
لندن کے پوش علاقے بیلگریویا میں پاکستان ہائی کمیشن کے باہر جمعہ کی شب اُس وقت سخت کشیدگی دیکھنے میں آئی جب پہلگام میں بھارتی سیاحوں کے قتل پر احتجاج کے دوران ایک پاکستانی سفارتکار کی جانب سے مبینہ طور پر گلا کاٹنے کا اشارہ کیا گیا۔ اس واقعے نے نہ صرف مظاہرین کو مشتعل کیا بلکہ برطانیہ میں برصغیر کی دونوں بڑی کمیونٹیز — بھارتی اور پاکستانی — کے درمیان پہلے سے موجود تناؤ کو مزید بڑھا دیا۔
برطانوی اخبار دی ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب بھارتی نژاد برطانوی شہریوں نے مقبوضہ کشمیر کے پہلگام علاقے میں پیش آنے والے واقعے پر احتجاج کیا، جہاں 26 بھارتی سیاح ایک حملے میں ہلاک ہوئے۔بر حملے کی ذمہ داری پاکستان سے منسلک عسکریت پسندوں پر عائد کی جا رہی ہے جن کے تعلقات مبینہ طور پر 2008 کے ممبئی حملوں سے بھی جوڑے جا رہے ہیں۔ مظاہرے میں دونوں اطراف کے سینکڑوں افراد شامل تھے۔ ایک طرف بھارتی مظاہرین تھے جو پہلگام کے قتل عام پر پاکستان کے خلاف شدید نعرے بازی کر رہے تھے، جبکہ دوسری جانب پاکستانی حامی مظاہرین نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف احتجاج کیا۔ دونوں اطراف سے لاوڈ اسپیکرز پر نعرے لگائے جا رہے تھے۔
اسی دوران ایک پاکستانی اہلکار کرنل تیمور راحت ، جسے ایک سینیئر سفارتکار قرار دیا جا رہا ہے، ہائی کمیشن کی بالکونی پر نمودار ہوا۔ اس نے بھارتی پائلٹ ابھینندن ورتھمان کی ایک تصویر اٹھا رکھی تھی، جس پر طنزیہ جملہ "چائے لاجواب ہے" درج تھا — یہ اس وقت کی یاد دہانی تھی جب 2019 میں ابھینندن کو پاکستان نے گرفتار کر کے چائے پیش کی تھی۔ اسی تصویر کو تھامے اہلکار نے مجمع کی طرف گلا کاٹنے کا اشارہ کیا، جسے کیمروں نے محفوظ کر لیا اور ویڈیو فوری طور پر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔
اس اشارے پر بھارت کے مظاہرین نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔ ان میں سے ایک کا کہنا تھا، "یہ شخص ایک سفارتکار ہے، اور 26 لوگوں کی موت کے بعد اس قسم کا اشارہ کر رہا ہے؟ یہ شرمناک ہے۔"
اس حرکت پر میٹروپولیٹن پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے فوری طور پر تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔ پولیس نے برطانوی اخبار ٹیلی گراف کو بتایا: "ہم اس ویڈیو سے باخبر ہیں اور تحقیقات کر رہے ہیں۔ افسران متعلقہ حکومتی محکمے سے رابطے میں ہیں تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ پاکستان ہائی کمیشن سے کس قسم کی سفارتی نمائندگی کی جائے۔"
برطانوی دفتر خارجہ نے واقعے پر براہِ راست تبصرہ کرنے سے گریز کیا، لیکن ایک اہلکار کے مطابق، "یہ کہنا مناسب نہیں کہ ہم جاری تفتیش کے معاملے پر تبصرہ کریں۔ برطانیہ پاکستان اور بھارت دونوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ اشتعال انگیز بیانات سے گریز کریں، کیونکہ اس سے بامعنی بات چیت مزید مشکل ہو جاتی ہے۔"
واقعے کے دوران دو بھارتی مظاہرین کو گرفتار کیا گیا، اور اطلاعات ہیں کہ ایک مسلمان پولیس اہلکار کو نسلی تعصب کا نشانہ بنایا گیا۔ تاہم یہ رپورٹیں برطانوی مین اسٹریم میڈیا میں کم ہی جگہ پا سکیں۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھی تو برطانیہ میں دونوں کمیونٹیز کے درمیان مزید تصادم دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔
برطانوی رکن پارلیمنٹ باب بلیک مین، جو ہندو کمیونٹی سے قریبی تعلق رکھتے ہیں، کا کہنا ہے کہ مذکورہ پاکستانی سفارتکار کو ملک بدر کیا جانا چاہیے۔ ان کے مطابق، "جب ہر طرف سے تحمل کی اپیل کی جا رہی ہے، ایک اعلیٰ سرکاری نمائندے کی جانب سے ایسی حرکت ناقابل قبول ہے۔"
یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب بھارت اور پاکستان پہلگام واقعے پر ایک دوسرے کے خلاف سخت اقدامات کر چکے ہیں۔ سفارتی عملے کی ملک بدری، سرحدی جھڑپیں، اور بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کیے جانے جیسے اقدامات صورتِ حال کو مزید نازک بنا چکے ہیں۔ پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ اگر بھارت نے دریاؤں کا پانی روکا تو اسے "جنگ کا اعلان" تصور کیا جائے گا۔
برطانیہ کی مقامی سیاست پر بھی اس کشیدگی کے اثرات پڑ رہے ہیں۔ لیبر اور کنزرویٹو پارٹیاں برطانوی پاکستانی اور بھارتی ووٹرز کے دباؤ میں نظر آتی ہیں۔ کچھ لیبر رہنماؤں پر بھارتی لابی کے ساتھ ہمدردی کے الزامات لگے ہیں، جبکہ کنزرویٹو سیاست دانوں پر ہندو ووٹرز کے حق میں جھکاؤ کا تاثر دیا جا رہا ہے۔
لیسٹر میں 2022 میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی یادیں بھی تازہ ہو رہی ہیں، جہاں ایک بھارت-پاکستان کرکٹ میچ کے بعد تین ہفتوں تک پرتشدد مظاہرے جاری رہے تھے۔ لیسٹر پولیس نے موجودہ صورت حال کے پیش نظر چوکسی اختیار کر لی ہے۔
علاقے کے مکینوں اور کمیونٹی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ پرامن ماحول کے خواہاں ہیں، لیکن اگر جنوبی ایشیا میں کشیدگی بڑھی تو اس کے اثرات مقامی سطح پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ ایک مقامی سماجی کارکن طارق محمود نے کہا: "ہم یہاں بھائیوں کی طرح رہتے ہیں، مگر اگر بھارت جنگ چاہتا ہے تو ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ہم امن چاہتے ہیں، مگر ظلم کے سامنے خاموش نہیں رہ سکتے۔"
پاکستان ہائی کمیشن نے اس پورے واقعے پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
- Featured Thumbs
- https://financesaathi.com/adm/uploads/_8295_11.jpg