
برطانوی ترقیاتی ادارے ڈی ایف آئی ڈی کے چیف اکنانومسٹ اسٹیفن ڈیرکون نے بڑا مشورہ دے دیا,انہون نے کہا پاکستان کی معیشت شارٹ کٹ سے ٹھیک نہیں ہو سکتی۔
اسٹیفن ڈیرکون نے سیمینار سے خطاب میں کہا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے 22 پروگرام مکمل نہیں کیے جس سے اس کی ساکھ متاثر ہوئی, آئی ایم ایف سمیت دیگر پارٹنرز پاکستان پر اعتماد نہیں کرتے، پاکستان کی پالیسیز اور ترجیحات بدل جاتی ہیں جس سے سرمایہ کاروں کو مشکلات ہیں۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا چند ماہ پہلے پاکستان نے ایک ہاتھی کو آزاد کر کے کمبوڈیا بھجوایا، کراچی چڑیا گھر کی طرح پاکستان کی معیشت ہاتھی پالنے کی متحمل نہیں ہو سکتی، پاکستان کو کمروں میں ہاتھی پالنے کے بجائے مسائل کے حل نکالنے چاہیے۔
چیف اکنانومسٹ ڈی ایف آئی ڈی نے کہا پاکستان میں چھوٹے سرمایہ کاروں کو تحفظ دینے کی زیادہ ضرورت ہے، پاکستان کو ریئل اسٹیٹ اور بڑے تاجروں سے گنجائش سے کم ٹیکس ملتا ہے، کرپشن کی وجہ سے پاکستان میں سرمایہ کاری کم ہوتی ہے۔
اسٹیفن ڈیرکون نے نگراں وفاقی وزیر خزانہ شمشاد اختر سے گزشتہ روز ملاقات کی تھی۔ جاری کردہ اعلامیے میں بتایا گیا ملاقات میں پاکستان میں معاشی استحکام کیلیے مختلف امور کا جائزہ لیا گیا۔
اعلامیے کے مطابق برطانوی پروفیسر نے کہا برطانیہ کا ترقیاتی ادارہ پاکستان کے معاشی ترقی میں شراکت دار رہے گا، برطانیہ پاکستان کےساتھ معاشی تعلقات مزید مستحکم بنانا چاہتا ہے۔
نگراں وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ معاشی استحکام کیلیے برطانیہ کے تعاون سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، معاشی ترقی کیلیے پاکستان برطانیہ کو اہم پارٹنر سمجھتا ہے۔
برطانیہ کی اکسفورڈ یونیورسٹی کے اکنامکس پالیسی کے وزیٹنگ پروفیسر اسٹیفن ڈیرکون نے کہا ہے کہ حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ اب پاکستان کی اشرافیہ بھی اپنی طاقت اور قانونی جواز کھو رہی ہے چنانچہ اب انہیں تبدیل ہونا ہوگا تاکہ معیشت ازسرنو بحال ہوسکے اور باہر سے آنے والے ڈالروں پر ملک کا انحصار ختم ہوسکے۔
ورلڈ بینک کے عہدیدارنے کہا ہے کہ پاکستانی معیشت بری حالت میں ہے اور وقت آگیا ہے کہ اسے زنجیروں سے نجات دلائی جائے،
پروفیسر اسٹیفن ڈیرکون نے کہا کہ طویل مدتی نمو اور ترقی کے لیے سیاست اور معاشی پالیسیوں کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مشترکہ شناخت کی بنیاد پر جمود ناقابل برداشت ہے اور پاکستان کو نقصان پہنچاتا ہے اور یہاں تک کہ اشرافیہ بھی اب محدود ہو رہی ہے۔
پروفیسر کے مطابق اقتصادی پالیسیوں کو سیاسی توازن کو سمجھنے کی ضرورت ہے، نمو اور ترقی کے لیے اشرافیہ کے معاملات کے بہتر ظہور کے لیے مراعات کا ایک مجموعہ ہونا چاہیے۔