Afaq Chaudhry
Chief Minister (5k+ posts)
…محمد طاہر…
سچائی کو ئی خود کلامی تو نہیں ۔ یہ خود سے مکالمے کی کوئی حیل وحجت تو نہیں۔
خلیل جبران نے سچ کہا :
’’ سچ دو افراد کا محتاج ہے۔
ایک وہ، جو اس کا اظہار کرے۔
اور دوسرا وہ جو اسے سمجھے۔‘‘
کراچی کے سچ نے بارِ اظہار تو بار بار اٹھایا۔ مگر اِسے سمجھنے والا ’’دوسرا ‘‘ نہیں ملا۔کیا میاں نواز شریف کی حکومت وہ ’’دوسری ‘‘بنے گی جو سچ سمجھنے کے لیے تیار ہو۔ یہ کتابِ کراچی کی ایک داستان ہے۔ کئی داستانوں کی ایک داستان ۔
وہ ایک عامل صحافی ہے۔ ہمہ دم چوکس اور فعال۔ طبقۂ اشرافیہ میں اُس کی رسائی ہے۔ اور اقتدار کی راہداریوں میں بھی۔ اپنے وسیع حلقۂ احباب میں سے ایک روز اُس نے ایک دوست کو نہ پایا ۔ بہت جلد اُسے معلوم ہوا کہ وہ اغوا ہوچکا ۔ اور دوکروڑ روپے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ وہ حرکت اور اچنبھے میں ایک ساتھ آیا ۔ تاوان کی رقم کا مطالبہ وزیرستان سے ایک فون کے ذریعے ہوتا ۔ اور اُسے کوئی اندیشہ نہ ہوتا۔ بہت سے دیگر باخبر افراد کی طرح وہ بھی اُن میں سے ایک تھا جسے یہ معلوم تھا کہ بعض پشتو بولنے والے جرائم پیشہ لوگوںکو طالبان کے ساتھ کراچی میں خلط ملط کردیا گیا ہے ۔ کراچی میں طالبان نہیں ایک مخصوص لسانی شناخت کے حامل افراد گرفت میں آتے اور چھوٹتے رہتے ہیں ۔
جرائم کے وقائع نگار وں کے ساتھ یہ کراچی پولیس کے پانچ چھ افسران ہیں جو اُنہیں ایک مخصوص رنگ دیتے اورخورسند رہتے ہیں ۔ عامل صحافی یہ بھی جانتا ہے کہ کراچی میں فرقہ وارانہ قتل وغارت گری کا کھاتہ طالبان کے وجود میں آنے سے پہلے کا کُھلا ہوا ہے ۔ یہ دوطرفہ معاملہ ہے ہرگز یکطرفہ نہیں ۔ جنرل مشرف کے دور میں ایک مخصوص ذہن کے ساتھ افسران کی سرکاری تعیناتی نے اِس معاملے کو نشروتشہیر میں یکطرفہ بنا دیا ۔ اور اب ایک ہی فرقے کے مقتولوں کا چرچا رہتا ہے ۔ کراچی میں ایک سیاسی قوت کو بھی یہی فضا سازگار ہے۔ اور ذرائع ابلاغ اُس کی گرفت میں ہیں۔ فرقہ وارانہ قتل وغارت گری دونوں طرف مخصوص گروہوں کے ذریعے ہوتی ہے جنہیں اپنی بناوٹ کے باعث جماعتوں کا نام ہر گز نہیں دیا جاسکتا۔ اِن دوگروہوں میں سے ایک ظاہر ہے طالبان کے ساتھ راہ ورسم رکھتا ہے ۔ مگر یہ اپنے منصوبوں اور فیصلوں میں نہ کسی کے زیراثر ہیں اور نہ کسی کے پابند رہتے ہیں ۔ ذراسی کوشش سے کوئی بھی آدمی یہ جان اور جانچ سکتا ہے کہ یہ ایک تدبیراتی قسم کا ڈھیلا ڈھالا سا رابطہ ہے جس میں دونوں ایک دوسرے سے اپنی عملی ضرورتیں پوری کرتے ہیں اور بس۔۔۔ قتل وغارت گری کی یہ قسم بھی طالبان کے کھاتے میں شمار ہوتی ہے۔ اور صرف یہی قسم کراچی پولیس کے افسران کو موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ کراچی کے ہر طرح کے جرائم کو اپنی اپنی سیاسی ضرورتوں کی خاطر طالبان سے منسوب کر دیں۔ چنانچہ عامل صحافی مسلسل ایک ہی نمبر اور ایک ہی مقام (وزیرستان) سے ہونے والے رابطے کے باوجود قدرے مشکوک تھا۔ وہ ہاتھ پیر مار رہا تھا ۔ اِدھر اُدھر شاید کوئی سبیل نکل آئے ۔ کوئی اشارہ مل جائے۔ ایسی ہی کاوشوں کے درمیان ایک دوپہر وہ سندھ کی سب سے طاقتور سیاسی شخصیت کے ساتھ اپنے کسی پیشہ ورانہ فریضے کو پورا کرنے کے لیے نشست آرا تھا۔ یہاں ایک پولیس افسر بھی موجود تھا ۔ اُن پولیس افسروں میں سے ایک جو حکومتوں اور طاقت ور ریاستی اداروں کی سرپرستی میں ہر نوع کے جرائم کرتے ہیں اور ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں ۔ کسی بھی نوع کی دہشت گردی ہو ، اُس کے ذمہ دار خود ہی پیدا کر لیتے ہیں ۔ کمزور مقدمہ اور اکثر غیر متعلقہ مجرموں کو پیش کرنے کے باعث وہ عدالتوں سے کبھی سزا نہیں پاتے۔ اور پھر حکمران چیختے ہیں عدالتیں مجرموں کو چھوڑ دیتی ہیں ۔ عدالتیں صرف متعلقہ جرم پر ملزم کو جانچتی ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ وہ کب کون سے جرم میں ملوث رہا۔ عدالت کو صرف اِس سے سروکار ہوتا ہے کہ ملزم کو جس جرم میں پیش کیا گیا ،کیا شہادتیں اُسے اِ س کا ذمہ دار ٹھیراتی ہیں ۔ یہ وہ پولیس افسران ہیں جو بیک وقت سیاسی حکومتوں ،عدالتوں اور شہریوں کے ساتھ کھیلتے ہیں ۔ کسی بھی قانون پسند معاشرے میں یہ افسران اپنے مناصب پر نہیں جیلوں میں نظر آتے۔فعال صحافی نے سندھ کی طاقت ور حکومتی شخصیت سے اپنے دوست کے اغوا کا ذکر کیا اور مدد چاہی۔ جیسے ہی اُس نے اپنے اغواشدہ دوست کا ذکر کیا متعلقہ پولیس افسر کے کان کھڑے ہوگئے ۔ وہ بہت غور سے ساری بات سنتا رہا۔ ابھی وہ حکومتی شخصیت سے مل کرباہر نکلا تھا کہ پولیس افسر بھی اُس کے پاس چلا آیا۔ فوراً ہی پوچھا وہ اُسے کیسے جانتا ہے ؟ اور اُس کے اغوا کے معاملے میں کیا کیا کوششیں کر رہا ہے۔ صحافی نے پولیس افسر کو کہا کہ وہ اپنے دوست کے لیے آخری حد تک کوششیں جاری رکھے گا۔ عامل صحافی نے پولیس افسر کے مشکوک کردار اورحالیہ ردِعمل پر کچھ اندازے لگا لیے تھے۔ اُس نے یہ بھی کہا کہ اُن کی مدد کچھ ریاستی ادارے کر رہے ہیں اور وہ کامیابی کے بہت قریب ہیں ۔
پولیس افسر نے عامل صحافی کوکہا کہ وہ خود بھی اِس کی تحقیقات کررہا ہے اور اُسے چاہیے کہ وہ معاملے کو زیادہ نہ پھیلائے ۔ بہت جلد اُس کے دوست کو وہ بازیاب کرانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ پولیس افسر اصرار کرتا رہا کہ اِ س معاملے پر وہ ریاستی اداروں کو ملوث نہ کریں۔ عامل صحافی اپنے دوست کے گھر پہنچا اور نہایت یقین سے کہا کہ اب بہت جلد اُس کا دوست گھر آجائے گا۔ اُسے کوئی زک نہ پہنچے گی اور اگر اُس کا انداز درست ہے تو وزیرستان سے کوئی نیا رابطہ بھی اہلِ خانہ سے نہ کیا جائے گا۔ آگے سب کچھ ایسے ہی ہوا ۔ اگلے ہی دن صبح سویرے عامل صحافی کا دوست ایک سڑک پر زندہ چھوڑ دیا گیا ۔ پولیس افسر کا خیال تھا کہ عامل صحافی اُس کا شکریہ ادا کرنے لیے اُس سے رابطہ کرے گا۔ مگر اُس نے ایک زبردست تاثر دیا ۔ اور پولیس افسر سے کوئی رابطہ نہ کیا ۔ احساسِ جرم کے مارے افسر نے بالآخر عامل صحافی کے ایک اور صحافی دوست سے رابطہ کیا جو ایک نیوز چینل سے وابستہ ہے اور اُس کے دوست کی شکایت کی کہ اُس نے اپنے دوست کی زندہ اور بغیر تاوان بازیابی پر اُس کا شکریہ تک ادا نہیں کیا ۔عامل صحافی نے اپنے دوست کو کہا کہ اُس پولیس افسر کو یہ پیغام ضرور دیجئے گا کہ ’’جس نے اغوا کیا تھا اُسی نے اُس کے دوست کو چھوڑ بھی دیا ۔پولیس جنہیں رہا کراتی ہے اُنہیں آنکھوں پر مجرموں کی طرح پٹی چڑھا کر سڑکوں پر تو نہیں چھوڑ دیتی‘‘ یہ جواب پولیس افسر تک ابھی پہنچا ہی تھا کہ وہ اس معاملے کو اخفا میں رکھنے کے لیے منتوں پر اُتر آیا۔یہ پچھلے دس روز میں پیش آنے والا واقعہ ہے۔کراچی ایسا ہی بنادیا گیا ہے۔ یہ ہزار داستانوں کی ایک داستان ہے۔ انتہائی کرب ناک اور خوف ناک ۔
ذرا اندازا کیجیے! ایک پولیس افسر اغوا کی واردات میں ملوث ہے جو سیاسی قوتوں اور خفیہ سرکاری اور ریاستی اداروں کا چہیتا بھی ہے۔ یہی افسر کراچی کے تمام اہم واقعات میں گرفتاریاں کرتا ہے۔وہ جسے اغوا کرتا ہے اُس کے متعلق تاوان کا فون کراچی سے نہیں وزیرستان سے آتا ہے۔ کیا یہی وہ لوگ ہیں جن پر انحصار کرکے کراچی میں امن قائم کیا جائے گا ؟ نیول انٹلیجنس کے ایک افسر کا اغوا میں ملوث ہونے کا واقعہ بھی کچھ دن پہلے منکشف ہو چکا۔گستاخی معاف رینجرز کا حال بھی کچھ کم بُرا نہیں۔ وزیراعظم کے دورۂ کراچی کی سب سے کمزور جہت یہی ہے کہ وہ شہریوں کو یہ یقین نہیں دلا سکے کہ کوئی بے گناہ شخص اس آپریشن سے متاثر نہیں ہوگا۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ قانون نافذکرنے والے اداروں کو کسی بھی بے گناہ شخص کے خلاف بروئے کار آنے پر کیا سزا ہوگی؟ اس کے بغیر تو کراچی کے بے گناہ عوام کے لیے اس سارے بکھیڑے کا کوئی مقصد ہی باقی نہیں رہ جاتا ۔ حیرت ہے کراچی کے تمام اربابِ تنازعات کو میاں نواز شریف نے صحیح یا غلط اعتماد میں لینے کی کوشش کی۔ کیا کراچی کے عوام کو بھی کوئی اعتماد میںیہ کہہ کر لے گاکہ کوئی سرکاری کارندہ کسی بے گناہ کی عزتِ نفس سے نہیں کھیل سکے گا اور جرائم میں ملوث سرکاری افسران بھی مجرموں کی طرح سلوک کے مستحق ہوں گے؟گر یہ نہیں تو بابا سب کہانیاں ہیں !
http://jasarat.com/index.php?page=03&date=2013-09-07
Last edited: