، ''اس طرح کی درجہ بندی سے گودی میڈیا(بھارت میں حکومت نواز میڈیا کو طنزیہ طور پرگودی میڈیا کہاجاتا ہے) اور ہندوتوا فورسز کے اسلامو فوبیا ایجنڈے کو تقویت ملتی ہے۔ یہ درجہ بندی ملکی سطح پر مسلمانوں پر حملہ کرنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ اسی کے نتیجے میں مختلف علاقوں میں مسلمانوں پر حملے ہورہے ہیں، سماجی سطح پر ان کے بائیکاٹ کی اپیل کی جارہی ہیں۔ شمال مغربی دہلی میں ایک مسلم نوجوان کو اسی کے نام پر بھیڑ نے مار مار کو ہلاک کر دیا ہے اور دوسروں پر حملے جاری ہیں۔''
سورس