صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ پاکستان کو میری ٹائم سیکٹر میں سالانہ 5 ہزار ارب روپے (18 ارب ڈالرز) کا نقصان ہو رہا ہے، جس کی وجوہات میں بندرگاہوں کو ان کی مکمل استعداد کے مطابق استعمال نہ کرنا، ٹیکس چوری، بدعنوانی، جعلی بلنگ، افغان تجارتی راہداری کا غلط استعمال، اور ویلیو ایڈیشن کا فقدان شامل ہیں۔
اعلیٰ سطحی ٹاسک فورس کی رپورٹ کے حوالے سے ایک سرکاری ذریعے کا کہنا ہے کہ بندرگاہوں کو ان کی مکصل استعداد کے ساتھ استعمال نہ کرنے سے سرکاری خزانے کو 3190 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ میری ٹائم سیکٹر میں ٹیکس چوری سے 1120 ارب روپے، جعلی بلنگ اور بدعنوانی سے 313 ارب روپے، ٹرانس شپمنٹ (ایک بندرگاہ سے دوسری بندرگاہ یا وسطی ایشیا اور چین جیسے مقامات پر سامان کی منتقلی) سے متعلق پابندیوں کی وجہ سے 70 ارب روپے، گوداموں کی کمی اور ویلیو ایڈیشن کی قلت سے 196 ارب روپے، جبکہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سسٹم کے غلط استعمال سے سالانہ 60 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
یہ رپورٹ وزیراعظم کو پیش کی جا چکی ہے، جس میں افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ پاکستان اپنی زبردست صلاحیتوں اور جیو اسٹریٹجک فوائد کے باوجود اپنی اصل صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکا۔ رپورٹ کے مطابق، ملک کی کوئی بھی بندرگاہ دنیا کی ٹاپ 60 بندرگاہوں میں شامل نہیں ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ عالمی درجہ بندی میں 61 ویں، جبکہ پورٹ قاسم اتھارٹی 146 ویں نمبر پر ہے۔
گزشتہ 10 سالوں میں پاکستان میں پورٹ سروسز کی طلب میں سالانہ 3.3 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ، جو ملک کی مصروف ترین بندرگاہ ہے، اپنی کل صلاحیت (125 ملین ٹن) کا صرف 47 فیصد استعمال کر رہی ہے۔ یہ بندرگاہ ملک کی درآمدات اور برآمدات کا 60 فیصد سے زائد حصہ سنبھالتی ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں کراچی پورٹ سے ٹیکس کی وصولی 660 ارب سے 1470 ارب روپے تک رہی ہے۔
پورٹ قاسم اتھارٹی، جو ملک کی دوسری مصروف ترین بندرگاہ ہے اور ملکی کارگو کا 35 فیصد سنبھالتی ہے، اپنی کل صلاحیت (89 ملین ٹن) کا صرف 50 فیصد استعمال کر رہی ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں اس بندرگاہ سے ٹیکس کی وصولی 690 ارب سے 1140 ارب روپے تک رہی ہے۔
گوادر پورٹ اتھارٹی (جی پی اے) کی موجودہ صلاحیت 25 لاکھ ٹن ہے، جو تیسرے مرحلے کی تکمیل کے بعد 2045 تک 40 کروڑ ٹن تک پہنچنے کی توقع ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی ساحلی پٹی اقتصادی لحاظ سے ملک کی ریڑھ کی ہڈی بن سکتی ہے۔ بحیرہ احمر کے بحران کو بھی پاکستان کے میری ٹائم سیکٹر کے لیے ایک بڑا جیو اسٹریٹجک موقع قرار دیا گیا ہے۔
عالمی کمپنیاں جیسے مرسک، ڈی پی ورلڈ، اور ہچیسن پورٹس نے پاکستان کے ذریعے تجارت کرتے ہوئے اپنے مالی مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے سمندری اور متعلقہ شعبوں میں سرمایہ کاری کی پیشکش کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، عالمی سطح پر تقریباً 19 لاکھ تربیت یافتہ سیلرز (Seafarers) جہاز رانی کی صنعت میں کام کر رہے ہیں۔ پاکستان ماضی میں تربیت یافتہ سمندری سیلرز کی ایک بڑی تعداد فراہم کرتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ یہ تعداد کم ہو گئی ہے۔
مکران اور سندھ کے ساحلوں کے ساتھ متنوع علاقوں میں بے پناہ صلاحیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے، ٹاسک فورس نے تجویز پیش کی ہے کہ شاندار ساحلی مقامات، تاریخی مقامات، آثار قدیمہ، اور قدیم مذہبی مقامات کو سیاحت کے لیے ترقی دے کر بہت زیادہ آمدنی حاصل کی جا سکتی ہے۔
رپورٹ میں پاکستان کے 2 لاکھ 40 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ کے خصوصی اقتصادی زون (EEZ) کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جسے اقوام متحدہ نے تسلیم کیا ہے۔ یہ زون سمندر کی تہہ میں تیل، گیس، اور دیگر معدنیات جیسے وسائل سے مالا مال ہے۔ ان وسائل کی تلاش اور قومی معیشت میں انضمام کے لیے اہم انسانی وسائل، بنیادی ڈھانچے، اور طویل مدتی پالیسیوں کی ضرورت ہے۔