کرپٹو کوئین: کہانی اس خاتون کی جس نے کرپٹو کرنسی ’ون کوائن‘ کے ذریعے اربوں لوٹے اور غائب ہو گئی

profiler

MPA (400+ posts)
روجا اگناتووا خود کو کرپٹو کرنسی کی رانی یا ’کرپٹو کوئین‘ کہلوانا پسند کرتی تھیں۔

_109681066_queen_promo-nc.png


وہ لوگوں کو بتاتی تھیں کہ انھوں نے بِٹ کوائن کے مقابلے میں ایک نئی کرپٹو کرنسی ایجاد کر لی ہے اور لوگوں کو چاہیے کہ وہ اربوں ڈالر کا سرمایہ اس کرنسی میں لگا دیں۔ اور پھر دو سال پہلے، روجا اچانک غائب ہو گئیں۔

جیمی بارٹلٹ گذشتہ کئی ماہ سے یہ کھوج لگانے کی کوشش میں رہے ہیں کہ کرپٹو کوئین آخر گئیں کہاں؟
یہ جون 2016 کی بات ہے جب ڈاکٹر روجا اگناتووا اپنے ہزاروں مداحوں کے سامنے لندن کے مشہور سٹیڈیم ’ویمبلی ایرینا‘ کے سٹیج پر نمودار ہوئیں۔ حسب معمول وہ ایک انتہائی مہنگے گاؤن میں ملبوس تھیں، ہیروں سے مزین لمبی لمبی بالیاں کانوں میں اور شوخ سرخ رنگ کی لِپ سٹک لگائے ہوئے۔


_109781589_untitled-35_976.jpg


تالیوں کی گونج میں انھوں نے حاضرین کو بتایا کہ وہ دن دور نہیں جب ’ون کوائن‘ دنیا کی سب سے بڑی کرپٹو کرنسی بن جائے گی اور دنیا میں کسی بھی مقام سے لوگ مالی ادائیگیوں کے لیے اس کرنسی کو استعمال کر سکیں گے۔

ڈاکٹر روجا اپنے ہزاروں مداحوں کے سامنے لندن کے مشہور سٹیڈیم 'ویمبلی ایرینا' میں ون کوائن کے بارے میں بتاتے ہوئے
یاد رہے کہ دنیا کی پہلی کرپٹو کرنسی ’بِٹ کوائن‘ ہے اور آج بھی یہ سب سے بڑی اور مشہور ڈیجیٹل کرنسی ہے۔

بِٹ کوائن کی کامیابی کے بعد کرپٹو کرنسی کے خیال کو مزید تقویت ملی اور دنیا بھر میں بے شمار لوگوں نے دولت بنانے کے اس نئے طریقے میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔
ویمبلی سٹیڈیم کے سٹیج پر کھڑی ڈاکٹر روجا کا کہنا تھا کہ ون کوائن اصل میں ’بِٹ کوائن کا قاتل‘ ثابت ہو گا اور ’دو سال بعد کوئی بِٹ کوائن کا نام بھی نہیں لے گا۔‘


_109965333_mediaitem109965332.jpg


ڈاکٹر روجا کی اس تقریر سے پہلے ہی لوگوں نے ون کوائن میں سرمایہ کاری شروع کر دی تھی اور کئی لوگ اپنی بچت اس میں لگا چکے تھے، اس امید پر کہ وہ بھی اس نئے انقلاب کا حصہ بن جائیں گے۔
بی بی سی کو ملنے والی کچھ خفیہ دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سنہ 2016 کے پہلے چھ ماہ میں صرف برطانیہ میں لوگ ون کوائن میں تقریباً 30 ملین یورو کی سرمایہ کاری کر چکے تھے، جن میں سے


دو ملین یورو صرف ایک ہفتے کے دوران لگائے گئے تھے۔
اگست 2014 سے مارچ 2017 کے درمیانی عرصے میں درجنوں دیگر ممالک میں بھی لوگوں نے چار ارب یورو کے بٹ کوائن خریدے۔ ان ممالک میں پاکستان سے لے کر برازیل، ہانگ کانگ سے لے کر ناروے اور کینیڈا سے لے کر یمن تک کے ممالک شامل تھے، یہاں تک کے فلسطین بھی۔

لیکن ان سرمایہ کاروں کو ایک بڑی اہم بات معلوم نہیں تھی۔
اس بات کی وضاحت کرنے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ کرپٹو کرنسی کام کیسے کرتی ہے۔

کرپٹو کرنسی کیا ہوتی ہے؟

اس چیز کو سمجھنا خاصا مشکل ہے۔ آپ انٹرنیٹ پر جائیں تو آپ کو کرپٹو کرنسی کے بارے میں سینکڑوں مختلف آرا نظر آئیں گی جن میں کچھ کو پڑھ کر آپ حیران رہ جاتے ہیں اور کچھ ایسی ہیں جو صاف دکھائی دیتا ہے کہ کسی ماہر کی لکھی ہوئی نہیں ہیں۔
ر
ائے میں اختلاف اپنی جگہ، لیکن ایک بات آپ کو فوراً سمجھ آ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی بھی کرنسی کی قیمت یا قدر اتنی ہی ہوتی ہے جتنی لوگ سمجھتے ہیں۔ چاہے یہ بینک آف انگلینڈ کے جاری کردہ کرنسی نوٹ اور سِکّے ہوں، قیمتی پتھر ہوں یا اس قسم کی کوئی اور چیز۔ کوئی بھی کرنسی اسی وقت کام کرتی ہے جب ہر کوئی اسے تسلیم کرتا ہے۔

کافی عرصے سے لوگ اس کوشش میں رہے ہیں کہ وہ کوئی ایسی ڈیجیٹل کرنسی بنائیں جو ملکی سرحدوں کی محتاج نہ ہو اور اس کا انحصار کسی خاص ملک کی کرنسی پر نہ ہو۔

لیکن ان لوگوں کو ہمیشہ ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا کیونکہ کوئی بھی ان پر یقین نہیں کرتا تھا۔ لوگوں کو ہمیشہ اس بات کی ضرورت رہتی تھی کہ کوئی ایسا ادارہ یا شخص ہونا چاہیے جو اس کرنسی کی سپلائی کو اوپر نیچے کر سکے اور دوسرا یہ کہ ڈجیٹل کرنسی کی نقل بنانا بھی بہت آسان ہوتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ بِٹ کوائن کے آنے پر بہت سے لوگ خوش ہوئے اور انھیں یقین ہونے لگا کہ اس میں کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہیں کرنے پڑے گا۔

بِٹ کوائن کا انحصار ایک خاص قسم کے ڈیٹا بیس پر ہے جسے بلاک چین کہا جاتا ہے۔ بلاک چین ایک قسم کی بہت بڑی کتاب ہے اور اگر آپ بِٹ کوائن خریدتے ہیں تو اس کتاب کا ایک نسخہ یا کاپی آپ کو بھی مل جاتی ہے۔ مثلاً میری طرف سے جب بھی ایک بِٹ کوائن کسی دوسرے شخص کو بھیجا جاتا ہے، یہ چیز اس کتاب میں نوٹ ہو جاتی ہے جس کی ایک کاپی بِٹ کوائن کے تمام صارفین کے پاس موجود ہوتی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ تو کوئی حکومت، کوئی بینک اور نہ ہی وہ شخص جو اس بِٹ کوائن کو ایجاد کرتا ہے، اس سکے کو تبدیل کر سکتا۔ اس ساری چیز کے پیچھے ریاضی کے اصول کارفرما ہیں، لیکن نہ تو بِٹ کوائن کی نقل بنائی جا سکتی ہے، نہ ہی بِٹ کوائن کی کتاب کو ہیک کیا جا سکتا ہے اور کسی بِٹ کوائن کو دو مرتبہ خرچ بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔

میں نے یہ ساری بات اپنے خاندان میں اس فرد کو بھی سمجھائی جو ٹیکنالوجی سے خوفزدہ ہو جاتا ہے، یعنی میری والدہ۔ ان کا جواب تھا کہ بیٹا کچھ سمجھ نہیں آئی، پھر سے بتاؤ۔

اس لیے اگر آپ کو بھی سمجھ نہیں آئی تو فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔ اس ساری بات میں اصل نکتہ یہ ہے کہ بلیک چین ڈیٹا بیس ہی دراصل وہ چیز ہے جس کی بنیاد پر بِٹ کوائن جیسی کوئی بھی ڈجیٹل کرنسی چلتی ہے۔ ڈجیٹل کرنسی کے چاہنے والوں کے لیے یہ کرنسی کی جدید ترین انقلابی قسم ہے، جس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ یہ بینکوں اور ملکی کرنسیوں کو کنارے لگا دے اور موبائل فون رکھنے والے ہر شخص کو آن لائن بینکنگ کی سہولت فراہم کر دے۔

اور اگر آپ کسی ڈجیٹل کرنسی کے شروع شروع کے خریداروں میں شامل ہو جاتے ہیں تو آپ کی قسمت بدل سکتی ہے۔
ڈاکٹر روجا کا کمال یہ ہے کہ انھیں یہ تمام بات سمجھ آ گئی اور انھوں نے اس خیال کو دھڑا دھڑ لوگوں میں فروخت کرنا شروع کر دیا۔
لیکن اس میں کچھ گڑ بڑ ضرور تھی۔

ڈاکٹر روجا کی لندن والی بڑی تقریب کے چار ماہ بعد اکتوبر 2016 کے اوائل میں ملازمتیں دلوانے والی ایک کمپنی نے بلاک چین کے ماہر یورن پیئرک کو بلایا اور انھیں ایک بڑی دلچسپ ملازمت کی پیشکش کی۔
انھیں بتایا گیا کہ بلغاریہ میں کرپٹو کرنسی کی ایک نئی کمپنی کو چیف ٹیکنیکل آفیسر درکار ہے اور اس کے لیے دو لاکھ 50 ہزار پاؤنڈ سالانہ کی پرکشش تنخواہ کے علاوہ گھر اور گاڑی بھی دی جائے گی۔
اس دن کو یاد کرتے ہوئے یورن پیئرک کہتے ہیں کہ ’میں سوچ رہا تھا کہ کمپنی میں میرا کام کیا ہو گا؟

میں نے سوچا کمپنی کو سب سے پہلے بلاک چین چاہیے ہو گا کیونکہ ان کے پاس بلاک چین نہیں ہے۔
میں نے ریکروٹِنگ ایجنٹ سے کہا ’آیا یہ واقعی ایک کرپٹوکرنسی کی کمپنی ہے؟‘

اینجٹ کا جواب تھا کہ میری بات درست ہے۔ یہ ایک کرپٹو کمپنی تھی جو کچھ عرصے سے کام بھی کر رہی تھی، لیکن ان کے پاس بلاک چین نہیں تھا۔ اسی لیے ’ہم چاہتے ہیں کہ آپ کمپنی کو بلاک چین بنا کر دیں۔‘

پیئرک نے پوچھا کہ کمپنی کا نام کیا ہے؟
ایجنٹ کا جواب تھا ’ون کوائن۔‘
یورن پیئرک نے یہ ملازمت نہیں لی۔

جین میک ایڈم کا ’ٹائیکون‘ پیکج
اس واقعے کے چند ماہ پہلے جین میک ایڈم نامی خاتون کو ان کی ایک دوست کا فون آیا تھا جس میں دوست نے جین کو ایک ایسی چیز میں سرمایہ کاری کا بتایا جس میں لاکھوں پاؤنڈ بنائے جا سکتے تھے۔ چانچہ گلاسگو میں اپنے گھر میں بیٹھی ہوئی جین نے کمپیوٹر کھولا اور ’ون کوائن‘ کے لنک پر کِلک کر دیا۔

وہ اگلا ڈیڑھ گھنٹہ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھی مختلف لوگوں کو یہ کہتے سنتی رہیں کہ ون کوائن کتنی زبردست کرنسی ہے اور یہ کس طرح آپ کی قسمت بدل سکتی ہے۔ جین کے بقول ان کی ویب سائٹ پر نطر آنے والے تمام لوگ ’بہت پرجوش اور جذبات سے بھرپور‘ باتیں کر رہے تھے۔

وہ کہہ رہے تھے آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ ’آپ کتنی خوش قسمت ہیں کہ آپ کو یہ آن لائن سیمینار سننے کا موقع ملا ہے۔ آپ ہمیں صحیح وقت پر جوائن کر رہی ہیں اور جلد ہی یہ کرنسی بھی بِٹ کوائن جیسی بڑی کرنسی بن جائے گی۔ بلکہ بِٹ کوائن سے بھی بڑی ڈجیٹل کرنسی۔‘
اس سیمینار میں میزبانی کے فرائض سرانجام دینے والے افراد ڈاکٹر روجا کے شاندار پس منظر کے گُن گا رہے تھے: آکسفرڈ یونیورسٹی، پھر پی ایچ ڈی، اس کے بعد مشہور مینیجمنٹ کمپنی ’میکنزی اینڈ کمپنی‘ کے ساتھ ملازمت، وغیرہ وغیرہ۔

پھر اس کے بعد ویب سائٹ پر مشہور جریدے ’دی اکانومسٹ‘ کی میزبانی میں ہونے والی ایک کانفرنس میں ڈاکٹر روجا کی تقریر دکھائی گئی۔ یہی وہ چیز تھی جس نے جین کو ون کوائن کا قائل کر دیا۔ جین کے بقول انھوں نے سوچا ’واہ کیا بات ہے خواتین کی طاقت کی۔ (ایک خاتون ہونے کے ناطے) مجھے روجا پر فخر محسوں ہوا۔‘
Image captionویب سائٹ پر مشہور جریدے 'دی اکانومسٹ' کی میزبانی میں ہونے والی ایک کانفرنس میں ڈاکٹر روجا کی تقریر دکھائی گئی۔ یہی وہ چیز تھی جس نے جین کو ون کوائن کا قائل کر دیا

جب تک وہ ویبینارختم ہوا، جین نے ون کوائن میں ایک ہزار یورو لگانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ یہ کام آسان تھا۔
آپ نے ہزار یورو کے ون کوائن کے ٹوکن خریدے، ان ٹوکنوں سے جو کوائن حاصل ہوئے وہ آپ کے اکاؤنٹ میں جمع ہو گئے۔ جین کو بتایا گیا کہ ایک دن وہ ان کوائنز کو واپس یورو یا پاؤنڈز میں تبدیل کر سکیں گی۔ جین کو یہ عمل آسان لگا۔ انھوں نے سوچا کہ آیا سرمایہ کاری کے لیے ایک ہزار یورو کی رقم کافی ہو گی یا نہیں؟

اس پر ون کوائن کے پروموٹرز نے کہا کہ اگر آپ واقعی اپنی زندگی بدلنا چاہتی ہیں تو پھر آپ کو ون کوائن کا کوئی بڑا پیکج لینا چاہیے۔ سب سے چھوٹا پیکج 140 یورو کا تھا اور سب سے بڑا ایک لاکھ 18 ہزار یورو کا۔ ایک ہفتے بعد جین نے ’ٹائیکون‘ پیکچ خرید لیا جس کی قیمت پانچ ہزار یورو تھی۔

کچھ ہی عرصے میں جین اپنے دس ہزار یورو ون کوائن میں لگا چکی تھیں اور اپنے دوستوں اور عزیزوں کو بھی قائل کر چکی تھیں کہ وہ اپنے دو لاکھ 50 ہزار یورو بھی لگا دیں۔
اس سرمایہ کاری کے بعد جوں جوں ان کے ون کوائن کی قدر بڑھ رہی تھی وہ ویب سائٹ پر دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہی تھیں۔ کچھ ہی عرصے میں یہ مالیت ایک لاکھ یورو ہو گئی، یعنی ان کے سرمائے میں دس گنا اضافہ ہو چکا تھا۔ انھوں نے سیر سپاٹے اور شاپنگ کے منصوبے بنانا شروع کر دیے۔

لیکن سنہ 2016 کے آخری دنوں میں ایک اجنبی شخص نے انٹرنیٹ پر جین سے رابطہ کیا۔ اس شخص کا دعویٰ تھا کہ وہ ایک اچھا، ہمدرد انسان ہے اور اس نے ون کوائن کے بارے میں خاصی تحقیق کر رکھی ہے۔
اس کے بقول اس کا مقصد صرف ان لوگوں سے رابطہ کرنا ہے جنھوں نے ون کوائن میں سرمایہ کاری کی۔ جین کو اس شخص سے بات کرنے میں ہچکچاہٹ ہوئی لیکن پھر انھوں نے سکائپ کے ذریعے اس سے بات کی۔ ان کی یہ گفگتو جلد ہی دھواں دھار بحث میں تبدیل ہو گئی کیونکہ اس شخص کا اصرار تھا کہ جین ایک بہت بڑے دھوکے کا شکار ہو چکی ہیں۔ اگرچہ جین نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا، لیکن اس گفتگو نے جین کی زندگی کو ایک نیا رخ دے دیا۔

وہ اجنبی شخص ٹموتھی کری تھے جو بِٹ کوائن کے زبردست حامی تھے اور کرپٹو کرنسی کی زور و شور سے وکالت کرتے تھے۔ ٹموتھی کا خیال تھا کہ ون کوائن ڈیجیٹل کرنسی کے خیال کے لیے بدنامی کا باعت بنے گا اور انھوں نے جین کو صاف صاف بتا دیا کہ ون کوائن’ دنیا کا سب سے بڑا فراڈ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ بات ثابت کر سکتے ہیں۔ اس پر جین نے کہا کہ ثابت کر کے دکھائیں۔

اگلے کئی ہفتوں کے دوران ٹموتھی نے جین کو بے شمار معلومات بھیجیں جن میں بتایا گیا تھا کہ کرپٹو کرنسی کام کیسے کرتی ہے۔ کئی مضامین، انٹرنیٹ لِنکس اور یو ٹیوب ویڈیوز کے علاوہ ٹموتھی نے جین کو انٹرنیٹ کے ذریعے ایسے شخص سے متارف کرایا جو خود بلاک چین بنانے کے ماہر ہیں اور یہ بات کہہ چکے تھے کہ ون کوائن کے پاس کوئی بلاک چین موجود نہیں تھا۔

ان تمام معلومات کو سمجھنے میں جین کو تین ماہ لگ گئے، لیکن ان کا فائدہ یہ ہوا کہ جین کے ذہن میں سوال اٹھنا شروع ہو گئے۔ انھوں نے اپنے ون کوائن گروپ میں شامل لوگوں سے پوچھنا شروع کر دیا کہ آیا ون کوائن کے پاس بلاک چین ہے یا نہیں۔ پہلے پہل تو جین کو یہ کہا گیا کہ انھیں یہ بات جاننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، لیکن جب انھوں نے اصرار کیا تو اپریل 2017 میں آخر کار انہیں سچ معلوم ہو گیا۔
ان کے نام کسی نے جو پیغام ریکارڈ کرایا تھا اس میں کہا گیا کہ ’جین ۔ ۔ ون کوائن والے اس قسم کی معلومات کو منظر عام پر نہیں لانا چاہتے جس کی وجہ یہ ہے کہ اس مقام پر کوئی گڑ بڑ نہ ہو جائے جہاں یہ بلاک چین رکھا ہوا ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ ون کوائن کی ایپ کے لیے بلاک چین کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یوں ہماری بلاک چین ٹیکنالوجی دراصل ایک ایس کیو ایل سرور کی شکل میں ہے جس کے اندر ڈیٹا بیس موجود ہے۔‘

لیکن اس وقت تک جین کو، ٹموتھی کری اور پیئرک کی مہربانی سے، یہ بات معلوم ہو چکی تھی کہ اکیلے ایس کیو ایل ڈیٹا بیس سے کوئی بھی کرپٹو کرنسی نہیں چل سکتی۔ بلاک چین کے برعکس مینیجر جب چاہے اس قسم کے ڈیٹا بیس میں تبدیلی کر سکتا ہے۔
’میں نے سوچا، کیا؟؟؟؟؟؟
’میری ٹانگیں سُن ہو گئیں اور میں دھڑام سے فرش پر گر گئی۔‘
اس کا مطلب یہ تھا کہ جین کو اب سمجھ آ گئی تھی کہ ان کے ون کوائن کی قدر میں جو اضافہ ہو رہا تھا وہ باکل بے معنی تھا۔ ون کوائن کا کوئی اہلکار کہیں بیٹھا ہوا محض ہندسے بدل رہا تھا۔ لیکن اس وقت تک جین، ان کے گھر والے اور دوست اپنے تقریباً ڈھائی لاکھ پاؤنڈ ون کوائن میں جھونک چکے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ شاید ان کی مالی مشکلات ختم ہو جائیں گی لیکن اب تو ان کی جمع پونجی غرق ہوتی نظر آ رہی تھی۔

ڈاکٹر روجا منظر سے غائب

کے مابین روابط تھے اور جب ڈاکٹر روجا منظر عام سے غائب ہوئیں تو انھوں نے ون کوائن کے معاملات کو دیکھنا شروع کیا۔ کونسٹینٹن اگناتوو کے شمالی یورپ کے منظم جرائم پیشہ گروہوں کے ساتھ بھی روابط تھے۔

چھ مارچ 2019 کو جب ڈاکٹر روجا کے بھائی کونسٹینٹن اگناتوو لاس اینجلس کے ایئرپورٹ پر تھے جہاں سے وہ بلغاریہ واپس آنے کے لیے فلائٹ کا انتظار کر رہے تھے تو ایف بی آئی نے انھیں گرفتار کر لیا اور ان پر ون کوائن کے حوالے سے فراڈ کا مقدمہ دائر کیا۔

تقریباً اسی وقت امریکی محکمہ انصاف نے ڈاکٹر روجا کی غیر موجودگی میں ان کے خلاف منی لانڈرنگ، فراڈ کے الزامات کے تحت مقدمہ بھی درج کر لیا، لیکن اس سب کے باوجود ون کوائن کا کام چلتا رہا اور لوگ اس میں پیسہ لگاتے رہے۔

جب ہم نے ڈاکٹر روجا کے خلاف مقدمہ درج ہونے کے ایک ماہ بعد صوفیہ کا دورہ کیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ ڈاکٹر روجا کے محل نما مکان کو تالے لگے ہوئے ہیں لیکن صوفیہ میں ون کوائن کا دفتر کھلا تھا اور وہاں کام جاری تھا۔

فراڈ کی واضح نشانیوں کے باوجود اتنے زیادہ لوگ ون کوائن پر اعتبار کیوں کرتے رہے؟

ون کوائن کے سرمایہ کاروں نے ہمیں بتایا کہ ابتدا میں ان کو یہ ڈر تھا کہ وہ ایک بڑے منافع سے محروم ہو جائیں گے۔ انھیں بتایا جاتا تھا کہ ون کوائن بٹ کوائن کے بعد سب سے بڑی چیز ہے اور جب سرمایہ کار بٹ کوائن سے منسلک لوگوں کی تقدیر بدلنے کی کہانیں سننتے تھے تو انھیں ڈر لگتا تھا کہ وہ کہیں ون کوائن کےذریعے امیر ہونے کا موقع ہی ضائع نہ کر دیں۔

کچھ لوگ ڈاکٹر روجا کی شخصیت کی وجہ سے ون کوائن سے جڑے رہے۔ ان سرمایہ کاروں کو کرپٹو کرنسی کی ٹیکنالوجی کا کچھ معلوم نہیں ہو گا لیکن وہ ڈاکٹر روجا کو اکانومسٹ کانفرنس میں تقریریں کرتے دیکھا تھا۔

ان کو ڈاکٹر روجا کی اعلی تعلیم یافتہ ہونے کی یقین دہانی کے لیے ان کی ڈگریاں دکھائی گئیں اور فوربز میگزین میں چھپنے والی تصاویر کو بطور شہادت پیش کیا کہ وہ ایسی کامیاب کاروباری شخصیت ہیں جن کے ساتھ جڑے رہنے سے ان کی قسمت بھی بدل سکتی ہے۔

جہاں تک ڈاکٹر روجا کی ڈگریوں کا تعلق ہے وہ تو اصلی ہیں لیکن فوربز کے سرورق پر چھپنی والی تصویر اصلی نہیں تھی۔ حقیقت میں ان کی تصویر فوربز کے اندر والے صحفے پر شائع ہوئی تھی لیکن اسے اس انداز میں شائع کیا گیا کہ فرنٹ کور کو ہٹا دیں تو وہ تصویر حقیقت میں سرورق نظر آتی ہے۔

ون کوائن کے ساتھ جڑے رہنے کی وجہ صرف امیر ہونے کے خواب ہی نہیں تھے۔
جب جین میک ایڈم نے ون کوائن میں سرمایہ کاری شروع کی تو انھیں ہمیشہ یہ بتایا گیا کہ اب وہ ون کوائن فیملی کی رکن ہیں اور انھیں ون کوائن کے بارے میں منفی باتیں پھیلانے والوں کی باتوں پر دھیان دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
انھیں وٹس ایپ گروپ کا ممبر بنایا گیا جہاں انھیں اپنی لیڈر کی طرف سے معلومات ملتی تھیں جو وہ بلغاریہ کے دفتر میں بیٹھ کر اپنے 'خاندان' میں پھیلاتی تھی۔

جین میک ایڈم کہتی ہیں کہ انھیں بتایا جاتا تھا کہ بٹ کوائنر والے دراصل ون کوائن سے نفرت کرتے ہیں۔ ان کی باتیں نہ سنیں، نہ ہی گوگل کی باتیں سنیں۔ وہ کہتی تھیں کہ اگر آپ کے ذہن میں ون کوائن کے بارے شکوک و شبہات ہیں تو پھر آپ کو ون کوائن فیملی کا ممبر ہونے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔

لندن سکول آف اکنامکس کے پروفیسر ایلین بارکر، جنھوں نے سائنٹالوجسٹ اور مونیز جیسے گروہوں کو سمجھنے میں برسوں صرف کیے ہیں، کہتے ہیں کہ ون کوائن بھی ایک مسلک یا مذہبی گروہ کی ماند تھا جس میں شامل لوگوں کو یہ باور کرایا جاتا تھا کہ وہ کسی بڑی تبدیلی کی مہم کا حصہ ہیں جو دنیا کو بدلنے جا رہی ہے۔
اور جب لوگ ون کوائن کے گروپ میں شامل ہو جاتے تو کسی قسم کی

شہادتیں بھی انھیں اس سے علیحدہ کرنے کے لیے ناکافی تھیں۔
پروفیسر ایلین بارکر کہتی ہیں کہ ایسے گروہ میں جب پیشنگوئی غلط بھی ثابت ہو جائے تو اس کو ماننے والوں کا اس پر یقین اور پختہ ہو جاتا ہے اور خاص طور پر جب آپ نے اس میں پیسے کے علاوہ اپنی شہرت، ذہانت بھی صرف کی ہو تو آپ سوچتے ہیں کہ تھوڑا سا اور انتظار کر لینا چاہیے۔

ایک مثالی دنیا میں یہ امید کی جاتی ہے کہ حکومتی ادارے یا ریگولیٹرز صارفین کو ون کوائن جیسی دھوکہ دہی سے محفوظ رکھیں گے لیکن پوری دنیا میں حکام بہت سست روی سے اس کی طرف آتے ہیں اور خاص طور پر کرپٹو کرنسی کی طرف جو ایک بہت نئی چیز ہے۔

برطانیہ کی فنانشل کنڈکٹ اتھارٹی (ایف سی اے) کی ذمہ داری ہے کہ وہ برطانیہ کے صارفین کو ایسے فراڈ سے خبردار کرے۔ ایف سی اے نے سنہ 2016 میں ون کوائن کے بارے میں اپنی ویب سائٹ پر ایک انتباہ جاری کیا تھا کہ ون کوائن میں سرمایہ کاری سے ہوشیار رہیں۔ لیکن اس انتباہ کو ایک سال بعد اسے وہاں سے ہٹا لیا گیا۔
ایف سی اے کی طرف سے ون کوائن کے بارے میں اپنی وارننگ کو واپس لینے کو ون کوائن کے حامیوں نے اس کے درست اور قانونی ہونے کی شہادت کے طور پر پیش کیا۔

جب ایف سی اے نے اپنی وارننگ کو ویب سائٹ سے ہٹا لیا تو برطانیہ میں ون کوائن کی کئی تقریبات کا انعقاد ہوا، لوگ اس میں سرمایہ کاری کرتے رہے اور جب بی بی سی نے ایف سی اے سے اس کے بارے میں پوچھا تو وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا۔

یہ حقیقت کہ ون کوائن ایک عالمی آپریشن تھا، یہ بھی حکام کے لیے پریشانی کا سبب تھا۔ لندن کی پولیس نے دو سال تک ون کوائن کے بارے میں تحقیق کرنے کے بعد وہ تحقیقات ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
لندن پولیس نے اپنے بیان میں کہا کہ چونکہ ون کوائن سے متعلق کمپنیاں اور افراد برطانیہ کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں اس لیے ہم برطانیہ میں ان کے کسی اثاثے کی نشاندہی نہیں کر سکتے جس سے متاثرین کے نقصان کو پورا کیا جا سکے۔

سٹی آف لندن پولیس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کسی فرد یا افراد کے خلاف مجرمانہ کارروائی میں ملوث ہونے پر قانونی کارروائی شروع کرنے کے لیے شواہد ناکافی تھے۔‘

پولیس نے مزید کہا کہ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ انھیں ون کوائن کے بارے میں کوئی تحفظات نہیں ہیں۔ ’لندن سٹی پولیس قانون نافذ کرنے والی تمام غیر ملکی ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کرتی رہی ہے اور کرتی رہے گی اور اگر کسی شخص کو کوئی شکایت ہے تو وہ ایکشن فراڈ آن لائن کے ساتھ رابطہ کرے۔‘

https://twitter.com/x/status/1197160014722600960
یوگنڈا کا المیہ

یوگنڈا کے علاقے نتانگامو ریجن میں زیادہ لوگوں کی آمدن کا ذریعہ کیلے، کساوا، میٹھے آلو، مٹر اور مونگ پھلی کی پیداوار ہے۔
22 سالہ ڈینیئل لائنڈ ہارٹ اسی علاقے کے رہائشی تھے۔ وہ ون کوائن خریدنے کے لیے سات لاکھ شلنگ اکٹھی کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
انھوں نے چار لاکھ شلنگ تو خود اکٹھے کر لیے تھے مگر ون کوائن میں پہلی سرمایہ کاری کے لیے مزید تین لاکھ شلینگ چاہیے تھے۔ وہ اپنے گاؤں گئے اور اپنے بھائی کو اپنا کل اثاثہ، تین بھیڑیں، فروخت کرنے پر رضامند کر لیا۔

اب وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔
ڈینیئل یوگنڈا کے ہزاروں لوگوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے ڈاکٹر روجا کی جعلی کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کی۔
جب یورپ میں لوگوں کی ون کوائن میں دلچسپی کم ہو گئی تو افریقہ، مشرق وسطیٰ اور انڈیا ون کوائن کے لیے بہت اہم ہو گئے اور وہاں سے سرمایہ کاری ہونے لگی۔

ڈینیئل نے مجھے اور جارجیا کو پروڈنس نامی نرس سے ملاقات کرائی جنھوں نے سب سے پہلے ڈینیئل کو ون کوائن سے متعارف کروایا تھا۔ ڈینیئل اور پروڈنس کی دوستی اب بھی برقرار ہے، حالانکہ ان کو معلوم ہو چکا ہے کہ ون کوائن ایک فراڈ تھا۔

پروڈنس کپمالہ میں ایک نرس ہیں۔ انھوں نے سوچا کہ وہ ون کوائن فروخت کر کے دولت کما سکتی ہیں اور انھوں نے مزید لوگوں کو ون کوائن خریدنے پر قائل کرنا شروع کر دیا۔

ون کوائن کے ایک پروموٹر نے پروڈنس کو ایک اچھی سے کار خرید کر دی تا کہ وہ لوگوں کو متاثر کر سکیں۔ ان کو ہدایت کی جاتی تھی کہ وہ اپنی کار میں ایسے وقت لوگوں کے پاس جائیں جب وہ فصلیں کاشت کر رہے ہوں اور ان کے پاس پیسے ہوں۔
پروڈنس کہتی ہیں کہ دیہات میں لوگ شہروں میں بسنے والے لوگوں پر اعتبار کرتے ہیں۔

کئی لوگوں نے ون کوائن کا پیکج خریدنے کے لیے اپنے مال مویشی بیچے، اپنی زمین بیچی اور کچھ نے اپنے گھر بھی بیچ دیے۔ اب ان لوگوں میں سے کئی کے بچے سکول نہیں جا پا رہے ہیں جبکہ کچھ کے پاس رہنے کے لیے کوئی جگہ بھی نہیں بچی۔

جب پروڈنس سے لوگ پوچھتے ہیں کہ ہمیں منافع کب ملے گا تو وہ لوگوں کو صبر کی تلقین کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں لوگوں کو سچ نہیں بتا سکتی اور میں تو اب چھپ کے رہتی ہوں۔
’جن لوگوں نے میرے کہنے پر ون کوائن میں سرمایہ کاری کی، اگر میں ان کے سامنے آ گئی تو وہ مجھے قتل بھی کر سکتے ہیں۔‘
پروڈنس نے اب لوگوں کو ون کوائن بیچنا ختم کر دیا ہے لیکن کمپالا میں اب بھی کچھ لوگ ون کوائن فروخت کر رہے ہیں۔ کمپالا کا ایک چرچ بھی ون کوائن کو بیچنے میں مصروف ہے۔

بشپ فریڈ کی ایسی ویڈیو موجود ہیں جن میں وہ دوران عبادت ون کوائن کی مشہوری کرتے نظر آتے ہیں۔ بشب فریڈ یوگنڈا میں ون کوائن کے سب سے بڑے پروموٹر ہیں لیکن اب انھوں نے کم از کم چرچ میں اس کی تشہیر کرنا ختم کر دی ہے۔


_109781635_konstantin976.jpg


ڈینیئل اور ان کی والدہ

ڈینیئل ہمیں اپنی والدہ سے ملوانے لے گئے جنھوں نے اپنے بیٹے کے کہنے پر ساری زندگی کی جمع پونجی، یعنی تین ہزار ڈالر ون کوائن پیکج پر خرچ کر دیے تھے۔
ڈینیئل نے اپنی ماں کو نہیں بتایا ہے کہ ان کی رقم ڈوب چکی ہے۔ جب ڈیینئل کی والدہ نے ہمیں دیکھا تو کہنے لگیں انھیں ایسا لگا کہ شاید ان کی دولت واپس آنے لگی ہے۔ انھوں نے ہمیں کہا 'جب پیسے آپ کے ہوں اور کوئی لے جائے تو بہت دکھ ہوتا ہے۔‘

تم غائب کہاں ہو، ڈاکٹر روجا؟

جب ہم نے 2018 میں مسنگ کرپٹو کوئین کے پوڈکاسٹ پر کام کرنا شروع کیا تو کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ ڈاکٹر روجا کہاں ہیں۔ رواں سال کے شروع میں امریکی حکام نے انکشاف کیا کہ ڈاکٹر روجا کو 25 اکتوبر 2017 کو ایتھنز میں دیکھا گیا ہے۔ اس کے باوجود اس سوال کا جواب نہیں ملا کہ وہ ایتھنز کے بعد کہاں گئیں۔

ملٹی لیول مارکیٹنگ کے بادشاہ اگور البرٹس نے ہمیں بتایا کہ انھوں نے سنا ہے کہ ڈاکٹر روجا کے پاس یوکرین اور روس کا پاسپورٹ بھی ہے اور وہ روس اور دبئی کے درمیان سفر کرتی رہتی ہیں۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ شاید وہ بلغاریہ کے بااثر لوگوں کی حفاظت میں ہیں۔ جبکہ کچھ لوگوں کے خیال میں وہ پلاسٹک سرجری کروا کے باآسانی خود کو چھپا سکتی ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ شاید ڈاکٹر روجا کی موت ہو چکی ہے۔

جب ہم نے ایک تجربہ کار پرائیویٹ تفتیش کار ایلن میکلین سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ کسی شخص کو تلاش کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ یہ جانیں کہ وہ شخص کہاں پیدا ہوا، کہاں پلا بڑھا،اور امیر ہونے سے پہلے اس کا طرز زندگی کیا تھا۔


_109781802_shutterstock_editorial_5622.jpg


پھر یہ جاننے کی کوشش کریں کہ دولت مند ہونے کے بعد وہ کہاں جانا پسند کرتا تھا، پرتعیش کشتیاں کہاں سے خریدتا تھا۔ پرائیویٹ تفتیش کار سے ملاقات کے چند ہفتوں بعد انھوں ایک بار پھر ہم سے رابطہ کیا اور کچھ انتہائی دلچسپ معلومات کا تبادلہ کیا۔
ایلن میکلین کے کچھ دوستوں کو ایتھنز سے تصدیق ہوئی کہ ڈاکٹر روجا کو ایتھنز کے ریسٹورنٹ میں ڈنر کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
جب ہم نے ایتھنز کے ریسٹورانٹ کے سٹاف سے ڈاکٹر روجا کی وہاں آمد کے بارے میں بات کی تو انھوں نے تصدیق کی کہ انھوں نے اس خاتون کو دیکھا ہے۔

ایک اور اشارہ اس وقت ملا جب ہم نے بخارسٹ میں ون کوائن کے مقابلہ حسن میں شرکت کی۔ وہ لوگ مہنگی شراب پی رہے تھے اور ہمیں اس انداز میں گھور رہے تھے جس سے ہم پریشانی لاحق ہو گئی۔
ہم نے یہ سب کچھ برداشت کیا اور مقابلہ حسن کے برطانوی شرکا کی حمایت کی۔ لیکن ہم نے بعد میں سنا کہ ڈاکٹر روجا تو اسی مقابلے کی تقریب میں موجود تھیں اور اسی کمرے میں تھیں جہاں ہم تھے۔ بس فرق یہ ہے کہ پلاسٹک سرجری کے بعد انھیں پہچاننا بہت مشکل ہو چکا ہے۔

ڈاکٹر روجا کو یونان یا رومانیہ سے امریکہ کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ صحیح ہے کہ وہ ان ممالک میں موجود تھیں تو شاید انھوں نے جعلی شناخت بھی حاصل کر لی ہو۔

ہم نے ایلین میکلین کے بتائے ہوئے گُر کے مطابق ڈاکٹر روجا کو وہاں ڈھونڈنے کا فیصلہ جہاں انھوں نے ماضی میں وقت گزارا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ انھوں نے جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں کافی وقت گزارا ہے اور ان کی شادی بھی جرمنی میں ایک وکیل سے ہوئی تھی۔
ہم ڈاکٹر روجا کی تصاویر اور مائیکرو فون لے کر فرینکفرٹ گئے اور لوگوں سے ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ہم نے ایک وکیل سے بھی فون پر بات کی جو شاید ان کا شوہر ہے یا تھا لیکن وہ ہم سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔

کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم ڈاکٹر روجا کے قریب پہنچ گئے ہیں یا وہ یورپ کے دل یا اس کے مرکز میں کہیں مقیم ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم۔
فرینکفرٹ شاید ان شہروں میں سے ایک ہے جہاں وہ جاتی ہیں۔
ہمیں کچھ روز بعد ایک فون کال موصول ہوئی۔ ہم اس کالر کی شناخت ظاہر نہیں کر سکتے ۔ اس نے ہمیں بتایا ہے کہ فرینکفرٹ یقیناً ان مقامات میں سے ایک ہے جہاں ڈاکٹر روجا بہت وقت گزارتی ہیں۔ لیکن ہمیں ابھی وہ گھر ڈھونڈنا ہے جہاں وہ رہتی ہیں۔ ہمارے ذرائع نے کہا 'تم اسے ڈھونڈ لو گے، مزید کوشش کرو۔'
کرپٹو کوئین کو معلوم ہو گا کہ ہم اسے ڈھونڈتے پھر رہے ہیں اور وہ ہم پر ہنستی ہوں گی۔


جب پانچ نومبر 2019 کو ہمارے پوڈ کاسٹ کی پہلی قسط نشر ہوئی، اسی روز ڈاکٹر روجا کے بھائی کونسٹینٹن کو امریکہ کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا جہاں انھوں نے ایک وکیل کے خلاف گواہی دی جس پر الزام ہے کہ اس نے 400 ملین ڈالر کی منی لانڈرنگ کی جو ون کوائن نے امریکہ سے بنائے تھے۔
ڈاکٹر روجا کے بھائی نے کئی الزامات کو تسلیم کر لیا اور عدالت کو ایسا تاثر دیا کہ ان کی بہن نے انھیں اسی طرح دھوکہ دیا جس طرح انھوں نے دوسرے سرمایہ کاروں کو دھوکہ دیا۔
ڈاکٹر روجا کے بھائی نے بتایا کہ ان کی بہن کے پاس 'بہت بڑا پاسپورٹ'
ہے۔


_109781583_meetmylittledaughter2_976.jpg


ون کوائن نے ہمیشہ کسی غلط کام کی تردید کی ہے۔ ون کوائن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ون کوائن کرپٹو کرنسی کی تعریف کے معیارات پر پورا اترتا ہے۔‘

ون کوائن نے کہا کہ ’ہمارے شراکت دار، پوری دنیا میں جہاں بھی ہماری پروڈکٹ کے بارے میں غلط بیانی کی جاری ہے، اس کا مقابلہ کر رہے ہیں۔‘ ون کوائن نے جس انداز میں لوگوں کو دھوکہ دیا ہے یہ اتنا انوکھا نہیں بلکہ انھوں نے اسے ڈیجیٹل تڑکا لگایا ہے۔
لیکن ون کوائن کا فراڈ ٹیکنالوجی کے ایک تاریک پہلو سے پردہ اٹھاتا ہے۔ ٹیکنالوجی یقیناً ان لوگوں کے نئے مواقع پیدا کرتی ہے جو اسے سمجھتے ہیں لیکن ٹیکنالوجی ایسے افراد کے استحصال کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے جو اسے سمجھتے نہیں ہیں۔

ڈاکٹر روجا نے معاشرے کے ان ہی کمزرو پہلوؤں سے فائدہ اٹھایا۔ انھیں معلوم تھا کہ دنیا میں ایسے مایوس، لالچی یا الجھے ہوئے لوگ موجود ہوں گے جو ان کے بہکاوے میں آ کر ون کوائن میں اپنی جمع پونجی جھونک دیں گے۔

ڈاکٹر روجا کو یہ بھی پتہ تھا کہ انفارمیشن کے اس دور میں جھوٹ اور سچ کو علیحدہ کرنا بہت مشکل ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر روجا کو یہ بھی معلوم تھا کہ ون کوائن میں چھپے فراڈ سے عوام کو بچانے والے قانون ساز ادارے، پولیس، اور میڈیا کو یہ سمجھنے میں بہت دیر لگ جائے گی۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کرپٹو کوین


 
Last edited by a moderator:

Dr Adam

President (40k+ posts)



روجا اگناتووا کہیں مریم نواز کی سکھیوں میں سے تو نہیں ؟؟؟

کرتوت تو دونوں کے ایک ہی ہیں





روجا اگناتووا خود کو کرپٹو کرنسی کی رانی یا ’کرپٹو کوئین‘ کہلوانا پسند کرتی تھیں۔
وہ لوگوں کو بتاتی تھیں کہ انھوں نے بِٹ کوائن کے مقابلے میں ایک نئی کرپٹو کرنسی ایجاد کر لی ہے اور لوگوں کو چاہیے کہ وہ اربوں ڈالر کا سرمایہ اس کرنسی میں لگا دیں۔ اور پھر دو سال پہلے، روجا اچانک غائب ہو گئیں۔
جیمی بارٹلٹ گذشتہ کئی ماہ سے یہ کھوج لگانے کی کوشش میں رہے ہیں کہ کرپٹو کوئین آخر گئیں کہاں؟
یہ جون 2016 کی بات ہے جب ڈاکٹر روجا اگناتووا اپنے ہزاروں مداحوں کے سامنے لندن کے مشہور سٹیڈیم ’ویمبلی ایرینا‘ کے سٹیج پر نمودار ہوئیں۔ حسب معمول وہ ایک انتہائی مہنگے گاؤن میں ملبوس تھیں، ہیروں سے مزین لمبی لمبی بالیاں کانوں میں اور شوخ سرخ رنگ کی لِپ سٹک لگائے ہوئے۔
یہ بھی پڑھیے
'کرپٹو کرنسی خطرناک ہے'
’بِٹ کوائن ایک جادوئی چھڑی‘
کرپٹو کرنسیاں: ’کالے دھن کو سفید کیا جا رہا ہے‘
فیس بک کا نئی ڈیجیٹل کرنسی متعارف کرنے کا اعلان
تالیوں کی گونج میں انھوں نے حاضرین کو بتایا کہ وہ دن دور نہیں جب ’ون کوائن‘ دنیا کی سب سے بڑی کرپٹو کرنسی بن جائے گی اور دنیا میں کسی بھی مقام سے لوگ مالی ادائیگیوں کے لیے اس کرنسی کو استعمال کر سکیں گے۔
تصویر کے کاپی رائٹONECOINImage captionڈاکٹر روجا اپنے ہزاروں مداحوں کے سامنے لندن کے مشہور سٹیڈیم 'ویمبلی ایرینا' میں ون کوائن کے بارے میں بتاتے ہوئے
یاد رہے کہ دنیا کی پہلی کرپٹو کرنسی ’بِٹ کوائن‘ ہے اور آج بھی یہ سب سے بڑی اور مشہور ڈیجیٹل کرنسی ہے۔
بِٹ کوائن کی کامیابی کے بعد کرپٹو کرنسی کے خیال کو مزید تقویت ملی اور دنیا بھر میں بے شمار لوگوں نے دولت بنانے کے اس نئے طریقے میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔
ویمبلی سٹیڈیم کے سٹیج پر کھڑی ڈاکٹر روجا کا کہنا تھا کہ ون کوائن اصل میں ’بِٹ کوائن کا قاتل‘ ثابت ہو گا اور ’دو سال بعد کوئی بِٹ کوائن کا نام بھی نہیں لے گا۔‘
ڈاکٹر روجا کی اس تقریر سے پہلے ہی لوگوں نے ون کوائن میں سرمایہ کاری شروع کر دی تھی اور کئی لوگ اپنی بچت اس میں لگا چکے تھے، اس امید پر کہ وہ بھی اس نئے انقلاب کا حصہ بن جائیں گے۔
بی بی سی کو ملنے والی کچھ خفیہ دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سنہ 2016 کے پہلے چھ ماہ میں صرف برطانیہ میں لوگ ون کوائن میں تقریباً 30 ملین یورو کی سرمایہ کاری کر چکے تھے، جن میں سے دو ملین یورو صرف ایک ہفتے کے دوران لگائے گئے تھے۔
اگست 2014 سے مارچ 2017 کے درمیانی عرصے میں درجنوں دیگر ممالک میں بھی لوگوں نے چار ارب یورو کے بٹ کوائن خریدے۔ ان ممالک میں پاکستان سے لے کر برازیل، ہانگ کانگ سے لے کر ناروے اور کینیڈا سے لے کر یمن تک کے ممالک شامل تھے، یہاں تک کے فلسطین بھی۔
تصویر کے کاپی رائٹSHUTTERSTOCK
لیکن ان سرمایہ کاروں کو ایک بڑی اہم بات معلوم نہیں تھی۔
اس بات کی وضاحت کرنے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ کرپٹو کرنسی کام کیسے کرتی ہے۔
کرپٹو کرنسی کیا ہوتی ہے؟
اس چیز کو سمجھنا خاصا مشکل ہے۔ آپ انٹرنیٹ پر جائیں تو آپ کو کرپٹو کرنسی کے بارے میں سینکڑوں مختلف آرا نظر آئیں گی جن میں کچھ کو پڑھ کر آپ حیران رہ جاتے ہیں اور کچھ ایسی ہیں جو صاف دکھائی دیتا ہے کہ کسی ماہر کی لکھی ہوئی نہیں ہیں۔
رائے میں اختلاف اپنی جگہ، لیکن ایک بات آپ کو فوراً سمجھ آ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی بھی کرنسی کی قیمت یا قدر اتنی ہی ہوتی ہے جتنی لوگ سمجھتے ہیں۔ چاہے یہ بینک آف انگلینڈ کے جاری کردہ کرنسی نوٹ اور سِکّے ہوں، قیمتی پتھر ہوں یا اس قسم کی کوئی اور چیز۔ کوئی بھی کرنسی اسی وقت کام کرتی ہے جب ہر کوئی اسے تسلیم کرتا ہے۔
کافی عرصے سے لوگ اس کوشش میں رہے ہیں کہ وہ کوئی ایسی ڈیجیٹل کرنسی بنائیں جو ملکی سرحدوں کی محتاج نہ ہو اور اس کا انحصار کسی خاص ملک کی کرنسی پر نہ ہو۔
لیکن ان لوگوں کو ہمیشہ ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا کیونکہ کوئی بھی ان پر یقین نہیں کرتا تھا۔ لوگوں کو ہمیشہ اس بات کی ضرورت رہتی تھی کہ کوئی ایسا ادارہ یا شخص ہونا چاہیے جو اس کرنسی کی سپلائی کو اوپر نیچے کر سکے اور دوسرا یہ کہ ڈجیٹل کرنسی کی نقل بنانا بھی بہت آسان ہوتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ بِٹ کوائن کے آنے پر بہت سے لوگ خوش ہوئے اور انھیں یقین ہونے لگا کہ اس میں کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہیں کرنے پڑے گا۔
تصویر کے کاپی رائٹREUTERS
بِٹ کوائن کا انحصار ایک خاص قسم کے ڈیٹا بیس پر ہے جسے بلاک چین کہا جاتا ہے۔ بلاک چین ایک قسم کی بہت بڑی کتاب ہے اور اگر آپ بِٹ کوائن خریدتے ہیں تو اس کتاب کا ایک نسخہ یا کاپی آپ کو بھی مل جاتی ہے۔ مثلاً میری طرف سے جب بھی ایک بِٹ کوائن کسی دوسرے شخص کو بھیجا جاتا ہے، یہ چیز اس کتاب میں نوٹ ہو جاتی ہے جس کی ایک کاپی بِٹ کوائن کے تمام صارفین کے پاس موجود ہوتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ تو کوئی حکومت، کوئی بینک اور نہ ہی وہ شخص جو اس بِٹ کوائن کو ایجاد کرتا ہے، اس سکے کو تبدیل کر سکتا۔ اس ساری چیز کے پیچھے ریاضی کے اصول کارفرما ہیں، لیکن نہ تو بِٹ کوائن کی نقل بنائی جا سکتی ہے، نہ ہی بِٹ کوائن کی کتاب کو ہیک کیا جا سکتا ہے اور کسی بِٹ کوائن کو دو مرتبہ خرچ بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔
میں نے یہ ساری بات اپنے خاندان میں اس فرد کو بھی سمجھائی جو ٹیکنالوجی سے خوفزدہ ہو جاتا ہے، یعنی میری والدہ۔ ان کا جواب تھا کہ بیٹا کچھ سمجھ نہیں آئی، پھر سے بتاؤ۔
اس لیے اگر آپ کو بھی سمجھ نہیں آئی تو فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔ اس ساری بات میں اصل نکتہ یہ ہے کہ بلیک چین ڈیٹا بیس ہی دراصل وہ چیز ہے جس کی بنیاد پر بِٹ کوائن جیسی کوئی بھی ڈجیٹل کرنسی چلتی ہے۔ ڈجیٹل کرنسی کے چاہنے والوں کے لیے یہ کرنسی کی جدید ترین انقلابی قسم ہے، جس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ یہ بینکوں اور ملکی کرنسیوں کو کنارے لگا دے اور موبائل فون رکھنے والے ہر شخص کو آن لائن بینکنگ کی سہولت فراہم کر دے۔
اور اگر آپ کسی ڈجیٹل کرنسی کے شروع شروع کے خریداروں میں شامل ہو جاتے ہیں تو آپ کی قسمت بدل سکتی ہے۔
ڈاکٹر روجا کا کمال یہ ہے کہ انھیں یہ تمام بات سمجھ آ گئی اور انھوں نے اس خیال کو دھڑا دھڑ لوگوں میں فروخت کرنا شروع کر دیا۔
لیکن اس میں کچھ گڑ بڑ ضرور تھی۔
ڈاکٹر روجا کی لندن والی بڑی تقریب کے چار ماہ بعد اکتوبر 2016 کے اوائل میں ملازمتیں دلوانے والی ایک کمپنی نے بلاک چین کے ماہر یورن پیئرک کو بلایا اور انھیں ایک بڑی دلچسپ ملازمت کی پیشکش کی۔
انھیں بتایا گیا کہ بلغاریہ میں کرپٹو کرنسی کی ایک نئی کمپنی کو چیف ٹیکنیکل آفیسر درکار ہے اور اس کے لیے دو لاکھ 50 ہزار پاؤنڈ سالانہ کی پرکشش تنخواہ کے علاوہ گھر اور گاڑی بھی دی جائے گی۔
اس دن کو یاد کرتے ہوئے یورن پیئرک کہتے ہیں کہ ’میں سوچ رہا تھا کہ کمپنی میں میرا کام کیا ہو گا؟
میں نے سوچا کمپنی کو سب سے پہلے بلاک چین چاہیے ہو گا کیونکہ ان کے پاس بلاک چین نہیں ہے۔
میں نے ریکروٹِنگ ایجنٹ سے کہا ’آیا یہ واقعی ایک کرپٹوکرنسی کی کمپنی ہے؟‘
اینجٹ کا جواب تھا کہ میری بات درست ہے۔ یہ ایک کرپٹو کمپنی تھی جو کچھ عرصے سے کام بھی کر رہی تھی، لیکن ان کے پاس بلاک چین نہیں تھا۔ اسی لیے ’ہم چاہتے ہیں کہ آپ کمپنی کو بلاک چین بنا کر دیں۔‘
پیئرک نے پوچھا کہ کمپنی کا نام کیا ہے؟
ایجنٹ کا جواب تھا ’ون کوائن۔‘
یورن پیئرک نے یہ ملازمت نہیں لی۔
جین میک ایڈم کا ’ٹائیکون‘ پیکج
اس واقعے کے چند ماہ پہلے جین میک ایڈم نامی خاتون کو ان کی ایک دوست کا فون آیا تھا جس میں دوست نے جین کو ایک ایسی چیز میں سرمایہ کاری کا بتایا جس میں لاکھوں پاؤنڈ بنائے جا سکتے تھے۔ چانچہ گلاسگو میں اپنے گھر میں بیٹھی ہوئی جین نے کمپیوٹر کھولا اور ’ون کوائن‘ کے لنک پر کِلک کر دیا۔
Image captionجین مک ایڈم
وہ اگلا ڈیڑھ گھنٹہ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھی مختلف لوگوں کو یہ کہتے سنتی رہیں کہ ون کوائن کتنی زبردست کرنسی ہے اور یہ کس طرح آپ کی قسمت بدل سکتی ہے۔ جین کے بقول ان کی ویب سائٹ پر نطر آنے والے تمام لوگ ’بہت پرجوش اور جذبات سے بھرپور‘ باتیں کر رہے تھے۔
وہ کہہ رہے تھے آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ ’آپ کتنی خوش قسمت ہیں کہ آپ کو یہ آن لائن سیمینار سننے کا موقع ملا ہے۔ آپ ہمیں صحیح وقت پر جوائن کر رہی ہیں اور جلد ہی یہ کرنسی بھی بِٹ کوائن جیسی بڑی کرنسی بن جائے گی۔ بلکہ بِٹ کوائن سے بھی بڑی ڈجیٹل کرنسی۔‘
اس سیمینار میں میزبانی کے فرائض سرانجام دینے والے افراد ڈاکٹر روجا کے شاندار پس منظر کے گُن گا رہے تھے: آکسفرڈ یونیورسٹی، پھر پی ایچ ڈی، اس کے بعد مشہور مینیجمنٹ کمپنی ’میکنزی اینڈ کمپنی‘ کے ساتھ ملازمت، وغیرہ وغیرہ۔
پھر اس کے بعد ویب سائٹ پر مشہور جریدے ’دی اکانومسٹ‘ کی میزبانی میں ہونے والی ایک کانفرنس میں ڈاکٹر روجا کی تقریر دکھائی گئی۔ یہی وہ چیز تھی جس نے جین کو ون کوائن کا قائل کر دیا۔ جین کے بقول انھوں نے سوچا ’واہ کیا بات ہے خواتین کی طاقت کی۔ (ایک خاتون ہونے کے ناطے) مجھے روجا پر فخر محسوں ہوا۔‘
Image captionویب سائٹ پر مشہور جریدے 'دی اکانومسٹ' کی میزبانی میں ہونے والی ایک کانفرنس میں ڈاکٹر روجا کی تقریر دکھائی گئی۔ یہی وہ چیز تھی جس نے جین کو ون کوائن کا قائل کر دیا
جب تک وہ ویبینارختم ہوا، جین نے ون کوائن میں ایک ہزار یورو لگانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ یہ کام آسان تھا۔
آپ نے ہزار یورو کے ون کوائن کے ٹوکن خریدے، ان ٹوکنوں سے جو کوائن حاصل ہوئے وہ آپ کے اکاؤنٹ میں جمع ہو گئے۔ جین کو بتایا گیا کہ ایک دن وہ ان کوائنز کو واپس یورو یا پاؤنڈز میں تبدیل کر سکیں گی۔ جین کو یہ عمل آسان لگا۔ انھوں نے سوچا کہ آیا سرمایہ کاری کے لیے ایک ہزار یورو کی رقم کافی ہو گی یا نہیں؟
اس پر ون کوائن کے پروموٹرز نے کہا کہ اگر آپ واقعی اپنی زندگی بدلنا چاہتی ہیں تو پھر آپ کو ون کوائن کا کوئی بڑا پیکج لینا چاہیے۔ سب سے چھوٹا پیکج 140 یورو کا تھا اور سب سے بڑا ایک لاکھ 18 ہزار یورو کا۔ ایک ہفتے بعد جین نے ’ٹائیکون‘ پیکچ خرید لیا جس کی قیمت پانچ ہزار یورو تھی۔
کچھ ہی عرصے میں جین اپنے دس ہزار یورو ون کوائن میں لگا چکی تھیں اور اپنے دوستوں اور عزیزوں کو بھی قائل کر چکی تھیں کہ وہ اپنے دو لاکھ 50 ہزار یورو بھی لگا دیں۔
اس سرمایہ کاری کے بعد جوں جوں ان کے ون کوائن کی قدر بڑھ رہی تھی وہ ویب سائٹ پر دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہی تھیں۔ کچھ ہی عرصے میں یہ مالیت ایک لاکھ یورو ہو گئی، یعنی ان کے سرمائے میں دس گنا اضافہ ہو چکا تھا۔ انھوں نے سیر سپاٹے اور شاپنگ کے منصوبے بنانا شروع کر دیے۔
لیکن سنہ 2016 کے آخری دنوں میں ایک اجنبی شخص نے انٹرنیٹ پر جین سے رابطہ کیا۔ اس شخص کا دعویٰ تھا کہ وہ ایک اچھا، ہمدرد انسان ہے اور اس نے ون کوائن کے بارے میں خاصی تحقیق کر رکھی ہے۔
اس کے بقول اس کا مقصد صرف ان لوگوں سے رابطہ کرنا ہے جنھوں نے ون کوائن میں سرمایہ کاری کی۔ جین کو اس شخص سے بات کرنے میں ہچکچاہٹ ہوئی لیکن پھر انھوں نے سکائپ کے ذریعے اس سے بات کی۔ ان کی یہ گفگتو جلد ہی دھواں دھار بحث میں تبدیل ہو گئی کیونکہ اس شخص کا اصرار تھا کہ جین ایک بہت بڑے دھوکے کا شکار ہو چکی ہیں۔ اگرچہ جین نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا، لیکن اس گفتگو نے جین کی زندگی کو ایک نیا رخ دے دیا۔
وہ اجنبی شخص ٹموتھی کری تھے جو بِٹ کوائن کے زبردست حامی تھے اور کرپٹو کرنسی کی زور و شور سے وکالت کرتے تھے۔ ٹموتھی کا خیال تھا کہ ون کوائن ڈیجیٹل کرنسی کے خیال کے لیے بدنامی کا باعت بنے گا اور انھوں نے جین کو صاف صاف بتا دیا کہ ون کوائن’ دنیا کا سب سے بڑا فراڈ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ بات ثابت کر سکتے ہیں۔ اس پر جین نے کہا کہ ثابت کر کے دکھائیں۔
اگلے کئی ہفتوں کے دوران ٹموتھی نے جین کو بے شمار معلومات بھیجیں جن میں بتایا گیا تھا کہ کرپٹو کرنسی کام کیسے کرتی ہے۔ کئی مضامین، انٹرنیٹ لِنکس اور یو ٹیوب ویڈیوز کے علاوہ ٹموتھی نے جین کو انٹرنیٹ کے ذریعے ایسے شخص سے متارف کرایا جو خود بلاک چین بنانے کے ماہر ہیں اور یہ بات کہہ چکے تھے کہ ون کوائن کے پاس کوئی بلاک چین موجود نہیں تھا۔
ان تمام معلومات کو سمجھنے میں جین کو تین ماہ لگ گئے، لیکن ان کا فائدہ یہ ہوا کہ جین کے ذہن میں سوال اٹھنا شروع ہو گئے۔ انھوں نے اپنے ون کوائن گروپ میں شامل لوگوں سے پوچھنا شروع کر دیا کہ آیا ون کوائن کے پاس بلاک چین ہے یا نہیں۔ پہلے پہل تو جین کو یہ کہا گیا کہ انھیں یہ بات جاننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، لیکن جب انھوں نے اصرار کیا تو اپریل 2017 میں آخر کار انہیں سچ معلوم ہو گیا۔
ان کے نام کسی نے جو پیغام ریکارڈ کرایا تھا اس میں کہا گیا کہ ’جین ۔ ۔ ون کوائن والے اس قسم کی معلومات کو منظر عام پر نہیں لانا چاہتے جس کی وجہ یہ ہے کہ اس مقام پر کوئی گڑ بڑ نہ ہو جائے جہاں یہ بلاک چین رکھا ہوا ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ ون کوائن کی ایپ کے لیے بلاک چین کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یوں ہماری بلاک چین ٹیکنالوجی دراصل ایک ایس کیو ایل سرور کی شکل میں ہے جس کے اندر ڈیٹا بیس موجود ہے۔‘
لیکن اس وقت تک جین کو، ٹموتھی کری اور پیئرک کی مہربانی سے، یہ بات معلوم ہو چکی تھی کہ اکیلے ایس کیو ایل ڈیٹا بیس سے کوئی بھی کرپٹو کرنسی نہیں چل سکتی۔ بلاک چین کے برعکس مینیجر جب چاہے اس قسم کے ڈیٹا بیس میں تبدیلی کر سکتا ہے۔
’میں نے سوچا، کیا؟؟؟؟؟؟
’میری ٹانگیں سُن ہو گئیں اور میں دھڑام سے فرش پر گر گئی۔‘
اس کا مطلب یہ تھا کہ جین کو اب سمجھ آ گئی تھی کہ ان کے ون کوائن کی قدر میں جو اضافہ ہو رہا تھا وہ باکل بے معنی تھا۔ ون کوائن کا کوئی اہلکار کہیں بیٹھا ہوا محض ہندسے بدل رہا تھا۔ لیکن اس وقت تک جین، ان کے گھر والے اور دوست اپنے تقریباً ڈھائی لاکھ پاؤنڈ ون کوائن میں جھونک چکے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ شاید ان کی مالی مشکلات ختم ہو جائیں گی لیکن اب تو ان کی جمع پونجی غرق ہوتی نظر آ رہی تھی۔
ڈاکٹر روجا منظر سے غائب
کے مابین روابط تھے اور جب ڈاکٹر روجا منظر عام سے غائب ہوئیں تو انھوں نے ون کوائن کے معاملات کو دیکھنا شروع کیا۔ کونسٹینٹن اگناتوو کے شمالی یورپ کے منظم جرائم پیشہ گروہوں کے ساتھ بھی روابط تھے۔
تصویر کے کاپی رائٹONECOINImage captionکونسٹینٹن اگناتووخاندان کے اندر کی بات
چھ مارچ 2019 کو جب ڈاکٹر روجا کے بھائی کونسٹینٹن اگناتوو لاس اینجلس کے ایئرپورٹ پر تھے جہاں سے وہ بلغاریہ واپس آنے کے لیے فلائٹ کا انتظار کر رہے تھے تو ایف بی آئی نے انھیں گرفتار کر لیا اور ان پر ون کوائن کے حوالے سے فراڈ کا مقدمہ دائر کیا۔
تقریباً اسی وقت امریکی محکمہ انصاف نے ڈاکٹر روجا کی غیر موجودگی میں ان کے خلاف منی لانڈرنگ، فراڈ کے الزامات کے تحت مقدمہ بھی درج کر لیا، لیکن اس سب کے باوجود ون کوائن کا کام چلتا رہا اور لوگ اس میں پیسہ لگاتے رہے۔
جب ہم نے ڈاکٹر روجا کے خلاف مقدمہ درج ہونے کے ایک ماہ بعد صوفیہ کا دورہ کیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ ڈاکٹر روجا کے محل نما مکان کو تالے لگے ہوئے ہیں لیکن صوفیہ میں ون کوائن کا دفتر کھلا تھا اور وہاں کام جاری تھا۔
تصویر کے کاپی رائٹALAMYImage captionبلغاریہ میں ون کوائن کا ہیڈ آفس
فراڈ کی واضح نشانیوں کے باوجود اتنے زیادہ لوگ ون کوائن پر اعتبار کیوں کرتے رہے؟
ون کوائن کے سرمایہ کاروں نے ہمیں بتایا کہ ابتدا میں ان کو یہ ڈر تھا کہ وہ ایک بڑے منافع سے محروم ہو جائیں گے۔ انھیں بتایا جاتا تھا کہ ون کوائن بٹ کوائن کے بعد سب سے بڑی چیز ہے اور جب سرمایہ کار بٹ کوائن سے منسلک لوگوں کی تقدیر بدلنے کی کہانیں سننتے تھے تو انھیں ڈر لگتا تھا کہ وہ کہیں ون کوائن کےذریعے امیر ہونے کا موقع ہی ضائع نہ کر دیں۔
کچھ لوگ ڈاکٹر روجا کی شخصیت کی وجہ سے ون کوائن سے جڑے رہے۔ ان سرمایہ کاروں کو کرپٹو کرنسی کی ٹیکنالوجی کا کچھ معلوم نہیں ہو گا لیکن وہ ڈاکٹر روجا کو اکانومسٹ کانفرنس میں تقریریں کرتے دیکھا تھا۔
ان کو ڈاکٹر روجا کی اعلی تعلیم یافتہ ہونے کی یقین دہانی کے لیے ان کی ڈگریاں دکھائی گئیں اور فوربز میگزین میں چھپنے والی تصاویر کو بطور شہادت پیش کیا کہ وہ ایسی کامیاب کاروباری شخصیت ہیں جن کے ساتھ جڑے رہنے سے ان کی قسمت بھی بدل سکتی ہے۔
جہاں تک ڈاکٹر روجا کی ڈگریوں کا تعلق ہے وہ تو اصلی ہیں لیکن فوربز کے سرورق پر چھپنی والی تصویر اصلی نہیں تھی۔ حقیقت میں ان کی تصویر فوربز کے اندر والے صحفے پر شائع ہوئی تھی لیکن اسے اس انداز میں شائع کیا گیا کہ فرنٹ کور کو ہٹا دیں تو وہ تصویر حقیقت میں سرورق نظر آتی ہے۔
ون کوائن کے ساتھ جڑے رہنے کی وجہ صرف امیر ہونے کے خواب ہی نہیں تھے۔
جب جین میک ایڈم نے ون کوائن میں سرمایہ کاری شروع کی تو انھیں ہمیشہ یہ بتایا گیا کہ اب وہ ون کوائن فیملی کی رکن ہیں اور انھیں ون کوائن کے بارے میں منفی باتیں پھیلانے والوں کی باتوں پر دھیان دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
انھیں وٹس ایپ گروپ کا ممبر بنایا گیا جہاں انھیں اپنی لیڈر کی طرف سے معلومات ملتی تھیں جو وہ بلغاریہ کے دفتر میں بیٹھ کر اپنے 'خاندان' میں پھیلاتی تھی۔
جین میک ایڈم کہتی ہیں کہ انھیں بتایا جاتا تھا کہ بٹ کوائنر والے دراصل ون کوائن سے نفرت کرتے ہیں۔ ان کی باتیں نہ سنیں، نہ ہی گوگل کی باتیں سنیں۔ وہ کہتی تھیں کہ اگر آپ کے ذہن میں ون کوائن کے بارے شکوک و شبہات ہیں تو پھر آپ کو ون کوائن فیملی کا ممبر ہونے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔
لندن سکول آف اکنامکس کے پروفیسر ایلین بارکر، جنھوں نے سائنٹالوجسٹ اور مونیز جیسے گروہوں کو سمجھنے میں برسوں صرف کیے ہیں، کہتے ہیں کہ ون کوائن بھی ایک مسلک یا مذہبی گروہ کی ماند تھا جس میں شامل لوگوں کو یہ باور کرایا جاتا تھا کہ وہ کسی بڑی تبدیلی کی مہم کا حصہ ہیں جو دنیا کو بدلنے جا رہی ہے۔
اور جب لوگ ون کوائن کے گروپ میں شامل ہو جاتے تو کسی قسم کی شہادتیں بھی انھیں اس سے علیحدہ کرنے کے لیے ناکافی تھیں۔
پروفیسر ایلین بارکر کہتی ہیں کہ ایسے گروہ میں جب پیشنگوئی غلط بھی ثابت ہو جائے تو اس کو ماننے والوں کا اس پر یقین اور پختہ ہو جاتا ہے اور خاص طور پر جب آپ نے اس میں پیسے کے علاوہ اپنی شہرت، ذہانت بھی صرف کی ہو تو آپ سوچتے ہیں کہ تھوڑا سا اور انتظار کر لینا چاہیے۔
ایک مثالی دنیا میں یہ امید کی جاتی ہے کہ حکومتی ادارے یا ریگولیٹرز صارفین کو ون کوائن جیسی دھوکہ دہی سے محفوظ رکھیں گے لیکن پوری دنیا میں حکام بہت سست روی سے اس کی طرف آتے ہیں اور خاص طور پر کرپٹو کرنسی کی طرف جو ایک بہت نئی چیز ہے۔
برطانیہ کی فنانشل کنڈکٹ اتھارٹی (ایف سی اے) کی ذمہ داری ہے کہ وہ برطانیہ کے صارفین کو ایسے فراڈ سے خبردار کرے۔ ایف سی اے نے سنہ 2016 میں ون کوائن کے بارے میں اپنی ویب سائٹ پر ایک انتباہ جاری کیا تھا کہ ون کوائن میں سرمایہ کاری سے ہوشیار رہیں۔ لیکن اس انتباہ کو ایک سال بعد اسے وہاں سے ہٹا لیا گیا۔
ایف سی اے کی طرف سے ون کوائن کے بارے میں اپنی وارننگ کو واپس لینے کو ون کوائن کے حامیوں نے اس کے درست اور قانونی ہونے کی شہادت کے طور پر پیش کیا۔
جب ایف سی اے نے اپنی وارننگ کو ویب سائٹ سے ہٹا لیا تو برطانیہ میں ون کوائن کی کئی تقریبات کا انعقاد ہوا، لوگ اس میں سرمایہ کاری کرتے رہے اور جب بی بی سی نے ایف سی اے سے اس کے بارے میں پوچھا تو وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا۔
یہ حقیقت کہ ون کوائن ایک عالمی آپریشن تھا، یہ بھی حکام کے لیے پریشانی کا سبب تھا۔ لندن کی پولیس نے دو سال تک ون کوائن کے بارے میں تحقیق کرنے کے بعد وہ تحقیقات ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
لندن پولیس نے اپنے بیان میں کہا کہ چونکہ ون کوائن سے متعلق کمپنیاں اور افراد برطانیہ کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں اس لیے ہم برطانیہ میں ان کے کسی اثاثے کی نشاندہی نہیں کر سکتے جس سے متاثرین کے نقصان کو پورا کیا جا سکے۔
سٹی آف لندن پولیس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کسی فرد یا افراد کے خلاف مجرمانہ کارروائی میں ملوث ہونے پر قانونی کارروائی شروع کرنے کے لیے شواہد ناکافی تھے۔‘
پولیس نے مزید کہا کہ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ انھیں ون کوائن کے بارے میں کوئی تحفظات نہیں ہیں۔ ’لندن سٹی پولیس قانون نافذ کرنے والی تمام غیر ملکی ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کرتی رہی ہے اور کرتی رہے گی اور اگر کسی شخص کو کوئی شکایت ہے تو وہ ایکشن فراڈ آن لائن کے ساتھ رابطہ کرے۔‘
تصویر کے کاپی رائٹSHUTTERSTOCK
@Svrakata کی ٹوئٹر پر پوسٹ کا خاتمہ

See ᑎIᑕKOᒪᗩY ᔕTOYᗩᑎOᐯ's other Tweets


@Svrakata کی ٹوئٹر پر پوسٹ سے آگے جائیں
یوگنڈا کا المیہ
یوگنڈا کے علاقے نتانگامو ریجن میں زیادہ لوگوں کی آمدن کا ذریعہ کیلے، کساوا، میٹھے آلو، مٹر اور مونگ پھلی کی پیداوار ہے۔
22 سالہ ڈینیئل لائنڈ ہارٹ اسی علاقے کے رہائشی تھے۔ وہ ون کوائن خریدنے کے لیے سات لاکھ شلنگ اکٹھی کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
انھوں نے چار لاکھ شلنگ تو خود اکٹھے کر لیے تھے مگر ون کوائن میں پہلی سرمایہ کاری کے لیے مزید تین لاکھ شلینگ چاہیے تھے۔ وہ اپنے گاؤں گئے اور اپنے بھائی کو اپنا کل اثاثہ، تین بھیڑیں، فروخت کرنے پر رضامند کر لیا۔
اب وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔
ڈینیئل یوگنڈا کے ہزاروں لوگوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے ڈاکٹر روجا کی جعلی کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کی۔
جب یورپ میں لوگوں کی ون کوائن میں دلچسپی کم ہو گئی تو افریقہ، مشرق وسطیٰ اور انڈیا ون کوائن کے لیے بہت اہم ہو گئے اور وہاں سے سرمایہ کاری ہونے لگی۔
ڈینیئل نے مجھے اور جارجیا کو پروڈنس نامی نرس سے ملاقات کرائی جنھوں نے سب سے پہلے ڈینیئل کو ون کوائن سے متعارف کروایا تھا۔ ڈینیئل اور پروڈنس کی دوستی اب بھی برقرار ہے، حالانکہ ان کو معلوم ہو چکا ہے کہ ون کوائن ایک فراڈ تھا۔
Image captionڈینیئل اور پروڈنس
پروڈنس کپمالہ میں ایک نرس ہیں۔ انھوں نے سوچا کہ وہ ون کوائن فروخت کر کے دولت کما سکتی ہیں اور انھوں نے مزید لوگوں کو ون کوائن خریدنے پر قائل کرنا شروع کر دیا۔
ون کوائن کے ایک پروموٹر نے پروڈنس کو ایک اچھی سے کار خرید کر دی تا کہ وہ لوگوں کو متاثر کر سکیں۔ ان کو ہدایت کی جاتی تھی کہ وہ اپنی کار میں ایسے وقت لوگوں کے پاس جائیں جب وہ فصلیں کاشت کر رہے ہوں اور ان کے پاس پیسے ہوں۔
پروڈنس کہتی ہیں کہ دیہات میں لوگ شہروں میں بسنے والے لوگوں پر اعتبار کرتے ہیں۔
کئی لوگوں نے ون کوائن کا پیکج خریدنے کے لیے اپنے مال مویشی بیچے، اپنی زمین بیچی اور کچھ نے اپنے گھر بھی بیچ دیے۔ اب ان لوگوں میں سے کئی کے بچے سکول نہیں جا پا رہے ہیں جبکہ کچھ کے پاس رہنے کے لیے کوئی جگہ بھی نہیں بچی۔
جب پروڈنس سے لوگ پوچھتے ہیں کہ ہمیں منافع کب ملے گا تو وہ لوگوں کو صبر کی تلقین کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں لوگوں کو سچ نہیں بتا سکتی اور میں تو اب چھپ کے رہتی ہوں۔
’جن لوگوں نے میرے کہنے پر ون کوائن میں سرمایہ کاری کی، اگر میں ان کے سامنے آ گئی تو وہ مجھے قتل بھی کر سکتے ہیں۔‘
پروڈنس نے اب لوگوں کو ون کوائن بیچنا ختم کر دیا ہے لیکن کمپالا میں اب بھی کچھ لوگ ون کوائن فروخت کر رہے ہیں۔ کمپالا کا ایک چرچ بھی ون کوائن کو بیچنے میں مصروف ہے۔
بشپ فریڈ کی ایسی ویڈیو موجود ہیں جن میں وہ دوران عبادت ون کوائن کی مشہوری کرتے نظر آتے ہیں۔ بشب فریڈ یوگنڈا میں ون کوائن کے سب سے بڑے پروموٹر ہیں لیکن اب انھوں نے کم از کم چرچ میں اس کی تشہیر کرنا ختم کر دی ہے۔
Image captionڈینیئل اور ان کی والدہ
ڈینیئل ہمیں اپنی والدہ سے ملوانے لے گئے جنھوں نے اپنے بیٹے کے کہنے پر ساری زندگی کی جمع پونجی، یعنی تین ہزار ڈالر ون کوائن پیکج پر خرچ کر دیے تھے۔
ڈینیئل نے اپنی ماں کو نہیں بتایا ہے کہ ان کی رقم ڈوب چکی ہے۔ جب ڈیینئل کی والدہ نے ہمیں دیکھا تو کہنے لگیں انھیں ایسا لگا کہ شاید ان کی دولت واپس آنے لگی ہے۔ انھوں نے ہمیں کہا 'جب پیسے آپ کے ہوں اور کوئی لے جائے تو بہت دکھ ہوتا ہے۔‘
تم غائب کہاں ہو، ڈاکٹر روجا؟
جب ہم نے 2018 میں مسنگ کرپٹو کوئین کے پوڈکاسٹ پر کام کرنا شروع کیا تو کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ ڈاکٹر روجا کہاں ہیں۔ رواں سال کے شروع میں امریکی حکام نے انکشاف کیا کہ ڈاکٹر روجا کو 25 اکتوبر 2017 کو ایتھنز میں دیکھا گیا ہے۔ اس کے باوجود اس سوال کا جواب نہیں ملا کہ وہ ایتھنز کے بعد کہاں گئیں۔
تصویر کے کاپی رائٹONECOINImage captionڈاکٹر روجا
ملٹی لیول مارکیٹنگ کے بادشاہ اگور البرٹس نے ہمیں بتایا کہ انھوں نے سنا ہے کہ ڈاکٹر روجا کے پاس یوکرین اور روس کا پاسپورٹ بھی ہے اور وہ روس اور دبئی کے درمیان سفر کرتی رہتی ہیں۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ شاید وہ بلغاریہ کے بااثر لوگوں کی حفاظت میں ہیں۔ جبکہ کچھ لوگوں کے خیال میں وہ پلاسٹک سرجری کروا کے باآسانی خود کو چھپا سکتی ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ شاید ڈاکٹر روجا کی موت ہو چکی ہے۔
جب ہم نے ایک تجربہ کار پرائیویٹ تفتیش کار ایلن میکلین سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ کسی شخص کو تلاش کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ یہ جانیں کہ وہ شخص کہاں پیدا ہوا، کہاں پلا بڑھا،اور امیر ہونے سے پہلے اس کا طرز زندگی کیا تھا۔
پھر یہ جاننے کی کوشش کریں کہ دولت مند ہونے کے بعد وہ کہاں جانا پسند کرتا تھا، پرتعیش کشتیاں کہاں سے خریدتا تھا۔ پرائیویٹ تفتیش کار سے ملاقات کے چند ہفتوں بعد انھوں ایک بار پھر ہم سے رابطہ کیا اور کچھ انتہائی دلچسپ معلومات کا تبادلہ کیا۔
ایلن میکلین کے کچھ دوستوں کو ایتھنز سے تصدیق ہوئی کہ ڈاکٹر روجا کو ایتھنز کے ریسٹورنٹ میں ڈنر کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
جب ہم نے ایتھنز کے ریسٹورانٹ کے سٹاف سے ڈاکٹر روجا کی وہاں آمد کے بارے میں بات کی تو انھوں نے تصدیق کی کہ انھوں نے اس خاتون کو دیکھا ہے۔
ایک اور اشارہ اس وقت ملا جب ہم نے بخارسٹ میں ون کوائن کے مقابلہ حسن میں شرکت کی۔ وہ لوگ مہنگی شراب پی رہے تھے اور ہمیں اس انداز میں گھور رہے تھے جس سے ہم پریشانی لاحق ہو گئی۔
ہم نے یہ سب کچھ برداشت کیا اور مقابلہ حسن کے برطانوی شرکا کی حمایت کی۔ لیکن ہم نے بعد میں سنا کہ ڈاکٹر روجا تو اسی مقابلے کی تقریب میں موجود تھیں اور اسی کمرے میں تھیں جہاں ہم تھے۔ بس فرق یہ ہے کہ پلاسٹک سرجری کے بعد انھیں پہچاننا بہت مشکل ہو چکا ہے۔
ڈاکٹر روجا کو یونان یا رومانیہ سے امریکہ کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ صحیح ہے کہ وہ ان ممالک میں موجود تھیں تو شاید انھوں نے جعلی شناخت بھی حاصل کر لی ہو۔
تصویر کے کاپی رائٹONECOINImage captionڈاکٹر روجا نے سوشل میڈیا پر اپنی بیٹی کے ساتھ تصویر بھی شیئر کی تھی
ہم نے ایلین میکلین کے بتائے ہوئے گُر کے مطابق ڈاکٹر روجا کو وہاں ڈھونڈنے کا فیصلہ جہاں انھوں نے ماضی میں وقت گزارا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ انھوں نے جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں کافی وقت گزارا ہے اور ان کی شادی بھی جرمنی میں ایک وکیل سے ہوئی تھی۔
ہم ڈاکٹر روجا کی تصاویر اور مائیکرو فون لے کر فرینکفرٹ گئے اور لوگوں سے ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ہم نے ایک وکیل سے بھی فون پر بات کی جو شاید ان کا شوہر ہے یا تھا لیکن وہ ہم سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔
کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم ڈاکٹر روجا کے قریب پہنچ گئے ہیں یا وہ یورپ کے دل یا اس کے مرکز میں کہیں مقیم ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم۔
فرینکفرٹ شاید ان شہروں میں سے ایک ہے جہاں وہ جاتی ہیں۔
ہمیں کچھ روز بعد ایک فون کال موصول ہوئی۔ ہم اس کالر کی شناخت ظاہر نہیں کر سکتے ۔ اس نے ہمیں بتایا ہے کہ فرینکفرٹ یقیناً ان مقامات میں سے ایک ہے جہاں ڈاکٹر روجا بہت وقت گزارتی ہیں۔ لیکن ہمیں ابھی وہ گھر ڈھونڈنا ہے جہاں وہ رہتی ہیں۔ ہمارے ذرائع نے کہا 'تم اسے ڈھونڈ لو گے، مزید کوشش کرو۔'
کرپٹو کوئین کو معلوم ہو گا کہ ہم اسے ڈھونڈتے پھر رہے ہیں اور وہ ہم پر ہنستی ہوں گی۔
تصویر کے کاپی رائٹONECOINImage captionڈاکٹر روجا سٹیج پر
جب پانچ نومبر 2019 کو ہمارے پوڈ کاسٹ کی پہلی قسط نشر ہوئی، اسی روز ڈاکٹر روجا کے بھائی کونسٹینٹن کو امریکہ کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا جہاں انھوں نے ایک وکیل کے خلاف گواہی دی جس پر الزام ہے کہ اس نے 400 ملین ڈالر کی منی لانڈرنگ کی جو ون کوائن نے امریکہ سے بنائے تھے۔
ڈاکٹر روجا کے بھائی نے کئی الزامات کو تسلیم کر لیا اور عدالت کو ایسا تاثر دیا کہ ان کی بہن نے انھیں اسی طرح دھوکہ دیا جس طرح انھوں نے دوسرے سرمایہ کاروں کو دھوکہ دیا۔
ڈاکٹر روجا کے بھائی نے بتایا کہ ان کی بہن کے پاس 'بہت بڑا پاسپورٹ' ہے۔
ون کوائن نے ہمیشہ کسی غلط کام کی تردید کی ہے۔ ون کوائن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ون کوائن کرپٹو کرنسی کی تعریف کے معیارات پر پورا اترتا ہے۔‘
ون کوائن نے کہا کہ ’ہمارے شراکت دار، پوری دنیا میں جہاں بھی ہماری پروڈکٹ کے بارے میں غلط بیانی کی جاری ہے، اس کا مقابلہ کر رہے ہیں۔‘ ون کوائن نے جس انداز میں لوگوں کو دھوکہ دیا ہے یہ اتنا انوکھا نہیں بلکہ انھوں نے اسے ڈیجیٹل تڑکا لگایا ہے۔
لیکن ون کوائن کا فراڈ ٹیکنالوجی کے ایک تاریک پہلو سے پردہ اٹھاتا ہے۔ ٹیکنالوجی یقیناً ان لوگوں کے نئے مواقع پیدا کرتی ہے جو اسے سمجھتے ہیں لیکن ٹیکنالوجی ایسے افراد کے استحصال کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے جو اسے سمجھتے نہیں ہیں۔
ڈاکٹر روجا نے معاشرے کے ان ہی کمزرو پہلوؤں سے فائدہ اٹھایا۔ انھیں معلوم تھا کہ دنیا میں ایسے مایوس، لالچی یا الجھے ہوئے لوگ موجود ہوں گے جو ان کے بہکاوے میں آ کر ون کوائن میں اپنی جمع پونجی جھونک دیں گے۔
ڈاکٹر روجا کو یہ بھی پتہ تھا کہ انفارمیشن کے اس دور میں جھوٹ اور سچ کو علیحدہ کرنا بہت مشکل ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر روجا کو یہ بھی معلوم تھا کہ ون کوائن میں چھپے فراڈ سے عوام کو بچانے والے قانون ساز ادارے، پولیس، اور میڈیا کو یہ سمجھنے میں بہت دیر لگ جائے گی۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کرپٹو کوین
https://twitter.com/intent/like?tweet_id=1197494888457293824
[/QUOTE]
 

Wake up Pak

(50k+ posts) بابائے فورم
روجا اگناتووا خود کو کرپٹو کرنسی کی رانی یا ’کرپٹو کوئین‘ کہلوانا پسند کرتی تھیں۔

_109681066_queen_promo-nc.png


وہ لوگوں کو بتاتی تھیں کہ انھوں نے بِٹ کوائن کے مقابلے میں ایک نئی کرپٹو کرنسی ایجاد کر لی ہے اور لوگوں کو چاہیے کہ وہ اربوں ڈالر کا سرمایہ اس کرنسی میں لگا دیں۔ اور پھر دو سال پہلے، روجا اچانک غائب ہو گئیں۔

جیمی بارٹلٹ گذشتہ کئی ماہ سے یہ کھوج لگانے کی کوشش میں رہے ہیں کہ کرپٹو کوئین آخر گئیں کہاں؟
یہ جون 2016 کی بات ہے جب ڈاکٹر روجا اگناتووا اپنے ہزاروں مداحوں کے سامنے لندن کے مشہور سٹیڈیم ’ویمبلی ایرینا‘ کے سٹیج پر نمودار ہوئیں۔ حسب معمول وہ ایک انتہائی مہنگے گاؤن میں ملبوس تھیں، ہیروں سے مزین لمبی لمبی بالیاں کانوں میں اور شوخ سرخ رنگ کی لِپ سٹک لگائے ہوئے۔


_109781589_untitled-35_976.jpg


تالیوں کی گونج میں انھوں نے حاضرین کو بتایا کہ وہ دن دور نہیں جب ’ون کوائن‘ دنیا کی سب سے بڑی کرپٹو کرنسی بن جائے گی اور دنیا میں کسی بھی مقام سے لوگ مالی ادائیگیوں کے لیے اس کرنسی کو استعمال کر سکیں گے۔

ڈاکٹر روجا اپنے ہزاروں مداحوں کے سامنے لندن کے مشہور سٹیڈیم 'ویمبلی ایرینا' میں ون کوائن کے بارے میں بتاتے ہوئے
یاد رہے کہ دنیا کی پہلی کرپٹو کرنسی ’بِٹ کوائن‘ ہے اور آج بھی یہ سب سے بڑی اور مشہور ڈیجیٹل کرنسی ہے۔

بِٹ کوائن کی کامیابی کے بعد کرپٹو کرنسی کے خیال کو مزید تقویت ملی اور دنیا بھر میں بے شمار لوگوں نے دولت بنانے کے اس نئے طریقے میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔
ویمبلی سٹیڈیم کے سٹیج پر کھڑی ڈاکٹر روجا کا کہنا تھا کہ ون کوائن اصل میں ’بِٹ کوائن کا قاتل‘ ثابت ہو گا اور ’دو سال بعد کوئی بِٹ کوائن کا نام بھی نہیں لے گا۔‘


_109965333_mediaitem109965332.jpg


ڈاکٹر روجا کی اس تقریر سے پہلے ہی لوگوں نے ون کوائن میں سرمایہ کاری شروع کر دی تھی اور کئی لوگ اپنی بچت اس میں لگا چکے تھے، اس امید پر کہ وہ بھی اس نئے انقلاب کا حصہ بن جائیں گے۔
بی بی سی کو ملنے والی کچھ خفیہ دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سنہ 2016 کے پہلے چھ ماہ میں صرف برطانیہ میں لوگ ون کوائن میں تقریباً 30 ملین یورو کی سرمایہ کاری کر چکے تھے، جن میں سے


دو ملین یورو صرف ایک ہفتے کے دوران لگائے گئے تھے۔
اگست 2014 سے مارچ 2017 کے درمیانی عرصے میں درجنوں دیگر ممالک میں بھی لوگوں نے چار ارب یورو کے بٹ کوائن خریدے۔ ان ممالک میں پاکستان سے لے کر برازیل، ہانگ کانگ سے لے کر ناروے اور کینیڈا سے لے کر یمن تک کے ممالک شامل تھے، یہاں تک کے فلسطین بھی۔

لیکن ان سرمایہ کاروں کو ایک بڑی اہم بات معلوم نہیں تھی۔
اس بات کی وضاحت کرنے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ کرپٹو کرنسی کام کیسے کرتی ہے۔

کرپٹو کرنسی کیا ہوتی ہے؟

اس چیز کو سمجھنا خاصا مشکل ہے۔ آپ انٹرنیٹ پر جائیں تو آپ کو کرپٹو کرنسی کے بارے میں سینکڑوں مختلف آرا نظر آئیں گی جن میں کچھ کو پڑھ کر آپ حیران رہ جاتے ہیں اور کچھ ایسی ہیں جو صاف دکھائی دیتا ہے کہ کسی ماہر کی لکھی ہوئی نہیں ہیں۔
ر
ائے میں اختلاف اپنی جگہ، لیکن ایک بات آپ کو فوراً سمجھ آ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی بھی کرنسی کی قیمت یا قدر اتنی ہی ہوتی ہے جتنی لوگ سمجھتے ہیں۔ چاہے یہ بینک آف انگلینڈ کے جاری کردہ کرنسی نوٹ اور سِکّے ہوں، قیمتی پتھر ہوں یا اس قسم کی کوئی اور چیز۔ کوئی بھی کرنسی اسی وقت کام کرتی ہے جب ہر کوئی اسے تسلیم کرتا ہے۔

کافی عرصے سے لوگ اس کوشش میں رہے ہیں کہ وہ کوئی ایسی ڈیجیٹل کرنسی بنائیں جو ملکی سرحدوں کی محتاج نہ ہو اور اس کا انحصار کسی خاص ملک کی کرنسی پر نہ ہو۔

لیکن ان لوگوں کو ہمیشہ ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا کیونکہ کوئی بھی ان پر یقین نہیں کرتا تھا۔ لوگوں کو ہمیشہ اس بات کی ضرورت رہتی تھی کہ کوئی ایسا ادارہ یا شخص ہونا چاہیے جو اس کرنسی کی سپلائی کو اوپر نیچے کر سکے اور دوسرا یہ کہ ڈجیٹل کرنسی کی نقل بنانا بھی بہت آسان ہوتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ بِٹ کوائن کے آنے پر بہت سے لوگ خوش ہوئے اور انھیں یقین ہونے لگا کہ اس میں کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہیں کرنے پڑے گا۔

بِٹ کوائن کا انحصار ایک خاص قسم کے ڈیٹا بیس پر ہے جسے بلاک چین کہا جاتا ہے۔ بلاک چین ایک قسم کی بہت بڑی کتاب ہے اور اگر آپ بِٹ کوائن خریدتے ہیں تو اس کتاب کا ایک نسخہ یا کاپی آپ کو بھی مل جاتی ہے۔ مثلاً میری طرف سے جب بھی ایک بِٹ کوائن کسی دوسرے شخص کو بھیجا جاتا ہے، یہ چیز اس کتاب میں نوٹ ہو جاتی ہے جس کی ایک کاپی بِٹ کوائن کے تمام صارفین کے پاس موجود ہوتی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ تو کوئی حکومت، کوئی بینک اور نہ ہی وہ شخص جو اس بِٹ کوائن کو ایجاد کرتا ہے، اس سکے کو تبدیل کر سکتا۔ اس ساری چیز کے پیچھے ریاضی کے اصول کارفرما ہیں، لیکن نہ تو بِٹ کوائن کی نقل بنائی جا سکتی ہے، نہ ہی بِٹ کوائن کی کتاب کو ہیک کیا جا سکتا ہے اور کسی بِٹ کوائن کو دو مرتبہ خرچ بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔

میں نے یہ ساری بات اپنے خاندان میں اس فرد کو بھی سمجھائی جو ٹیکنالوجی سے خوفزدہ ہو جاتا ہے، یعنی میری والدہ۔ ان کا جواب تھا کہ بیٹا کچھ سمجھ نہیں آئی، پھر سے بتاؤ۔

اس لیے اگر آپ کو بھی سمجھ نہیں آئی تو فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔ اس ساری بات میں اصل نکتہ یہ ہے کہ بلیک چین ڈیٹا بیس ہی دراصل وہ چیز ہے جس کی بنیاد پر بِٹ کوائن جیسی کوئی بھی ڈجیٹل کرنسی چلتی ہے۔ ڈجیٹل کرنسی کے چاہنے والوں کے لیے یہ کرنسی کی جدید ترین انقلابی قسم ہے، جس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ یہ بینکوں اور ملکی کرنسیوں کو کنارے لگا دے اور موبائل فون رکھنے والے ہر شخص کو آن لائن بینکنگ کی سہولت فراہم کر دے۔

اور اگر آپ کسی ڈجیٹل کرنسی کے شروع شروع کے خریداروں میں شامل ہو جاتے ہیں تو آپ کی قسمت بدل سکتی ہے۔
ڈاکٹر روجا کا کمال یہ ہے کہ انھیں یہ تمام بات سمجھ آ گئی اور انھوں نے اس خیال کو دھڑا دھڑ لوگوں میں فروخت کرنا شروع کر دیا۔
لیکن اس میں کچھ گڑ بڑ ضرور تھی۔

ڈاکٹر روجا کی لندن والی بڑی تقریب کے چار ماہ بعد اکتوبر 2016 کے اوائل میں ملازمتیں دلوانے والی ایک کمپنی نے بلاک چین کے ماہر یورن پیئرک کو بلایا اور انھیں ایک بڑی دلچسپ ملازمت کی پیشکش کی۔
انھیں بتایا گیا کہ بلغاریہ میں کرپٹو کرنسی کی ایک نئی کمپنی کو چیف ٹیکنیکل آفیسر درکار ہے اور اس کے لیے دو لاکھ 50 ہزار پاؤنڈ سالانہ کی پرکشش تنخواہ کے علاوہ گھر اور گاڑی بھی دی جائے گی۔
اس دن کو یاد کرتے ہوئے یورن پیئرک کہتے ہیں کہ ’میں سوچ رہا تھا کہ کمپنی میں میرا کام کیا ہو گا؟

میں نے سوچا کمپنی کو سب سے پہلے بلاک چین چاہیے ہو گا کیونکہ ان کے پاس بلاک چین نہیں ہے۔
میں نے ریکروٹِنگ ایجنٹ سے کہا ’آیا یہ واقعی ایک کرپٹوکرنسی کی کمپنی ہے؟‘

اینجٹ کا جواب تھا کہ میری بات درست ہے۔ یہ ایک کرپٹو کمپنی تھی جو کچھ عرصے سے کام بھی کر رہی تھی، لیکن ان کے پاس بلاک چین نہیں تھا۔ اسی لیے ’ہم چاہتے ہیں کہ آپ کمپنی کو بلاک چین بنا کر دیں۔‘

پیئرک نے پوچھا کہ کمپنی کا نام کیا ہے؟
ایجنٹ کا جواب تھا ’ون کوائن۔‘
یورن پیئرک نے یہ ملازمت نہیں لی۔

جین میک ایڈم کا ’ٹائیکون‘ پیکج
اس واقعے کے چند ماہ پہلے جین میک ایڈم نامی خاتون کو ان کی ایک دوست کا فون آیا تھا جس میں دوست نے جین کو ایک ایسی چیز میں سرمایہ کاری کا بتایا جس میں لاکھوں پاؤنڈ بنائے جا سکتے تھے۔ چانچہ گلاسگو میں اپنے گھر میں بیٹھی ہوئی جین نے کمپیوٹر کھولا اور ’ون کوائن‘ کے لنک پر کِلک کر دیا۔

وہ اگلا ڈیڑھ گھنٹہ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھی مختلف لوگوں کو یہ کہتے سنتی رہیں کہ ون کوائن کتنی زبردست کرنسی ہے اور یہ کس طرح آپ کی قسمت بدل سکتی ہے۔ جین کے بقول ان کی ویب سائٹ پر نطر آنے والے تمام لوگ ’بہت پرجوش اور جذبات سے بھرپور‘ باتیں کر رہے تھے۔

وہ کہہ رہے تھے آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ ’آپ کتنی خوش قسمت ہیں کہ آپ کو یہ آن لائن سیمینار سننے کا موقع ملا ہے۔ آپ ہمیں صحیح وقت پر جوائن کر رہی ہیں اور جلد ہی یہ کرنسی بھی بِٹ کوائن جیسی بڑی کرنسی بن جائے گی۔ بلکہ بِٹ کوائن سے بھی بڑی ڈجیٹل کرنسی۔‘
اس سیمینار میں میزبانی کے فرائض سرانجام دینے والے افراد ڈاکٹر روجا کے شاندار پس منظر کے گُن گا رہے تھے: آکسفرڈ یونیورسٹی، پھر پی ایچ ڈی، اس کے بعد مشہور مینیجمنٹ کمپنی ’میکنزی اینڈ کمپنی‘ کے ساتھ ملازمت، وغیرہ وغیرہ۔

پھر اس کے بعد ویب سائٹ پر مشہور جریدے ’دی اکانومسٹ‘ کی میزبانی میں ہونے والی ایک کانفرنس میں ڈاکٹر روجا کی تقریر دکھائی گئی۔ یہی وہ چیز تھی جس نے جین کو ون کوائن کا قائل کر دیا۔ جین کے بقول انھوں نے سوچا ’واہ کیا بات ہے خواتین کی طاقت کی۔ (ایک خاتون ہونے کے ناطے) مجھے روجا پر فخر محسوں ہوا۔‘
Image captionویب سائٹ پر مشہور جریدے 'دی اکانومسٹ' کی میزبانی میں ہونے والی ایک کانفرنس میں ڈاکٹر روجا کی تقریر دکھائی گئی۔ یہی وہ چیز تھی جس نے جین کو ون کوائن کا قائل کر دیا

جب تک وہ ویبینارختم ہوا، جین نے ون کوائن میں ایک ہزار یورو لگانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ یہ کام آسان تھا۔
آپ نے ہزار یورو کے ون کوائن کے ٹوکن خریدے، ان ٹوکنوں سے جو کوائن حاصل ہوئے وہ آپ کے اکاؤنٹ میں جمع ہو گئے۔ جین کو بتایا گیا کہ ایک دن وہ ان کوائنز کو واپس یورو یا پاؤنڈز میں تبدیل کر سکیں گی۔ جین کو یہ عمل آسان لگا۔ انھوں نے سوچا کہ آیا سرمایہ کاری کے لیے ایک ہزار یورو کی رقم کافی ہو گی یا نہیں؟

اس پر ون کوائن کے پروموٹرز نے کہا کہ اگر آپ واقعی اپنی زندگی بدلنا چاہتی ہیں تو پھر آپ کو ون کوائن کا کوئی بڑا پیکج لینا چاہیے۔ سب سے چھوٹا پیکج 140 یورو کا تھا اور سب سے بڑا ایک لاکھ 18 ہزار یورو کا۔ ایک ہفتے بعد جین نے ’ٹائیکون‘ پیکچ خرید لیا جس کی قیمت پانچ ہزار یورو تھی۔

کچھ ہی عرصے میں جین اپنے دس ہزار یورو ون کوائن میں لگا چکی تھیں اور اپنے دوستوں اور عزیزوں کو بھی قائل کر چکی تھیں کہ وہ اپنے دو لاکھ 50 ہزار یورو بھی لگا دیں۔
اس سرمایہ کاری کے بعد جوں جوں ان کے ون کوائن کی قدر بڑھ رہی تھی وہ ویب سائٹ پر دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہی تھیں۔ کچھ ہی عرصے میں یہ مالیت ایک لاکھ یورو ہو گئی، یعنی ان کے سرمائے میں دس گنا اضافہ ہو چکا تھا۔ انھوں نے سیر سپاٹے اور شاپنگ کے منصوبے بنانا شروع کر دیے۔

لیکن سنہ 2016 کے آخری دنوں میں ایک اجنبی شخص نے انٹرنیٹ پر جین سے رابطہ کیا۔ اس شخص کا دعویٰ تھا کہ وہ ایک اچھا، ہمدرد انسان ہے اور اس نے ون کوائن کے بارے میں خاصی تحقیق کر رکھی ہے۔
اس کے بقول اس کا مقصد صرف ان لوگوں سے رابطہ کرنا ہے جنھوں نے ون کوائن میں سرمایہ کاری کی۔ جین کو اس شخص سے بات کرنے میں ہچکچاہٹ ہوئی لیکن پھر انھوں نے سکائپ کے ذریعے اس سے بات کی۔ ان کی یہ گفگتو جلد ہی دھواں دھار بحث میں تبدیل ہو گئی کیونکہ اس شخص کا اصرار تھا کہ جین ایک بہت بڑے دھوکے کا شکار ہو چکی ہیں۔ اگرچہ جین نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا، لیکن اس گفتگو نے جین کی زندگی کو ایک نیا رخ دے دیا۔

وہ اجنبی شخص ٹموتھی کری تھے جو بِٹ کوائن کے زبردست حامی تھے اور کرپٹو کرنسی کی زور و شور سے وکالت کرتے تھے۔ ٹموتھی کا خیال تھا کہ ون کوائن ڈیجیٹل کرنسی کے خیال کے لیے بدنامی کا باعت بنے گا اور انھوں نے جین کو صاف صاف بتا دیا کہ ون کوائن’ دنیا کا سب سے بڑا فراڈ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ بات ثابت کر سکتے ہیں۔ اس پر جین نے کہا کہ ثابت کر کے دکھائیں۔

اگلے کئی ہفتوں کے دوران ٹموتھی نے جین کو بے شمار معلومات بھیجیں جن میں بتایا گیا تھا کہ کرپٹو کرنسی کام کیسے کرتی ہے۔ کئی مضامین، انٹرنیٹ لِنکس اور یو ٹیوب ویڈیوز کے علاوہ ٹموتھی نے جین کو انٹرنیٹ کے ذریعے ایسے شخص سے متارف کرایا جو خود بلاک چین بنانے کے ماہر ہیں اور یہ بات کہہ چکے تھے کہ ون کوائن کے پاس کوئی بلاک چین موجود نہیں تھا۔

ان تمام معلومات کو سمجھنے میں جین کو تین ماہ لگ گئے، لیکن ان کا فائدہ یہ ہوا کہ جین کے ذہن میں سوال اٹھنا شروع ہو گئے۔ انھوں نے اپنے ون کوائن گروپ میں شامل لوگوں سے پوچھنا شروع کر دیا کہ آیا ون کوائن کے پاس بلاک چین ہے یا نہیں۔ پہلے پہل تو جین کو یہ کہا گیا کہ انھیں یہ بات جاننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، لیکن جب انھوں نے اصرار کیا تو اپریل 2017 میں آخر کار انہیں سچ معلوم ہو گیا۔
ان کے نام کسی نے جو پیغام ریکارڈ کرایا تھا اس میں کہا گیا کہ ’جین ۔ ۔ ون کوائن والے اس قسم کی معلومات کو منظر عام پر نہیں لانا چاہتے جس کی وجہ یہ ہے کہ اس مقام پر کوئی گڑ بڑ نہ ہو جائے جہاں یہ بلاک چین رکھا ہوا ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ ون کوائن کی ایپ کے لیے بلاک چین کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یوں ہماری بلاک چین ٹیکنالوجی دراصل ایک ایس کیو ایل سرور کی شکل میں ہے جس کے اندر ڈیٹا بیس موجود ہے۔‘

لیکن اس وقت تک جین کو، ٹموتھی کری اور پیئرک کی مہربانی سے، یہ بات معلوم ہو چکی تھی کہ اکیلے ایس کیو ایل ڈیٹا بیس سے کوئی بھی کرپٹو کرنسی نہیں چل سکتی۔ بلاک چین کے برعکس مینیجر جب چاہے اس قسم کے ڈیٹا بیس میں تبدیلی کر سکتا ہے۔
’میں نے سوچا، کیا؟؟؟؟؟؟
’میری ٹانگیں سُن ہو گئیں اور میں دھڑام سے فرش پر گر گئی۔‘
اس کا مطلب یہ تھا کہ جین کو اب سمجھ آ گئی تھی کہ ان کے ون کوائن کی قدر میں جو اضافہ ہو رہا تھا وہ باکل بے معنی تھا۔ ون کوائن کا کوئی اہلکار کہیں بیٹھا ہوا محض ہندسے بدل رہا تھا۔ لیکن اس وقت تک جین، ان کے گھر والے اور دوست اپنے تقریباً ڈھائی لاکھ پاؤنڈ ون کوائن میں جھونک چکے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ شاید ان کی مالی مشکلات ختم ہو جائیں گی لیکن اب تو ان کی جمع پونجی غرق ہوتی نظر آ رہی تھی۔

ڈاکٹر روجا منظر سے غائب

کے مابین روابط تھے اور جب ڈاکٹر روجا منظر عام سے غائب ہوئیں تو انھوں نے ون کوائن کے معاملات کو دیکھنا شروع کیا۔ کونسٹینٹن اگناتوو کے شمالی یورپ کے منظم جرائم پیشہ گروہوں کے ساتھ بھی روابط تھے۔

چھ مارچ 2019 کو جب ڈاکٹر روجا کے بھائی کونسٹینٹن اگناتوو لاس اینجلس کے ایئرپورٹ پر تھے جہاں سے وہ بلغاریہ واپس آنے کے لیے فلائٹ کا انتظار کر رہے تھے تو ایف بی آئی نے انھیں گرفتار کر لیا اور ان پر ون کوائن کے حوالے سے فراڈ کا مقدمہ دائر کیا۔

تقریباً اسی وقت امریکی محکمہ انصاف نے ڈاکٹر روجا کی غیر موجودگی میں ان کے خلاف منی لانڈرنگ، فراڈ کے الزامات کے تحت مقدمہ بھی درج کر لیا، لیکن اس سب کے باوجود ون کوائن کا کام چلتا رہا اور لوگ اس میں پیسہ لگاتے رہے۔

جب ہم نے ڈاکٹر روجا کے خلاف مقدمہ درج ہونے کے ایک ماہ بعد صوفیہ کا دورہ کیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ ڈاکٹر روجا کے محل نما مکان کو تالے لگے ہوئے ہیں لیکن صوفیہ میں ون کوائن کا دفتر کھلا تھا اور وہاں کام جاری تھا۔

فراڈ کی واضح نشانیوں کے باوجود اتنے زیادہ لوگ ون کوائن پر اعتبار کیوں کرتے رہے؟

ون کوائن کے سرمایہ کاروں نے ہمیں بتایا کہ ابتدا میں ان کو یہ ڈر تھا کہ وہ ایک بڑے منافع سے محروم ہو جائیں گے۔ انھیں بتایا جاتا تھا کہ ون کوائن بٹ کوائن کے بعد سب سے بڑی چیز ہے اور جب سرمایہ کار بٹ کوائن سے منسلک لوگوں کی تقدیر بدلنے کی کہانیں سننتے تھے تو انھیں ڈر لگتا تھا کہ وہ کہیں ون کوائن کےذریعے امیر ہونے کا موقع ہی ضائع نہ کر دیں۔

کچھ لوگ ڈاکٹر روجا کی شخصیت کی وجہ سے ون کوائن سے جڑے رہے۔ ان سرمایہ کاروں کو کرپٹو کرنسی کی ٹیکنالوجی کا کچھ معلوم نہیں ہو گا لیکن وہ ڈاکٹر روجا کو اکانومسٹ کانفرنس میں تقریریں کرتے دیکھا تھا۔

ان کو ڈاکٹر روجا کی اعلی تعلیم یافتہ ہونے کی یقین دہانی کے لیے ان کی ڈگریاں دکھائی گئیں اور فوربز میگزین میں چھپنے والی تصاویر کو بطور شہادت پیش کیا کہ وہ ایسی کامیاب کاروباری شخصیت ہیں جن کے ساتھ جڑے رہنے سے ان کی قسمت بھی بدل سکتی ہے۔

جہاں تک ڈاکٹر روجا کی ڈگریوں کا تعلق ہے وہ تو اصلی ہیں لیکن فوربز کے سرورق پر چھپنی والی تصویر اصلی نہیں تھی۔ حقیقت میں ان کی تصویر فوربز کے اندر والے صحفے پر شائع ہوئی تھی لیکن اسے اس انداز میں شائع کیا گیا کہ فرنٹ کور کو ہٹا دیں تو وہ تصویر حقیقت میں سرورق نظر آتی ہے۔

ون کوائن کے ساتھ جڑے رہنے کی وجہ صرف امیر ہونے کے خواب ہی نہیں تھے۔
جب جین میک ایڈم نے ون کوائن میں سرمایہ کاری شروع کی تو انھیں ہمیشہ یہ بتایا گیا کہ اب وہ ون کوائن فیملی کی رکن ہیں اور انھیں ون کوائن کے بارے میں منفی باتیں پھیلانے والوں کی باتوں پر دھیان دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
انھیں وٹس ایپ گروپ کا ممبر بنایا گیا جہاں انھیں اپنی لیڈر کی طرف سے معلومات ملتی تھیں جو وہ بلغاریہ کے دفتر میں بیٹھ کر اپنے 'خاندان' میں پھیلاتی تھی۔

جین میک ایڈم کہتی ہیں کہ انھیں بتایا جاتا تھا کہ بٹ کوائنر والے دراصل ون کوائن سے نفرت کرتے ہیں۔ ان کی باتیں نہ سنیں، نہ ہی گوگل کی باتیں سنیں۔ وہ کہتی تھیں کہ اگر آپ کے ذہن میں ون کوائن کے بارے شکوک و شبہات ہیں تو پھر آپ کو ون کوائن فیملی کا ممبر ہونے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔

لندن سکول آف اکنامکس کے پروفیسر ایلین بارکر، جنھوں نے سائنٹالوجسٹ اور مونیز جیسے گروہوں کو سمجھنے میں برسوں صرف کیے ہیں، کہتے ہیں کہ ون کوائن بھی ایک مسلک یا مذہبی گروہ کی ماند تھا جس میں شامل لوگوں کو یہ باور کرایا جاتا تھا کہ وہ کسی بڑی تبدیلی کی مہم کا حصہ ہیں جو دنیا کو بدلنے جا رہی ہے۔
اور جب لوگ ون کوائن کے گروپ میں شامل ہو جاتے تو کسی قسم کی

شہادتیں بھی انھیں اس سے علیحدہ کرنے کے لیے ناکافی تھیں۔
پروفیسر ایلین بارکر کہتی ہیں کہ ایسے گروہ میں جب پیشنگوئی غلط بھی ثابت ہو جائے تو اس کو ماننے والوں کا اس پر یقین اور پختہ ہو جاتا ہے اور خاص طور پر جب آپ نے اس میں پیسے کے علاوہ اپنی شہرت، ذہانت بھی صرف کی ہو تو آپ سوچتے ہیں کہ تھوڑا سا اور انتظار کر لینا چاہیے۔

ایک مثالی دنیا میں یہ امید کی جاتی ہے کہ حکومتی ادارے یا ریگولیٹرز صارفین کو ون کوائن جیسی دھوکہ دہی سے محفوظ رکھیں گے لیکن پوری دنیا میں حکام بہت سست روی سے اس کی طرف آتے ہیں اور خاص طور پر کرپٹو کرنسی کی طرف جو ایک بہت نئی چیز ہے۔

برطانیہ کی فنانشل کنڈکٹ اتھارٹی (ایف سی اے) کی ذمہ داری ہے کہ وہ برطانیہ کے صارفین کو ایسے فراڈ سے خبردار کرے۔ ایف سی اے نے سنہ 2016 میں ون کوائن کے بارے میں اپنی ویب سائٹ پر ایک انتباہ جاری کیا تھا کہ ون کوائن میں سرمایہ کاری سے ہوشیار رہیں۔ لیکن اس انتباہ کو ایک سال بعد اسے وہاں سے ہٹا لیا گیا۔
ایف سی اے کی طرف سے ون کوائن کے بارے میں اپنی وارننگ کو واپس لینے کو ون کوائن کے حامیوں نے اس کے درست اور قانونی ہونے کی شہادت کے طور پر پیش کیا۔

جب ایف سی اے نے اپنی وارننگ کو ویب سائٹ سے ہٹا لیا تو برطانیہ میں ون کوائن کی کئی تقریبات کا انعقاد ہوا، لوگ اس میں سرمایہ کاری کرتے رہے اور جب بی بی سی نے ایف سی اے سے اس کے بارے میں پوچھا تو وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا۔

یہ حقیقت کہ ون کوائن ایک عالمی آپریشن تھا، یہ بھی حکام کے لیے پریشانی کا سبب تھا۔ لندن کی پولیس نے دو سال تک ون کوائن کے بارے میں تحقیق کرنے کے بعد وہ تحقیقات ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
لندن پولیس نے اپنے بیان میں کہا کہ چونکہ ون کوائن سے متعلق کمپنیاں اور افراد برطانیہ کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں اس لیے ہم برطانیہ میں ان کے کسی اثاثے کی نشاندہی نہیں کر سکتے جس سے متاثرین کے نقصان کو پورا کیا جا سکے۔

سٹی آف لندن پولیس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کسی فرد یا افراد کے خلاف مجرمانہ کارروائی میں ملوث ہونے پر قانونی کارروائی شروع کرنے کے لیے شواہد ناکافی تھے۔‘

پولیس نے مزید کہا کہ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ انھیں ون کوائن کے بارے میں کوئی تحفظات نہیں ہیں۔ ’لندن سٹی پولیس قانون نافذ کرنے والی تمام غیر ملکی ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کرتی رہی ہے اور کرتی رہے گی اور اگر کسی شخص کو کوئی شکایت ہے تو وہ ایکشن فراڈ آن لائن کے ساتھ رابطہ کرے۔‘

https://twitter.com/x/status/1197160014722600960
یوگنڈا کا المیہ

یوگنڈا کے علاقے نتانگامو ریجن میں زیادہ لوگوں کی آمدن کا ذریعہ کیلے، کساوا، میٹھے آلو، مٹر اور مونگ پھلی کی پیداوار ہے۔
22 سالہ ڈینیئل لائنڈ ہارٹ اسی علاقے کے رہائشی تھے۔ وہ ون کوائن خریدنے کے لیے سات لاکھ شلنگ اکٹھی کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
انھوں نے چار لاکھ شلنگ تو خود اکٹھے کر لیے تھے مگر ون کوائن میں پہلی سرمایہ کاری کے لیے مزید تین لاکھ شلینگ چاہیے تھے۔ وہ اپنے گاؤں گئے اور اپنے بھائی کو اپنا کل اثاثہ، تین بھیڑیں، فروخت کرنے پر رضامند کر لیا۔

اب وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔
ڈینیئل یوگنڈا کے ہزاروں لوگوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے ڈاکٹر روجا کی جعلی کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کی۔
جب یورپ میں لوگوں کی ون کوائن میں دلچسپی کم ہو گئی تو افریقہ، مشرق وسطیٰ اور انڈیا ون کوائن کے لیے بہت اہم ہو گئے اور وہاں سے سرمایہ کاری ہونے لگی۔

ڈینیئل نے مجھے اور جارجیا کو پروڈنس نامی نرس سے ملاقات کرائی جنھوں نے سب سے پہلے ڈینیئل کو ون کوائن سے متعارف کروایا تھا۔ ڈینیئل اور پروڈنس کی دوستی اب بھی برقرار ہے، حالانکہ ان کو معلوم ہو چکا ہے کہ ون کوائن ایک فراڈ تھا۔

پروڈنس کپمالہ میں ایک نرس ہیں۔ انھوں نے سوچا کہ وہ ون کوائن فروخت کر کے دولت کما سکتی ہیں اور انھوں نے مزید لوگوں کو ون کوائن خریدنے پر قائل کرنا شروع کر دیا۔

ون کوائن کے ایک پروموٹر نے پروڈنس کو ایک اچھی سے کار خرید کر دی تا کہ وہ لوگوں کو متاثر کر سکیں۔ ان کو ہدایت کی جاتی تھی کہ وہ اپنی کار میں ایسے وقت لوگوں کے پاس جائیں جب وہ فصلیں کاشت کر رہے ہوں اور ان کے پاس پیسے ہوں۔
پروڈنس کہتی ہیں کہ دیہات میں لوگ شہروں میں بسنے والے لوگوں پر اعتبار کرتے ہیں۔

کئی لوگوں نے ون کوائن کا پیکج خریدنے کے لیے اپنے مال مویشی بیچے، اپنی زمین بیچی اور کچھ نے اپنے گھر بھی بیچ دیے۔ اب ان لوگوں میں سے کئی کے بچے سکول نہیں جا پا رہے ہیں جبکہ کچھ کے پاس رہنے کے لیے کوئی جگہ بھی نہیں بچی۔

جب پروڈنس سے لوگ پوچھتے ہیں کہ ہمیں منافع کب ملے گا تو وہ لوگوں کو صبر کی تلقین کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں لوگوں کو سچ نہیں بتا سکتی اور میں تو اب چھپ کے رہتی ہوں۔
’جن لوگوں نے میرے کہنے پر ون کوائن میں سرمایہ کاری کی، اگر میں ان کے سامنے آ گئی تو وہ مجھے قتل بھی کر سکتے ہیں۔‘
پروڈنس نے اب لوگوں کو ون کوائن بیچنا ختم کر دیا ہے لیکن کمپالا میں اب بھی کچھ لوگ ون کوائن فروخت کر رہے ہیں۔ کمپالا کا ایک چرچ بھی ون کوائن کو بیچنے میں مصروف ہے۔

بشپ فریڈ کی ایسی ویڈیو موجود ہیں جن میں وہ دوران عبادت ون کوائن کی مشہوری کرتے نظر آتے ہیں۔ بشب فریڈ یوگنڈا میں ون کوائن کے سب سے بڑے پروموٹر ہیں لیکن اب انھوں نے کم از کم چرچ میں اس کی تشہیر کرنا ختم کر دی ہے۔


_109781635_konstantin976.jpg


ڈینیئل اور ان کی والدہ

ڈینیئل ہمیں اپنی والدہ سے ملوانے لے گئے جنھوں نے اپنے بیٹے کے کہنے پر ساری زندگی کی جمع پونجی، یعنی تین ہزار ڈالر ون کوائن پیکج پر خرچ کر دیے تھے۔
ڈینیئل نے اپنی ماں کو نہیں بتایا ہے کہ ان کی رقم ڈوب چکی ہے۔ جب ڈیینئل کی والدہ نے ہمیں دیکھا تو کہنے لگیں انھیں ایسا لگا کہ شاید ان کی دولت واپس آنے لگی ہے۔ انھوں نے ہمیں کہا 'جب پیسے آپ کے ہوں اور کوئی لے جائے تو بہت دکھ ہوتا ہے۔‘

تم غائب کہاں ہو، ڈاکٹر روجا؟

جب ہم نے 2018 میں مسنگ کرپٹو کوئین کے پوڈکاسٹ پر کام کرنا شروع کیا تو کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ ڈاکٹر روجا کہاں ہیں۔ رواں سال کے شروع میں امریکی حکام نے انکشاف کیا کہ ڈاکٹر روجا کو 25 اکتوبر 2017 کو ایتھنز میں دیکھا گیا ہے۔ اس کے باوجود اس سوال کا جواب نہیں ملا کہ وہ ایتھنز کے بعد کہاں گئیں۔

ملٹی لیول مارکیٹنگ کے بادشاہ اگور البرٹس نے ہمیں بتایا کہ انھوں نے سنا ہے کہ ڈاکٹر روجا کے پاس یوکرین اور روس کا پاسپورٹ بھی ہے اور وہ روس اور دبئی کے درمیان سفر کرتی رہتی ہیں۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ شاید وہ بلغاریہ کے بااثر لوگوں کی حفاظت میں ہیں۔ جبکہ کچھ لوگوں کے خیال میں وہ پلاسٹک سرجری کروا کے باآسانی خود کو چھپا سکتی ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ شاید ڈاکٹر روجا کی موت ہو چکی ہے۔

جب ہم نے ایک تجربہ کار پرائیویٹ تفتیش کار ایلن میکلین سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ کسی شخص کو تلاش کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ یہ جانیں کہ وہ شخص کہاں پیدا ہوا، کہاں پلا بڑھا،اور امیر ہونے سے پہلے اس کا طرز زندگی کیا تھا۔


_109781802_shutterstock_editorial_5622.jpg


پھر یہ جاننے کی کوشش کریں کہ دولت مند ہونے کے بعد وہ کہاں جانا پسند کرتا تھا، پرتعیش کشتیاں کہاں سے خریدتا تھا۔ پرائیویٹ تفتیش کار سے ملاقات کے چند ہفتوں بعد انھوں ایک بار پھر ہم سے رابطہ کیا اور کچھ انتہائی دلچسپ معلومات کا تبادلہ کیا۔
ایلن میکلین کے کچھ دوستوں کو ایتھنز سے تصدیق ہوئی کہ ڈاکٹر روجا کو ایتھنز کے ریسٹورنٹ میں ڈنر کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
جب ہم نے ایتھنز کے ریسٹورانٹ کے سٹاف سے ڈاکٹر روجا کی وہاں آمد کے بارے میں بات کی تو انھوں نے تصدیق کی کہ انھوں نے اس خاتون کو دیکھا ہے۔

ایک اور اشارہ اس وقت ملا جب ہم نے بخارسٹ میں ون کوائن کے مقابلہ حسن میں شرکت کی۔ وہ لوگ مہنگی شراب پی رہے تھے اور ہمیں اس انداز میں گھور رہے تھے جس سے ہم پریشانی لاحق ہو گئی۔
ہم نے یہ سب کچھ برداشت کیا اور مقابلہ حسن کے برطانوی شرکا کی حمایت کی۔ لیکن ہم نے بعد میں سنا کہ ڈاکٹر روجا تو اسی مقابلے کی تقریب میں موجود تھیں اور اسی کمرے میں تھیں جہاں ہم تھے۔ بس فرق یہ ہے کہ پلاسٹک سرجری کے بعد انھیں پہچاننا بہت مشکل ہو چکا ہے۔

ڈاکٹر روجا کو یونان یا رومانیہ سے امریکہ کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ صحیح ہے کہ وہ ان ممالک میں موجود تھیں تو شاید انھوں نے جعلی شناخت بھی حاصل کر لی ہو۔

ہم نے ایلین میکلین کے بتائے ہوئے گُر کے مطابق ڈاکٹر روجا کو وہاں ڈھونڈنے کا فیصلہ جہاں انھوں نے ماضی میں وقت گزارا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ انھوں نے جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں کافی وقت گزارا ہے اور ان کی شادی بھی جرمنی میں ایک وکیل سے ہوئی تھی۔
ہم ڈاکٹر روجا کی تصاویر اور مائیکرو فون لے کر فرینکفرٹ گئے اور لوگوں سے ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ہم نے ایک وکیل سے بھی فون پر بات کی جو شاید ان کا شوہر ہے یا تھا لیکن وہ ہم سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔

کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم ڈاکٹر روجا کے قریب پہنچ گئے ہیں یا وہ یورپ کے دل یا اس کے مرکز میں کہیں مقیم ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم۔
فرینکفرٹ شاید ان شہروں میں سے ایک ہے جہاں وہ جاتی ہیں۔
ہمیں کچھ روز بعد ایک فون کال موصول ہوئی۔ ہم اس کالر کی شناخت ظاہر نہیں کر سکتے ۔ اس نے ہمیں بتایا ہے کہ فرینکفرٹ یقیناً ان مقامات میں سے ایک ہے جہاں ڈاکٹر روجا بہت وقت گزارتی ہیں۔ لیکن ہمیں ابھی وہ گھر ڈھونڈنا ہے جہاں وہ رہتی ہیں۔ ہمارے ذرائع نے کہا 'تم اسے ڈھونڈ لو گے، مزید کوشش کرو۔'
کرپٹو کوئین کو معلوم ہو گا کہ ہم اسے ڈھونڈتے پھر رہے ہیں اور وہ ہم پر ہنستی ہوں گی۔


جب پانچ نومبر 2019 کو ہمارے پوڈ کاسٹ کی پہلی قسط نشر ہوئی، اسی روز ڈاکٹر روجا کے بھائی کونسٹینٹن کو امریکہ کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا جہاں انھوں نے ایک وکیل کے خلاف گواہی دی جس پر الزام ہے کہ اس نے 400 ملین ڈالر کی منی لانڈرنگ کی جو ون کوائن نے امریکہ سے بنائے تھے۔
ڈاکٹر روجا کے بھائی نے کئی الزامات کو تسلیم کر لیا اور عدالت کو ایسا تاثر دیا کہ ان کی بہن نے انھیں اسی طرح دھوکہ دیا جس طرح انھوں نے دوسرے سرمایہ کاروں کو دھوکہ دیا۔
ڈاکٹر روجا کے بھائی نے بتایا کہ ان کی بہن کے پاس 'بہت بڑا پاسپورٹ'
ہے۔


_109781583_meetmylittledaughter2_976.jpg


ون کوائن نے ہمیشہ کسی غلط کام کی تردید کی ہے۔ ون کوائن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ون کوائن کرپٹو کرنسی کی تعریف کے معیارات پر پورا اترتا ہے۔‘

ون کوائن نے کہا کہ ’ہمارے شراکت دار، پوری دنیا میں جہاں بھی ہماری پروڈکٹ کے بارے میں غلط بیانی کی جاری ہے، اس کا مقابلہ کر رہے ہیں۔‘ ون کوائن نے جس انداز میں لوگوں کو دھوکہ دیا ہے یہ اتنا انوکھا نہیں بلکہ انھوں نے اسے ڈیجیٹل تڑکا لگایا ہے۔
لیکن ون کوائن کا فراڈ ٹیکنالوجی کے ایک تاریک پہلو سے پردہ اٹھاتا ہے۔ ٹیکنالوجی یقیناً ان لوگوں کے نئے مواقع پیدا کرتی ہے جو اسے سمجھتے ہیں لیکن ٹیکنالوجی ایسے افراد کے استحصال کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے جو اسے سمجھتے نہیں ہیں۔

ڈاکٹر روجا نے معاشرے کے ان ہی کمزرو پہلوؤں سے فائدہ اٹھایا۔ انھیں معلوم تھا کہ دنیا میں ایسے مایوس، لالچی یا الجھے ہوئے لوگ موجود ہوں گے جو ان کے بہکاوے میں آ کر ون کوائن میں اپنی جمع پونجی جھونک دیں گے۔

ڈاکٹر روجا کو یہ بھی پتہ تھا کہ انفارمیشن کے اس دور میں جھوٹ اور سچ کو علیحدہ کرنا بہت مشکل ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر روجا کو یہ بھی معلوم تھا کہ ون کوائن میں چھپے فراڈ سے عوام کو بچانے والے قانون ساز ادارے، پولیس، اور میڈیا کو یہ سمجھنے میں بہت دیر لگ جائے گی۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کرپٹو کوین


NANI AMMA 420 crypto coin nahi balkay crupto queen hay?
 

Allama G

Minister (2k+ posts)



روجا اگناتووا کہیں مریم نواز کی سکھیوں میں سے تو نہیں ؟؟؟

کرتوت تو دونوں کے ایک ہی ہیں
[/QUOTE]

DAK sb bht acha aur informative article hai. Aise fuzul logon pe baat kr k logon ki attention divert hogi.
 

Dr Adam

President (40k+ posts)

DAK sb bht acha aur informative article hai. Aise fuzul logon pe baat kr k logon ki attention divert hogi.
[/QUOTE]


Mein nay perha hai sara. Aapki baat say ittefaq hai.
Bus yaar fil badeeh apni haramtopee ki ragg pharaq uthi thi. Aainda khayaal rkahknay ki koshish karoun gaa.
Thank you for the reminder. Appreciate it.
 

Back
Top