
سپیکر قومی اسمبلی توہینِ پارلیمان کا قانون لانے کے خواہشمند
قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے توہینِ پارلیمان کا قانون لانے کے خواہش ظاہر کردی، انہوں نے کہا 50 سال گزرنے کے باوجود بھی پارلیمان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے، پارلیمان اپنےمقام کے لئے لڑ رہی ہے۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے اسپیکر نے کہا میثاق جمہوریت کے جتنے معاملات تھے میں ان میں شامل تھا، اُس وقت میں پارلیمنٹیرینز کا سیکرٹری جنرل تھا۔ اُس وقت ایک احساس نے جنم لیا کہ اگر ہم نے معاملات چلانے ہیں تو ہمیں اپنے آئین، اپنی جمہوریت اور اپنی پارلیمان کی حفاظت کرنی ہوگی۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا یہ کوئی طریقہ نہیں کوئی جماعت اگر اپوزیشن میں ہے تو تعمیری اپوزیشن کرنے کے بجائے اس میں پڑ جائے اور کہے میں آپ کو نہیں رہنے دوں گا اور ہر روز ایسے ایشو کھڑے کرے کہ حکومت وقت اپنی پوری توجہ اپنے کام سے ہٹا لے۔
انہوں نے کہا اسٹبلشمبنٹ کے علاوہ آئین کو خطرات موجود ہیں؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آپ نے سنا ہوگا پارلیمان تمام اداروں کی ماں ہے، یہیں سے تمام ادارے اپنی قوت حاصل کرتے ہیں، یہی وہ ماں ہے جو سب کو ان کے حصے کی چیز بانٹ کر دیتی ہے، ان کو اختیارات تفویض کرتی ہے۔ اگر آپ اس ماں کو ہی بے عزت کرنا شروع کردیں، اس کے اختیارات کو چیلنج کرنا شروع کردیں، پھر تو سارا معاملہ ہی دھڑام سے گر جائے گا۔
اسپیکر قومی اسمبلی نےمزید کہا پارلیمان 23 کروڑ عوام کے جذبات اور احساسات کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک قانون ابھی پاس بھی نہیں ہوا، اس نے سارے مراحل طے ہی نہیں کئے اس پر عدالت کہہ دے کہ اس پر اسٹے کرتے ہیں، اسٹرائک ڈاؤن کرتے ہیں، اور ایسے سخت الفاظ ہوں کہ اس کو صدر قبول کریں یا نہ کریں یہ قانون نہیں بنے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمان کو اگر کوئی قانون سازی کرنی ہے تو کیا پہلے وہ اجازت کیلئے عدالت کے پاس جائے گی؟
راجہ پرویز اشرف نے سوال اٹھایا اگر ایسی بات ہے تو پارلیمان کی خودمختاری کدھر گئی؟ پھر اس کا مقتدر ہونا کہاں گیا؟ پھر اس کی اداروں کی ماں ہونے کی حیثیت کہاں گئی؟ اس لئے یہ بات بالکل سچ ثابت ہو رہی ہے کہ آج بھی ہم اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اگر پارلیمان کی عزت نہیں ہوگی تو کسی ادارے کی عزت قائم نہیں رہ سکے گی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا اسٹبلشمنٹ سمجھ گئی ہے کہ اگر دخل دیتے ہیں تو اس میں اسٹبلشمنٹ کا بھی نقصان ہوتا ہے اور سیاست کا بھی نقصان ہوتا ہے۔ ’اسی طرح اب اگر عدالت جو ہے وہ پارلیمان کی راہ میں کوئی روڑے اٹکائے گی اور اس کے راستے میں آئے گی، یا کوئی ایسا سسٹم جو نہیں کرنا چاہئیے اس سے سرزد ہوگا نوئنگلی یا ان نوئنگلی، دانستہ یا نادانستہ تو نقصان تو پورے ملک کا ہوگا۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا سپریم کورٹ اب کسی بھی وجہ سے سوموٹو لے کہ یہ جو قانون بنا ہے یا پاس ہوا ہے اسے روک دیا جائے تو پھر آپ پارلیمان سے اس کا جو قانون سازی کا حق، اختیار اور جو اس کا فرض ہے وہ چھیننے کی کوشش کر رہے ہیں،اس کو آپ جوڈیشل مارشل لاء نہیں جوڈیشل مارشل لاء پلس کہیں‘۔ یہ تو اس سے زیادہ خوفناک چیز ہے۔ اگر کوئی قانون آئین یا اسلامی قوانین سے متصادم ہو تو آپ اسے اسٹرائیک ڈاؤن کر سکتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جہاں تک قانون سازی کا تعلق ہے تو یہ قانون بن گیا ہے، اب اگر سپریم کورٹ کہتا ہے کہ یہ قانون نہیں بنا تو ’وہ میں نافذ العمل نہیں ہونے دوں گا،ہم نے یہ نہیں کہا تمام سولہ سترہ ججز بیٹھیں، ہم نے کہاں کہ تین ججز بیٹھ جائیں اور وہ اس سوموٹو کا فیصلہ کرلیں،آپ نو ججز سے شروع کرتے ہیں، اس میں سے دو چلے جاتے ہیں سات بچتے ہیں، آپ سماعت جاری رکھتے ہیں، ان سات سے پھر دو چلے جاتے ہیں پانچ رہ جاتے ہیں آپ جاری رکھتے ہیں۔
راجہ پرویز اشرف نے کہا پانچ میں سے پھر تین چلے جاتے ہیں آپ دو کے ساتھ سماعت جاری رکھتے ہیں۔ یہ اسی طرح ہے کہ فرض کریں وزیراعظم کابینہ کو بلاتا ہے کسی فیصلے کیلئے، اور کابینہ کے سارے ممبرز اٹھ کر چلے جائیں اور صرف ایک یا دو رہ جائیں اور وہ ان کے ساتھ فیصلہ کرلیں تو کیا اس کو آپ کابینہ کا فیصلہ مان لیں گے؟
ان کا کہنا تھا کہ میں تعریف کرتا ہوں کہ چیف جسٹس نے کہا آپ لوگ آپس میں بیٹھ کر فیصلہ کرلیں، تکنیکی طور پر وہ یہ بات نہیں کرسکتے، یہ ان کا کام نہیں ہے، یہ کام سیاستدانوں کا ہے، یہ کام پارلیمان کا ہے، ہمیں کرنا چاہئیے تھا، ہم نے کیوں نہیں کیا، ہمیں بیٹھنا چاہئیے۔ ہم اپنا کیس لے کر عدالت چلے گئے، ہم نے خود اپنی داڑھی دوسرے کے حوالے کردی، 14 مئی تک کیا بیلٹ پیپر کی چھپائی اور ترسیل ہوجائے گی؟ آپ خود ایسا ٹارگٹ دے رہے ہیں کہ فیصلے پر عمل ہی نہ ہوسکے۔
اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کا کہنا تھا میں اب چاہتا ہوں کہ پارلیمان جو ہے، یہ پارلیمان یا آنے والی پارلیمان وہ کنٹیمپٹ آف پارلیمان کا قانون بھی پاس کرے۔ اگر کنٹیمپٹ آف کورٹ ہے تو کنٹیمپٹ آف پارلیمان کیوں نہیں ہے جو مدر آف انسٹیٹیوشنز ہے، اس کا کنٹیمپٹ بھی ہے، اس کی عزت بھی ہے اس کی بھی توقیر ہے، تو جب تک ہم یہ نہیں کریں گے تو بالکل میں کھلے الفاظ میں کہتا ہوں کہ ہم پاکستان میں استحکام نہیں لاسکیں گے۔