کلبھوشن یادیو کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھارت کو ایک اور مہلت دیدی

kalab112.jpg


چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل اسلام آباد ہائیکورٹ کے 3 رکنی بنچ نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو وکیل کی فراہمی کے لیے وزارت قانون کی درخواست پر سماعت کی، اٹارنی جنرل اور عدالتی معاون ایڈوکیٹ حامد خان بھی بینچ کے روبرو پیش ہوئے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت عالمی عدالت انصاف کے ریویو اور ری کنسڈریشن کے فیصلے پر مکمل عملدرآمد چاہتی ہے جبکہ بھارت جان بوجھ کر عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں چاہتا، اسی صورت حال میں وفاقی حکومت نے درخواست دی تھی کہ کلبھوشن کے لیے وکیل مقرر کیا جائے۔

اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان نے مزید کہا کہ بھارت چاہتا ہے کہ وہ باہر سے وکیل لائیں لیکن ہمارے قانون کے مطابق باہر سے وکیل نہیں لا سکتے حالانکہ بھارت بھی اپنے ملک میں کسی اور ملک کا وکیل قبول نہیں کرتا۔ بھارت کلبھوشن کے ساتھ اکیلے کمرے میں قونصلر رسائی چاہتا ہے مگر وہ کوئی ملک نہیں دے سکتا۔

https://twitter.com/x/status/1445343726902054914
انہوں نے کہا کہ بھارتی نمائندوں کو علیحدگی میں کلبھوشن کے ساتھ نہیں چھوڑ سکتے، وہ اکیلے محض ہاتھ ملا کر بھی اسے کچھ کرسکتے ہیں۔ بھارت کو عدالت کے آرڈر کے مطابق یہ پیغام پہنچایا گیا لیکن ابھی تک ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔

عدالت نے کیس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر ہمیں عمل کرانا ہے لیکن بھارت کی اس میں دلچسپی نہیں، کیا یہ مناسب نہیں کہ انہیں ایک موقع دیا جائے اور وہ آ کر عدالت کے سامنے تحفظات رکھیں؟

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس میں کہا کہ بھارتی حکومت کو اگر کوئی تحفظات ہیں تو وہ آ کر بتائے، بھارتی سفارت خانہ پاکستان میں ہے، وہاں سے کوئی آکر بتا دے، ہوسکتا ہے یہاں اس کا حل نکل آئے۔
 
Last edited: