پیپلزپارٹی کے مرتضیٰ وہاب 173 ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے ہیں جبکہ جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمٰن کو 160 ووٹ ملے۔
تحریک انصاف کی حمایت کی وجہ سے حافظ نعیم کو 192 ارکان کی حمایت حاصل تھی لیکن پیپلزپارٹی نے سرکاری مشینری اور پولیس استعمال کرکے اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا اور 30 کے قریب تحریک انصاف کے چئیرمین ووٹنگ کے وقت غائب تھے۔
سوشل میڈیا صارفین نے اس پر سخت ردعمل دیا، انکا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کا وطیرہ ہےدوسروں کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنا اور ان کی اقتدار کی ہوس کی وجہ سے ہی ملک دو لخت ہوگیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1971 میں شیخ مجیب کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا اور اپنی ضد اور انا کی وجہ سے ملک تڑوادیا۔۔ آج بھی پیپلزپارٹی اسی فلسفے پر کاربند ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پیپلزپارٹی ہر دور میں ایسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے کبھی مخالفین کے جلسے میں سانپ چھوڑدیتی ہے، کبھی بھینس چوری کا مقدمہ درج کروادیتی ہے۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ منتخب نمائندوں کے اغوا، ووٹوں کی خریداری، دھونس دھاندلی سے میئر کراچی کا الیکشن آئین و جمہوریت پر سوالیہ نشان ہے۔ اگر جمہوریت کو اس طرح مسلسل مذاق بنایا جائے گا تو اس پر لوگوں کا رہا سہا اعتماد بھی ختم ہو جائے گا۔
سراج الحق نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن اور سندھ حکومت کی ملی بھگت بھی واضح ہے، بلدیاتی اور میئر الیکشن میں اس نے سندھ حکومت کے طفیلی ادارے کا کردار ادا کیا ہے۔ یہ شرمناک اور قابل مذمت ہے۔ شفاف قومی انتخابات کےلیے الیکشن کمیشن نے اپنی وقعت کھو دی ہے۔
ڈاکٹر منصورکلاسرا نے لکھا کہ مئیر کراچی ۔۔سقوط ڈھاکہ کی ایک بڑی وجہ پیپلز پارٹی کا مجیب الرحمان کے مینڈیٹ کو تسلیم نا کرنا تھا
جمشید دستی کا کہنا تھا کہ اس طریقے سے شیخ مجیب الرحمان کو بھی ہرایا تھا یہ بھٹو کے وقت سے یہ گند سندھ میں چل رہا ہے۔
وسیم اعجاز نے لکھا کہ پڑھا کرتے تھے بھٹو نے مینڈیٹ تسلیم نہیں کیا آج اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیا۔ اور شرم کا مقام ہیں ان تمام جمہوریت کے علمبرداروں سے جو آج ہونے والی کھلی دھاندلی سے منتخب ہونے والے پی پی پی مئیر مرتضی وہاب کو مبارکباد پیش کر رہے ہیں۔ یہ ہے وہ جمہوریت کا جس کا تم پرچار کرتے ہو؟
زین نے لکھا کہ آج کراچی میں مئیر کے الیکشن میں جنرل الیکشنز کی ریہرسل کی گئی ہے۔
فیاض شاہ نے تبصرہ کیا کہ ہمیشہ حیرت ہوتی تھی کہ شیخ مجیب الرحمان کی واضح اکثریت کے باوجود بھٹو کو کیسے اقتدار سونپا گیا۔ آج کراچی میں ہونے والے مئیر الیکشن میں اس سوال کا جواب مل گیا ہے کہ حافظ نعیم الرحمان کی اکثریت ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کے مرتضی وہاب کو کراچی کا مئیر بنا دیا گیا ہے۔ یہ ملک جنگل بن چکا ہے۔ یہاں کوئی آئین و قانون نہیں رہا۔ اور ہاں ڈٹ کے کھڑا ہے بندیال!
کہانی وہی ہے بس کردار بدل گئے ہیں۔۔۔ 1971 میں واضح اکثریت کے باوجود بھٹو نے شیخ مجیب کو حکومت قائم کرنے نہیں دی تھی اور آج بھی زرداری نے حافظ نعیم الرحمن کو میئر کراچی منتخب نہیں ہونے دیا۔ ہر دور میں اقتدار کی ہوس میرے ملک کو لے ڈوبی ہے
اوریا مقبول جان نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے کراچی میئر کے الیکشن میں ذوالفقار علی بھٹو کا 1977 والا نسخہ استعمال کردیا اور بلدیاتی اراکین کو غائب کرکے جماعت اسلامی کو بظاہر شکست دے دی ۔ لیکن تاریخ تو اس کے بعد شروع ہوتی ہے ۔ بھٹو کو انجام تک پہنچانے والی تحریک بھی کراچی سے ہی شروع ہوئی تھی
اوریا مقبول جان نے مزید کہا کہ سات مارچ 1977 کو پاکستان ٹیلی ویژن پر انتخابات کے نتائج کے اعلانات میں پیپلز پارٹی کے جیتنے کے ویسے ہی اعلانات ہور ہے تھے جیسے آج سندھ بھر کے بلدیاتی اداروں کے چیرمینوں کی جیت کی خبریں سنائی جا رہی ہیں ۔ اس وقت قوم مضحکہ خیز ہنسی ہنس رہی تھی اور آج بھی ایسا ہی ہے ۔ پھر اس کے بعد جو ہوا وہ بھٹو آمریت کے انجام کی بہت تلخ تاریخ ہے
الیاس نامی سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ ہم نے تو1971 میں شیخ مجیب الرحمٰن کی اکثریت کو نہیں مانا تھا تم کس باغ کی مولی ہو
صحافی اعزازسید نے لکھا کہ ذاتی طور پر پیپلزپارٹی پسند ہے اور جماعت اسلامی کی مذہبی سیاست کےباعث اسے ناپسند کرتا ہوں مگر پیپلزپارٹی نےکراچی میئر کے انتخاب میں جسطرح جماعت کی واضع اکثریت کومبینہ دھونس دھاندلی کے ذریعے اقلیت میں بدلا گیااس سے دلی تکلیف ہوئی۔مینڈیٹ تسلیم کرناہی جمہوریت ہے۔
صحافی طارق متین نے طنز کیا کہ ہمارے صحافی اور تجزیہ کار پتہ ہے کیا کہہ رہے ہیں طریقہ غلط ہے تو کیا ہوا ؟ مرتضی وہاب بندہ تو اچھا ہے