کشمیر میں فورسز قانون سے بالاتر؟
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک سکول کی طالبہ پر مبینہ جنسی حملے کے واقعے کے خلاف احتجاج میں اب تک پانچ افراد پولیس اور فوج کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔ تازہ ترین ہلاکت ایک اسکول کے طالب علم کی ہے ۔ مرنے والوں میں پانچ میں سے چار نوعمر لڑکے تھے۔
مبینہ جنسی حملے کے بعد سکول طالبہ کو پولیس اسٹیشن لے جایا گیا تھا۔ بعد میں پولیس نے ملک کی عدالت عظمی کے مسلمہ ضابطوں کی خلاف وزی کرتے ہوئے نابالغ متاثرہ لڑکی کی پوری شناخت کےساتھ ایک ویڈیو جاری کی جس میں لڑکی کو یہ بیان دیتے ہوئے دکھایا گیا کہ اس پرکسی فوجی نے حملہ نہیں کیا تھا۔
متاثرہ لڑکی اس واقعے کے بعد سے پولیس کی تحویل میں ہے۔
حقوق انسانی کی تنظیموں نےالزام لگایا ہے کہ پولیس نےطالبہ، اس کےوالد اورایک خاتون رشتےدار کو گذشتہ پانچ دنوں سے حراست میں رکھا ہوا ہے۔ پولیس ان تک کسی کو رسائی بھی نہیں دے رہی ہے۔ متاثرہ لڑکی کی ماں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کی بیٹی صرف 16 سال کی ہے اورمبینہ حملے کے بعد پولیس اسےتنہا اپنےساتھ لے گئی اور اس وقت تک فیملی کو بھی نہیں بتایا گیا تھا۔
متاثرہ بچی کی ماں نےالزام لگایا ہے کہ ان کی بیٹی پردباؤ ڈال کر ویڈیو میں غلط بیان دلایا گیا ہے۔
حقوق انسانی کی تنظیمیں ایک نیوز کانفرنس کرنے والی تھیں لیکن پولس نے اس نیوز کانفرنس کی اجازت نہیں دی۔ وادی میں موبائل اور انٹرنیٹ سروسز معطل ہیں اور ہر طرح کے جلسے جلوسوں مظاہروں اور احتجاج پر بابندی عائد ہے۔ کئی مقامات پرکرفیو لگا ہوا ہے
ہندوارہ قصبے میں ہونے والے اس واقعے سے پوری کشمیر وادی اس وقت شدید تناؤ میں ہے۔ احتجاجی نوجوانوں کی ہلاکتیں ایک ایسےوقت میں رونما ہوئی ہیں جب ریاستی حکومت مظاہرین کے ساتھ تحمل کے ساتھ پیش آنے پر زور دے رہی ہے
وادی میں پولیس اور فوج یہ ثابت کرنےمیں لگی ہوئی ہیں کہ جنسی حملے کی افواہ بعض شرارتی عناصر نےوادی کے امن کو تباہ کرنے کے لیے جان بوجھ کر پھیلائی تھی۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں۔ بہت ممکن ہے کہ یہ محض افواہ رہی ہو۔ لیکن آخر ایسا کیوں ہے کہ پولیس اور فوج کشمیری احتجاجیوں اور مظاہرین کے سراور سینے پر ہی گولی چلاتی ہے۔ کیا پتھراؤ کرنے والے مظاہرین کے پیر میں گولی نہیں ماری جا سکتی۔ کیا ہر مظاہرے اور احتجاج میں کچھ مظاہرین کو ہلاک کرنا سکیورٹی فورسزکا معمول بن گیا ہے۔
جنسی حملے کا شکار لڑکی پولیس کی تحویل میںکیا وادی میں مزاحمت اور احتجاج کو دبانےکا بس یہی ایک راستہ باقی بچا ہے اور اگر واقعی ایسا ہی ہے تو کیا یہ بھارت کے دستور اور انسانی زندگی کے تحفظ کےحقوق سے متصادم نہیں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ علیحدگی پسندي اور باغیانہ تحریکوں پر قابو پانے کے لیے ریاستیں سکیورٹی فورسز کو خصوصی اختیارات دیتی ہیں، لیکن بھارت میں خصوصی اختیارات کے قانون ایفسپا کےتحت سکیورٹی فورسز کو قانون سے چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ کسی ملک کی سکیورٹی فورسز اپنےکسی آپریشن میں اسی طرح کا برتاؤ کرتی ہیں جس طرح کے رویے کی توقع اس ریاست کا سیاسی حکمراں طبقہ اس سے کرتا ہے۔
کسی جمہوری ملک میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ سکیورٹی فورسز کے اہلکار قتل، جنسی زیادتی اور ٹارچر جیسےسنگین جرائم کا ارتکاب کر یں اور وہ قانون کی گرفت سے باہر ہوں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی کےمقابلے زیادتیوں اور جرائم کے واقعات اب کافی کم ہو چکے ہیں۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہيں کہ ریاست کے امن میں نقص ڈالنے کی بھی بار بار کوششیں ہوتی ہیں۔ لیکن انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے اس دور میں کسی بھی فریق کے لیے حقائق کو چھپا پانا اب بہت مشکل ہے۔ جو ذمےداری بھارت کی ریاست نےسکیورٹی فورسز کو ملک کی سالمیت اور دستور کی بالا دستی کے لیے سونپی ہے وہ ملک کےجمہوری دستور اور قانون کےدائرے میں رہ کر ہی انہیں ادا کرنی ہوگی۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب کشمیری سنگ بازوں اور مظاہرین پر بےدریغ گولیاں چلائی گئی ہیں۔ سنہ 2010 میں تو 100 سے زیادہ نوجوان مارے گئے تھے۔
ایفسپا کی آڑ میں انسانیت، جمہوری اصولوں اور دستور کی خلاف ورزیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ خصوصی اختیارت کے اس قانون کو جتنی جلدی ہٹا لیا جائے اتنا ہی بھارت کی جمہوریت اور فانون کی بالادستی کےلیے بہتر ہے۔ ریاست میں محبوبہ مفتی کی نئی حکومت نے ابھی دس دن پہلے ہی باگ ڈور سنبھالی ہے۔ ایفسپا کو ہٹا کر ریاست کی نئی حکومت ایک مثبت آغاز کرسکتی ہے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک سکول کی طالبہ پر مبینہ جنسی حملے کے واقعے کے خلاف احتجاج میں اب تک پانچ افراد پولیس اور فوج کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔ تازہ ترین ہلاکت ایک اسکول کے طالب علم کی ہے ۔ مرنے والوں میں پانچ میں سے چار نوعمر لڑکے تھے۔
مبینہ جنسی حملے کے بعد سکول طالبہ کو پولیس اسٹیشن لے جایا گیا تھا۔ بعد میں پولیس نے ملک کی عدالت عظمی کے مسلمہ ضابطوں کی خلاف وزی کرتے ہوئے نابالغ متاثرہ لڑکی کی پوری شناخت کےساتھ ایک ویڈیو جاری کی جس میں لڑکی کو یہ بیان دیتے ہوئے دکھایا گیا کہ اس پرکسی فوجی نے حملہ نہیں کیا تھا۔
متاثرہ لڑکی اس واقعے کے بعد سے پولیس کی تحویل میں ہے۔
حقوق انسانی کی تنظیموں نےالزام لگایا ہے کہ پولیس نےطالبہ، اس کےوالد اورایک خاتون رشتےدار کو گذشتہ پانچ دنوں سے حراست میں رکھا ہوا ہے۔ پولیس ان تک کسی کو رسائی بھی نہیں دے رہی ہے۔ متاثرہ لڑکی کی ماں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کی بیٹی صرف 16 سال کی ہے اورمبینہ حملے کے بعد پولیس اسےتنہا اپنےساتھ لے گئی اور اس وقت تک فیملی کو بھی نہیں بتایا گیا تھا۔
متاثرہ بچی کی ماں نےالزام لگایا ہے کہ ان کی بیٹی پردباؤ ڈال کر ویڈیو میں غلط بیان دلایا گیا ہے۔
حقوق انسانی کی تنظیمیں ایک نیوز کانفرنس کرنے والی تھیں لیکن پولس نے اس نیوز کانفرنس کی اجازت نہیں دی۔ وادی میں موبائل اور انٹرنیٹ سروسز معطل ہیں اور ہر طرح کے جلسے جلوسوں مظاہروں اور احتجاج پر بابندی عائد ہے۔ کئی مقامات پرکرفیو لگا ہوا ہے
ہندوارہ قصبے میں ہونے والے اس واقعے سے پوری کشمیر وادی اس وقت شدید تناؤ میں ہے۔ احتجاجی نوجوانوں کی ہلاکتیں ایک ایسےوقت میں رونما ہوئی ہیں جب ریاستی حکومت مظاہرین کے ساتھ تحمل کے ساتھ پیش آنے پر زور دے رہی ہے
وادی میں پولیس اور فوج یہ ثابت کرنےمیں لگی ہوئی ہیں کہ جنسی حملے کی افواہ بعض شرارتی عناصر نےوادی کے امن کو تباہ کرنے کے لیے جان بوجھ کر پھیلائی تھی۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں۔ بہت ممکن ہے کہ یہ محض افواہ رہی ہو۔ لیکن آخر ایسا کیوں ہے کہ پولیس اور فوج کشمیری احتجاجیوں اور مظاہرین کے سراور سینے پر ہی گولی چلاتی ہے۔ کیا پتھراؤ کرنے والے مظاہرین کے پیر میں گولی نہیں ماری جا سکتی۔ کیا ہر مظاہرے اور احتجاج میں کچھ مظاہرین کو ہلاک کرنا سکیورٹی فورسزکا معمول بن گیا ہے۔
جنسی حملے کا شکار لڑکی پولیس کی تحویل میںکیا وادی میں مزاحمت اور احتجاج کو دبانےکا بس یہی ایک راستہ باقی بچا ہے اور اگر واقعی ایسا ہی ہے تو کیا یہ بھارت کے دستور اور انسانی زندگی کے تحفظ کےحقوق سے متصادم نہیں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ علیحدگی پسندي اور باغیانہ تحریکوں پر قابو پانے کے لیے ریاستیں سکیورٹی فورسز کو خصوصی اختیارات دیتی ہیں، لیکن بھارت میں خصوصی اختیارات کے قانون ایفسپا کےتحت سکیورٹی فورسز کو قانون سے چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ کسی ملک کی سکیورٹی فورسز اپنےکسی آپریشن میں اسی طرح کا برتاؤ کرتی ہیں جس طرح کے رویے کی توقع اس ریاست کا سیاسی حکمراں طبقہ اس سے کرتا ہے۔
کسی جمہوری ملک میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ سکیورٹی فورسز کے اہلکار قتل، جنسی زیادتی اور ٹارچر جیسےسنگین جرائم کا ارتکاب کر یں اور وہ قانون کی گرفت سے باہر ہوں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی کےمقابلے زیادتیوں اور جرائم کے واقعات اب کافی کم ہو چکے ہیں۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہيں کہ ریاست کے امن میں نقص ڈالنے کی بھی بار بار کوششیں ہوتی ہیں۔ لیکن انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے اس دور میں کسی بھی فریق کے لیے حقائق کو چھپا پانا اب بہت مشکل ہے۔ جو ذمےداری بھارت کی ریاست نےسکیورٹی فورسز کو ملک کی سالمیت اور دستور کی بالا دستی کے لیے سونپی ہے وہ ملک کےجمہوری دستور اور قانون کےدائرے میں رہ کر ہی انہیں ادا کرنی ہوگی۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب کشمیری سنگ بازوں اور مظاہرین پر بےدریغ گولیاں چلائی گئی ہیں۔ سنہ 2010 میں تو 100 سے زیادہ نوجوان مارے گئے تھے۔
ایفسپا کی آڑ میں انسانیت، جمہوری اصولوں اور دستور کی خلاف ورزیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ خصوصی اختیارت کے اس قانون کو جتنی جلدی ہٹا لیا جائے اتنا ہی بھارت کی جمہوریت اور فانون کی بالادستی کےلیے بہتر ہے۔ ریاست میں محبوبہ مفتی کی نئی حکومت نے ابھی دس دن پہلے ہی باگ ڈور سنبھالی ہے۔ ایفسپا کو ہٹا کر ریاست کی نئی حکومت ایک مثبت آغاز کرسکتی ہے۔