ایک دل جلے کا چیف جسٹس کے نام ایک خط
لاڑکانہ کے ایڈیشنل اینڈ سیشن جج گل ضمیر سولنگی کی عدالت میں آپ جس طرح توہین عدالت کے مرتکب ہوئےاور آپ نے انکا موبائل فون میز پہ پٹخ کر جس پرلے درجے کی بازاری ذہنیت اور عملیت کا مظاہرہ کیا اس نے دنیا بھر کے چیف جسٹسز میں آپکو لافنگ سٹاک بنا دیا ہے ۔امریکہ کے چیف جسٹس جان رابرٹس نے مجھے واٹس ایپ کر کے آپ کو خط لکھنے کی درخواست کی کہ اعلیٰ ترین عدالتی منصب کے استعمال کی آپکی منفی روش پر دنیا بھر کی جوڈیشل کمیونٹی کے تحفظات آپ تک پہنچا سکوں ۔اگر آپ نے اپنی والدہ کا دودھ بغیر فیڈر کے پیا ہے تو پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچا کے دکھائیں ،جرنیلوں کی انکم اور لائف سٹائل میں تفاوت پر ازخود نوٹس لیکر دکھائیں ،شاہ رخ جتوئی اور مصطفیٰ کانجو کو پھانسی گھاٹ تک پہنچا کے دکھائیں ،کوئٹہ کے ٹریفک سارجنٹ حاجی عطااللہ کو گاڑی تلے کچلنے والے گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی کے کزن عبدالمجید اچکزئی کو قرار واقعی سزا دیکر دکھائیں ،آسیہ بی بی ،ایاز نظامی ،پروفیسر انوار اور جنید حفیظ کو آزاد کر کے دکھائیں اور اگر آپ یہ سب نہیں کر سکتے تو حکومتی اختیارات کو عملی طور پر مفلوج کر کے خود کو وزیراعظم سمجھنا چھوڑ دیں کیونکہ اس سے نقصان چیف جسٹس کے منصب کا ہو رہا ہے ۔جو غلیظ بازاری زبان اور اہانت آمیز رویہ آپ اپنی عدالت میں سیاست دانوں اور سرکاری افسران سے روا رکھتے ہیں وہ نہ صرف ہر طرح سے جج کے منصب کے منافی ہے بلکہ ثابت کرتا ہے کہ چھوٹے برتن میں زیادہ پڑ گیا ہے ۔جج نہیں بولتے پیاز کی بدبو کے رسیا آرائیں ثاقب نثار انکے فیصلے بولتے ہیں اور آپکا ہر فیصلہ انصاف کی بجا آوری کی جگہ ذاتی انا کے پودے کو پانی دیتا دکھائی دیتا ہے ۔آپکی سپریم کورٹ میں اڑتیس ہزار اور ماتحت عدلیہ میں اٹھارہ لاکھ مقدمات زیر التواء ہیں لیکن آپ انکو نمٹانے کی جگہ ازخود نوٹس کی تھوک میں پکوڑے تلتے رہتے ہیں ۔اگلی ہاتھ نہیں آتی پچھلی کتا لےجاتا ہے ۔مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے ۔ایک جانب آپ خشیت الہی سے اپنی آنکھیں نم کرتے نظر آتے ہیں تو دوسری جانب خواتین کی چھوٹی سکرٹ آپکے لئے دلچسپی کا سبب ہوتی ہے ۔آپ کی اہلیہ گھر میں انڈین ٹی وی چینلز سے محظوظ ہوتی ہیں اور آپ انھی چینلز کے اندر فحاشی ڈھونڈتے پھرتے ہیں ۔
آپکو ہسپتال کا دورہ پڑتا ہے ۔سیاستدانوں کو کہتے ہیں کہ موت کا وقت معین ہے لہذا سیکیورٹی کی کوئی ضرورت نہیں ۔کبھی یہ پیغام اپنی بیگم کے شوہر اور قمر جاوید باجوہ کیساتھ نوید مختار کو دیکر دکھائیں تو مانوں کہ دل کی دنیا میں انقلاب آیا ہے ۔اس وقت سے ڈرئیے جب ریٹائرمنٹ کے بعد آپکو یہ شاہی پروٹوکول میسر نہیں ہو گا اور لوگ دل ہی دل میں نہیں بلکہ آپکی شکل پہ تھو تھو کرینگے
لاڑکانہ کے ایڈیشنل اینڈ سیشن جج گل ضمیر سولنگی کی عدالت میں آپ جس طرح توہین عدالت کے مرتکب ہوئےاور آپ نے انکا موبائل فون میز پہ پٹخ کر جس پرلے درجے کی بازاری ذہنیت اور عملیت کا مظاہرہ کیا اس نے دنیا بھر کے چیف جسٹسز میں آپکو لافنگ سٹاک بنا دیا ہے ۔امریکہ کے چیف جسٹس جان رابرٹس نے مجھے واٹس ایپ کر کے آپ کو خط لکھنے کی درخواست کی کہ اعلیٰ ترین عدالتی منصب کے استعمال کی آپکی منفی روش پر دنیا بھر کی جوڈیشل کمیونٹی کے تحفظات آپ تک پہنچا سکوں ۔اگر آپ نے اپنی والدہ کا دودھ بغیر فیڈر کے پیا ہے تو پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچا کے دکھائیں ،جرنیلوں کی انکم اور لائف سٹائل میں تفاوت پر ازخود نوٹس لیکر دکھائیں ،شاہ رخ جتوئی اور مصطفیٰ کانجو کو پھانسی گھاٹ تک پہنچا کے دکھائیں ،کوئٹہ کے ٹریفک سارجنٹ حاجی عطااللہ کو گاڑی تلے کچلنے والے گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی کے کزن عبدالمجید اچکزئی کو قرار واقعی سزا دیکر دکھائیں ،آسیہ بی بی ،ایاز نظامی ،پروفیسر انوار اور جنید حفیظ کو آزاد کر کے دکھائیں اور اگر آپ یہ سب نہیں کر سکتے تو حکومتی اختیارات کو عملی طور پر مفلوج کر کے خود کو وزیراعظم سمجھنا چھوڑ دیں کیونکہ اس سے نقصان چیف جسٹس کے منصب کا ہو رہا ہے ۔جو غلیظ بازاری زبان اور اہانت آمیز رویہ آپ اپنی عدالت میں سیاست دانوں اور سرکاری افسران سے روا رکھتے ہیں وہ نہ صرف ہر طرح سے جج کے منصب کے منافی ہے بلکہ ثابت کرتا ہے کہ چھوٹے برتن میں زیادہ پڑ گیا ہے ۔جج نہیں بولتے پیاز کی بدبو کے رسیا آرائیں ثاقب نثار انکے فیصلے بولتے ہیں اور آپکا ہر فیصلہ انصاف کی بجا آوری کی جگہ ذاتی انا کے پودے کو پانی دیتا دکھائی دیتا ہے ۔آپکی سپریم کورٹ میں اڑتیس ہزار اور ماتحت عدلیہ میں اٹھارہ لاکھ مقدمات زیر التواء ہیں لیکن آپ انکو نمٹانے کی جگہ ازخود نوٹس کی تھوک میں پکوڑے تلتے رہتے ہیں ۔اگلی ہاتھ نہیں آتی پچھلی کتا لےجاتا ہے ۔مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے ۔ایک جانب آپ خشیت الہی سے اپنی آنکھیں نم کرتے نظر آتے ہیں تو دوسری جانب خواتین کی چھوٹی سکرٹ آپکے لئے دلچسپی کا سبب ہوتی ہے ۔آپ کی اہلیہ گھر میں انڈین ٹی وی چینلز سے محظوظ ہوتی ہیں اور آپ انھی چینلز کے اندر فحاشی ڈھونڈتے پھرتے ہیں ۔
آپکو ہسپتال کا دورہ پڑتا ہے ۔سیاستدانوں کو کہتے ہیں کہ موت کا وقت معین ہے لہذا سیکیورٹی کی کوئی ضرورت نہیں ۔کبھی یہ پیغام اپنی بیگم کے شوہر اور قمر جاوید باجوہ کیساتھ نوید مختار کو دیکر دکھائیں تو مانوں کہ دل کی دنیا میں انقلاب آیا ہے ۔اس وقت سے ڈرئیے جب ریٹائرمنٹ کے بعد آپکو یہ شاہی پروٹوکول میسر نہیں ہو گا اور لوگ دل ہی دل میں نہیں بلکہ آپکی شکل پہ تھو تھو کرینگے