
جیو نیوز کا کہنا ہے کہ کراچی کے شہری جو کھابے کھانے کے شوقین ہیں وہ فوڈ اسٹریٹس اور ہائی وے پر موجود ہوٹلوں میں جا کر مٹن کڑاہی پر ہاتھ صاف کرتے ہیں مگر درحقیقت یہ ہوٹلوں والے ان گاہکوں کی جیبوں پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں۔
خبررساں ادارے کا دعویٰ ہے کہ ان ہوٹلوں میں آنے والوں کو مٹن کڑاہی میں بکرے کی بجائے "کٹے" (بھینس کے بچھڑے) کا گوشت کھلایا جا رہا ہے جو کہ بکرے کی نسبت کافی سستا ملتا ہے اور اسے پکا کر مہنگے داموں بکرے کی قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے۔
اب ذرائع ابلاغ کی جانب سے یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ بھینس کا سارا دودھ نہ پی جائیں اس لیے کراچی میں ہر ہفتے بھینسوں کے 14 ہزار سے زائد کٹے ذبح کرکے فروخت کیا جا رہا ہے۔ ڈیری فارمر اورغیرقانونی مذبحہ خانوں کو پولیس کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ کراچی کے ڈیری فارمرز دودھ بچانے اور آمدنی بڑھانے کیلئے طویل عرصے سے بھینسوں کے نومولود بچھڑوں کو مارتے آرہے ہیں۔
نجی چینل کا کہنا ہے کہ پہلے ان بچھڑوں کو مار کر پھینک دیا جاتا تھا لیکن شہریوں میں باہر کھانے کا رجحان بڑھا تو غیرقانونی منافع کمانے والا ایک اور مافیا سر اٹھانے لگا۔ یہ مافیا ہر روز تقریباً 2 ہزار کٹے ذبح کرکے ان کا گوشت شہر کی مختلف فوڈ اسٹریٹس اور ہائی وے پر قائم ہوٹلوں کو فروخت کردیتا ہے۔
ان ہوٹلوں پر مٹن کڑاہی، مٹن کباب اور مٹن بریانی کے نام پر بہت زیادہ قیمت پر بیچا جا رہا ہے۔ کٹوں کی نسل کشی اور ان کے گوشت کی فروخت میں متعلقہ حکام اور پولیس بھی ملوث ہے۔ جیو نیوز کا دعویٰ ہے کہ غیر قانونی مذبح خانے سکھن، گلشن حدید، گڈاپ، سہراب گوٹھ، پاک کالونی، لیاری، جہان آباد، شاہراہ فیصل، گلستان جوہر، گلشن اقبال اور دیگر علاقوں میں قائم ہیں جو وقت کے ساتھ ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں۔
ان نومولود کٹوں کو باڑوں سے ایک ہزار سے لیکر 15 سو روپے میں خرید کر 2 ہزار منافع کے ساتھ ان مذبح خانوں کو بیچ دیا جاتا ہے جہاں سے ان ہوٹلوں کو گوشت پہنچایا جاتا ہے اور یہاں اس گوشت کی کڑاہی، کباب، تکہ، چانپ، روسٹ و دیگر پکوان بنا کر اسے 15سو سے 2 ہزار روپے فی کلو میں فروخت کیا جاتا ہے۔
- Featured Thumbs
- https://i.ibb.co/tPHThdV/mutt.jpg