ابابیل
Senator (1k+ posts)
'کشمیریوں کا غصہ دب گیا، ٹھنڈا نہیں ہوا'

کشمیر میں ہندمخالف مزاحمت کا تازہ مرحلہ27 سال مکمل کرچکا ہے۔ اس پورے عرصے میں کبھی بھی پانچ ماہ تک ہڑتال یا تین ماہ تک مسلسل کرفیو نافذ نہیں رہا۔
یہ پہلا موقعہ ہےانسانی حقوق کے نہایت سرگرم کارکن خرم پرویز کو بھی 76 روز تک جیل میں قید کیا گیا اور تاریخی جامع مسجد پانچ ماہ تک مقفل رہی۔ انٹرنیٹ اور فون رابطوں پر بھی قدغن لگائی گئی۔
جمعہ کو پانچ ماہ کی نظربندی کے بعد پہلی مرتبہ میرواعظ عمرفاروق نے جامع مسجد میں جعمہ کے اجتماع سے خطاب کیا۔ خرم پرویز عدالتی حکم پر رہا کئے گئے ہیں۔ فون رابطے اور انٹرنیٹ کی سہولات بھی بحال کی گئی ہیں۔
مظاہرین کے خلاف وسیع پیمانہ کے کریک ڈاون کی وجہ سے اب پتھراؤ یا مظاہروں کے بہت کم واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اور علیحدگی پسندوں کی طرف سے ہڑتال کا جو کیلنڈر جاری کیا جاتا ہے، اس پر صرف معروف بازاروں اور قصبوں میں عمل کیا جاتا ہے۔
حکمراں طبقہ تو اس صورتحال کو علیحدگی پسندی کے نظریہ کی شکست سے تعبیر کررہا ہے۔ لیکن علیحدگی پسندوں کا کہنا ہے کہ مقامی حکمرانوں نے حکومت ہند کی ایما پر کشمیر میں ظلم و جبر کا جو بازار گرم رکھا ہے، اس کا ردعمل ضرور ہوگا۔
جولائی میں مسلح رہنما برہان وانی کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد برپا ہوئی احتجاجی تحریک کو دبانے کے لیے جو وسیع آپریشن ستمبر میں شروع کیا گیا تھا اُسی کے نتیجہ میں مظاہروں، تصادموں اور ہلاکتوں کا سلسلہ تھم گیا ہے۔ لیکن کسی سیاسی رعایت کے بغیر احتجاجی تحریک کے ماند پڑنے سے عوامی حلقوں میں بے چینی اور بے اطمینانی پیدا ہوگئی ہے۔

انٹرنیشنل ریلیشنز کے ماہر الطاف بشیر کہتے ہیں کشمیریوں کا غصہ دب گیا ہے، ٹھنڈا نہیں ہوا۔ حکومت ہند نے ہر بار یہاں علامتی امن کے لئے کام کیا۔ اگر پارلیمنٹ سے لے کر بھارت کی این جی اوز تک سب کہتے ہیں کہ کشمیریوں کی سیاسی خواہشات کو ایڈریس کرنا ضروری ہے تو حکومت کیوں سیاست کے بجائے طاقت کا استعمال کررہی ہے۔
حریت کانفرنس کے رہنما سید علی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق اور یاسین ملک کو عوامی اعتماد اس لیے حاصل ہے کیونکہ وہ غالب سیاسی خواہشات کی بات کرتے ہیں۔ لیکن پانچ ماہ کے دوران تقریباً سو افراد کی ہلاکت، پندرہ ہزار زخمی لوگوں کی ٹھنڈی آہیں اور گرفتار کیے گئے سینکڑوں نوجوانوں کے والدین کی سسکیاں حریت کانفرنس کے لئے ایک سیاسی چیلنج بن کر ابھری ہیں۔
اب تو یہ باتیں بھی ہونے لگی ہیں کہ حریت کانفرنس نے ساری صورتحال کو مس ہینڈل کیا۔ تاہم اکثر حلقوں کا کہنا ہے کہ حریت رہنماوں پر بے مثال قدغنیں عائد تھیں اور انہیں ایک دوسرے سے ملاقات کی بھی اجازت نہیں تھی، ایسے میں کوئی کیا منصوبہ بندی کرسکتا ہے۔ لیکن دلّی کی طرف سے پہلی مرتبہ سخت گیر رویہ نے خود حریت کانفرنس کے اندر بھی کچھ رہنماوں کو بد دل کردیا ہے۔
حریت کانفرنس کے سابق سربراہ اور مسلم کانفرنس کے چیئرمین پروفیسر عبدالغنی بٹ نے ہڑتال کے ذریعے مزاحمت کے طریقے کی مخالفت کی ہے۔ انھوں نے اس تحریک کو لنگڑے گھوڑے پر اندھے سوار سے تعبیر کیا ہے۔
مبصرین پروفیسر غنی کی ناراضگی کو رہنماوں کے ساتھ ان کی ذاتی رنجش کے پس منظر میں دیکھتے ہیں، تاہم انہیں خدشہ ہے کہ کشمیریوں کے اندر احتجاج اور قربانیوں کے ضائع ہونے کا خدشہ کسی نئی تحریک کو بھی جنم دے سکتا ہے۔
جموں کشمیر پولیس کے سربراہ ایس پی وید نے اعتراف کیا ہے کہ کشمیر میں احتجاجی تحریک سے قبل 179مسلح شدت پسند سرگرم تھے، لیکن اب یہ تعداد 300 تک پہنچ چکی ہے۔ خفیہ ادارے اور پولیس پہلے ہی یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ برہان وانی کی ہلاکت نے مسلح مزاحمت کو پھر سے ایک سماجی تقدس بخشا ہے اور سیاسی سطح پر ہر طرح کے مذاکرات کی ناکامی نے تشدد کو آخری چارۂ کار کے طور سامنے لایا ہے۔

ہند نواز سیاسی حلقوں کو شاید آنے والے خطرات کا اندازہ ہوگیا ہے۔ شاید اسی لیے سابق وزیراعلی اور حزب مخالف کے رہنما عمرعبداللہ نے گرفتار کیے گئے نوجوانوں کو رہا کرنے کے لیے حکومت پر دباؤ بڑھانا شروع کیا ہے۔
کالم نویس اعجاز ایوب کہتے ہیں یہ اتفاق ہے یا کچھ اور، اُڑی حملے کے بعد عالمی فوکس ایل او سی پر چلا گیا ہے۔ دنیا کو فکر ہے کہیں بھارت اور پاکستان جنگ نہ کربیٹھیں۔ پانچ ماہ تک یہاں جو قتل و غارت ہوئی اس پر نہ کسی سے کوئی سوال پوچھا جارہا ہے، نہ متاثرین کے لئے کوئی ہمدردی کے دو بول بول رہا ہے۔ یہ صورتحال لوگوں میں تھکاوٹ اور شکست کا احساس تو پیدا کررہی ہے، لیکن نوجوان طبقہ اپنے غصے کو نئے انداز سے ظاہر کرنے پر مجبور بھی ہوسکتا ہے۔ یہ بات بھارت کو سمجھ کیوں نہیں آتی؟
Last edited by a moderator: