billo786
Senator (1k+ posts)
اس خبر کو عالمی پریس نے تو بڑی نمایاں سرخیوں کے ساتھ شائع کیا ہے کہ بھارت نے 36 ہزار تازہ دم فوجی چین کی سرحد پر لگادیے ہیں اور بھارت چین سرحد پر بھارتی سرگرمیاں اپنے نقطہ عروج کو چھورہی ہیں۔ اس کا ایک ثبوت تو چند روز پہلے اس خبر سے ملا کہ چین کی سرحد کے بالکل نزدیک ایک بھارتی فوجی ہیلی کاپٹر کے گر کر تباہ ہونے سے بھارتی فوج کے چھ اعلیٰ آفیسرز مارے گئے ، لیکن بھارت کا یہ اقدام سمجھ سے بالاتر ہے کہ صدر اوباما کے دورے کے بعد وہ خود کو اس خطے کا تھانیدار بنانے پر کیوں تلا ہوا ہے۔ اگر اس کی وجہ صدر اوباما کی طرف سے بھارتی حکومت کو سلامتی کونسل کی مستقل ممبر شپ میں مدد کی پیشکش ہے تو بھارتی اس خوش فہمی کے کب سے شکار ہوگئے کہ صرف امریکہ کی مدد ہی سے وہ سلامتی کونسل میں بھی براجمان ہوجائیں گے؟ ظاہر ہے چین، روس اور مغربی ممالک بھی اس سلسلے میں اپنا کردار تو ادا کریں گے اور افغانستان، عراق میں اپنا منہ کالاکروانے کے بعد امریکہ کو نائن الیون حادثے کا جو ''ایج'' ملا تھا جس کے بل بوتے پر اُس نے ساری دنیا میں دہشت پھیلا رکھی تھی اب وہ ختم ہوتا جارہا ہے۔
چین کو امریکہ بظاہر بھارت کے ذریعے '' انگیج'' کرنے کے چکر میں دکھائی دیتا ہے کیونکہ چین نے کم از کم معاشی محاذ پر امریکہ کو ضرور چاروں شانے چت کردیا ہے اور آج کی دنیا میں معیشت کی طاقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ''محض ملٹری پاور '' سے اگر دنیا ختم ہوتی تو روس کے بعد اب امریکہ کم از کم ضرور کامیاب ہوجاتا، جبکہ ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی مستقبل میں اس کے امکانات دکھائی دیتے ہیں۔ امریکنوں نے بھارت کے غبارے میں کچھ زیادہ ہی ہوا بھردی ہے اور بھارتی خود کو خوامخواہ بہت اونچا اُڑتا محسوس کرنے لگے ہیں۔ اس حقیقت کا شاید انہیں علم نہیں کہ یہ غبارہ تو سوئی کی معمولی سی نوک لگنے سے بھی پھٹ سکتا ہے۔
ماضی قریب میں بھارتی آرمی چیفس کے چین کے حوالے سے بیانات اور وہ نام نہاد خدشات جن کا وہ اظہار کرتے رہے ہیں یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ بھارت میں جنگی جنون بڑھتا چلا جارہا ہے۔ اس کی یوں تو بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن زیادہ اہم وجہ پنجابی زبان کی ایک کہاوت ہے جس کے مطابق کسی بھوکے جاٹ کو پانی کا کٹورہ مل گیا تو وہ پانی پی پی کر ہی اپنا پیٹ پھلانے لگا تھا۔ کچھ ایسی صورتحال سے بھارت بھی دوچار ہے۔ صدر اوباما کا حالیہ دورہ بھارت خصوصاً اس میں پاکستان کو یکسر نظر انداز کردینا بھارتیوں کو ''کٹورا'' ملنے کے مترادف ہے۔
افغانستان میں بھارتی پیش بندیاں خصوصاً پاکستانی سرحدوں کے نزدیک '' را'' کے تخریبی کیمپ اور بلوچستان میں اس کا بڑھتا ہوا کردار یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ بھارتیوں کو امریکہ کی مکمل آشیرواد حاصل ہے۔ اب امریکنوں نے بلوچستان کی طرف پیش قدمی شروع کردی ہے شاید وہ ایران کو بھی اس جنگ میں گھسیٹنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سی آئی اے کی بلوچستان میں بڑھتی ہوئی سرگرمیاں محل نظر ہیں اور بھارت عرصے سے یہاں اپنی مذموم سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ظاہر ہے اس طرح '' را'' بھی سی آئی اے کی سٹریٹجک پارٹنر بن جائے گی جس طرح امریکہ بھارت کا سٹریٹجک پارٹنر بنا ہوا ہے۔ بظاہر تو یہی پلان بنتا دکھائی دے رہا ہے لیکن بھارتی جن زمینی حقائق سے آنکھیں بند کرتے دکھائی دے رہے ہیں وہ بھارتی سلامتی کا ناسور بنتے جارہے ہیں۔
شمالی بھارت میں جاری کمیونسٹ تحریکیں، خصوصاً مائوئسٹ تحریک اور بنگال کے کمیونسٹ اور سوشلسٹ پارٹیاں بھارتی حکومت کو اس طرح امریکہ کی گود میں بیٹھ کر چین سے '' پنگے بازی'' کرنے کی اجازت نہیں دیں گی۔ ابھی تک تو چین کی طرف سے بھارت میں جاری مائوئسٹ تحریک کو مناسب پشت پناہی نہیں ملی اور مغربی ذرائع ابلاغ کی اطلاعات بھی یہی ہیں کہ یہ تحریک اپنے بل بوتے پر چل رہی ہے جسے عوامی پذیرائی حاصل ہے اور ان لوگوں کو اسلحہ بھی مقامی سطح پر بھارتی پیراملٹری فورسز ہی سے مل جاتا ہے یا وہ ان سے چھین لیتے ہیں۔ یہی شاید مائوئسٹ تحریک کی تیزی سے حاصل ہونے والی کامیابیوں کا راز بھی ہے لیکن بھارت نے اگر امریکی چمچہ گیری میں چین کے ساتھ بھی پاکستان والی جارحانہ پالیسی اپنائی تو وہ یہ کیوںسمجھتا ہے کہ چین کا ردِعمل صرف بیانات تک محدود رہے گا؟۔
چین کو امریکہ بظاہر بھارت کے ذریعے '' انگیج'' کرنے کے چکر میں دکھائی دیتا ہے کیونکہ چین نے کم از کم معاشی محاذ پر امریکہ کو ضرور چاروں شانے چت کردیا ہے اور آج کی دنیا میں معیشت کی طاقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ''محض ملٹری پاور '' سے اگر دنیا ختم ہوتی تو روس کے بعد اب امریکہ کم از کم ضرور کامیاب ہوجاتا، جبکہ ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی مستقبل میں اس کے امکانات دکھائی دیتے ہیں۔ امریکنوں نے بھارت کے غبارے میں کچھ زیادہ ہی ہوا بھردی ہے اور بھارتی خود کو خوامخواہ بہت اونچا اُڑتا محسوس کرنے لگے ہیں۔ اس حقیقت کا شاید انہیں علم نہیں کہ یہ غبارہ تو سوئی کی معمولی سی نوک لگنے سے بھی پھٹ سکتا ہے۔
ماضی قریب میں بھارتی آرمی چیفس کے چین کے حوالے سے بیانات اور وہ نام نہاد خدشات جن کا وہ اظہار کرتے رہے ہیں یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ بھارت میں جنگی جنون بڑھتا چلا جارہا ہے۔ اس کی یوں تو بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن زیادہ اہم وجہ پنجابی زبان کی ایک کہاوت ہے جس کے مطابق کسی بھوکے جاٹ کو پانی کا کٹورہ مل گیا تو وہ پانی پی پی کر ہی اپنا پیٹ پھلانے لگا تھا۔ کچھ ایسی صورتحال سے بھارت بھی دوچار ہے۔ صدر اوباما کا حالیہ دورہ بھارت خصوصاً اس میں پاکستان کو یکسر نظر انداز کردینا بھارتیوں کو ''کٹورا'' ملنے کے مترادف ہے۔
افغانستان میں بھارتی پیش بندیاں خصوصاً پاکستانی سرحدوں کے نزدیک '' را'' کے تخریبی کیمپ اور بلوچستان میں اس کا بڑھتا ہوا کردار یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ بھارتیوں کو امریکہ کی مکمل آشیرواد حاصل ہے۔ اب امریکنوں نے بلوچستان کی طرف پیش قدمی شروع کردی ہے شاید وہ ایران کو بھی اس جنگ میں گھسیٹنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سی آئی اے کی بلوچستان میں بڑھتی ہوئی سرگرمیاں محل نظر ہیں اور بھارت عرصے سے یہاں اپنی مذموم سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ظاہر ہے اس طرح '' را'' بھی سی آئی اے کی سٹریٹجک پارٹنر بن جائے گی جس طرح امریکہ بھارت کا سٹریٹجک پارٹنر بنا ہوا ہے۔ بظاہر تو یہی پلان بنتا دکھائی دے رہا ہے لیکن بھارتی جن زمینی حقائق سے آنکھیں بند کرتے دکھائی دے رہے ہیں وہ بھارتی سلامتی کا ناسور بنتے جارہے ہیں۔
شمالی بھارت میں جاری کمیونسٹ تحریکیں، خصوصاً مائوئسٹ تحریک اور بنگال کے کمیونسٹ اور سوشلسٹ پارٹیاں بھارتی حکومت کو اس طرح امریکہ کی گود میں بیٹھ کر چین سے '' پنگے بازی'' کرنے کی اجازت نہیں دیں گی۔ ابھی تک تو چین کی طرف سے بھارت میں جاری مائوئسٹ تحریک کو مناسب پشت پناہی نہیں ملی اور مغربی ذرائع ابلاغ کی اطلاعات بھی یہی ہیں کہ یہ تحریک اپنے بل بوتے پر چل رہی ہے جسے عوامی پذیرائی حاصل ہے اور ان لوگوں کو اسلحہ بھی مقامی سطح پر بھارتی پیراملٹری فورسز ہی سے مل جاتا ہے یا وہ ان سے چھین لیتے ہیں۔ یہی شاید مائوئسٹ تحریک کی تیزی سے حاصل ہونے والی کامیابیوں کا راز بھی ہے لیکن بھارت نے اگر امریکی چمچہ گیری میں چین کے ساتھ بھی پاکستان والی جارحانہ پالیسی اپنائی تو وہ یہ کیوںسمجھتا ہے کہ چین کا ردِعمل صرف بیانات تک محدود رہے گا؟۔