
حکومت افراط زر یا مہنگائی میں اس کمی کی وجہ اپنی پالیسیوں کو قرار دیتی ہوئے اس کا سارا کریڈٹ لیتی رہی ہےپاکستان میں افراط زر یا مہنگائی ہمیشہ سے ہی ایک مسئلہ رہا ہے۔ لیکن گذشتہ چند ماہ سے افراطِ زر کی شرح اس قدر کم ہو گئی ہے کہ ماہرین معیشت اس کم ہوتی مہنگائی کو بھی خطرہ قرار دے رہے ہیں۔
پاکستانی معیشت کے بارے میں اعداد و شمار اکٹھے کرنے والے سرکاری ادارے پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے مطابق پاکستان میں اگست کے مہینے میں افراط زر کی شرح 12 برس میں کم ترین شرح یعنی 1.72 فیصد پر ریکارڈ کی گئی۔
پچھلے چند ماہ سے اس شرح میں مسلسل گراوٹ دیکھنے میں آ رہی ہے جس کی بنیادی وجہ تیل کی قیمتوں میں مسلسل کمی ہے۔
حکومت افراط زر یا مہنگائی میں اس کمی کی وجہ اپنی پالیسیوں کو قرار دیتے ہوئے اس کا سارا کریڈٹ لیتی رہی ہے۔ تاہم اب معاشی تجزیہ کار خبردار کر رہے ہیں کہ افراط زر کا اس حد تک گر جانا اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ ملکی معیشت سکڑنے کے عمل تفریطِ زر یا ’ڈیفلیشن‘ کی جانب جا رہی ہے۔
معیشت کا سکڑنا کسی بھی ملک کے معاشی جمود کو ظاہر کرتا ہے جس میں نہ تو نئی سرمایہ کاری ہو رہی ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی دوسری اہم معاشی سرگرمی دیکھنے میں آتی ہے۔ یہ دونوں سرگرمیاں نہ ہونے سے ملک میں بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔
معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کے مطابق پاکستان میں اس موقعے پر افراط زر میں اس قدر کمی کی بنیادی وجہ معیشت پر جمود طاری ہونا ہے۔
’آج صورت حال یہ ہے کہ کمرشل بینک حکومت کو زیادہ قرض دے رہے ہیں نہ کہ نجی شعبے کو۔ ایسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ یہ حقیقت اس بات کی عکاس ہے کہ ملک میں معاشی سرگرمی نہیں ہو رہی۔ بینک نہ قرضے دے رہے ہیں اور نہ لوگ قرضے لے رہے ہیں۔ یہ معیشت کے لیے بہت خطرناک رجحان ہے جس کے نتائج آنے والے دنوں میں نظر آئیں گے۔‘
ڈاکٹر شاہد حسن خان کے مطابق ملکی معیشت اس جگہ پہنچ چکی ہے جہاں سے وہ کسی بھی وقت تفریطِ زر کا شکار ہو سکتی ہے۔
’یہ ایسے ہی ہے کہ آپ دل کے مرض کے شکار کسی شخص کو چلنے پھرنے سے بالکل منع کر دیں۔ وہ شخص جب بالکل حرکت نہیں کرے گا تو اس کے جسم میں توانائی کہاں سے آئے گی؟
ہمارا بھی یہی حال ہے کہ جب معیشت کا پہیہ رک جائے گا تو 20 کروڑ کے ملک میں جہاں نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد بستی ہے، اس میں ان لوگوں کا کیا بنے گا جو روزگار کمانے کے لیے ہر روز گھر سے نکلتے ہیں؟‘
شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ پاکستانی معیشت میں افراط زر کی اتنی کم شرح معاشی سکڑاؤ کی طرف اشارے کر رہی ہے لیکن ایک سال تک اس عمل کے معیشت پر حاوی ہونے کا امکان کم ہے۔
معاشی تجزیہ کار خرم شہزاد کے مطابق افراط زر میں کمی عام لوگوں کے لیے اور حکومت کے لیے اچھی خبر ہے، بشرطیکہ وہ کمی ایک حد تک ہو۔
’افراط زر میں کمی ہمارے جیسے ملکوں کی معیشت کے لیے بہت اچھی ہوتی ہے جن کا انحصار درآمدات، مثلاً پٹرول پر ہو۔ دوسری طرف عام آدمی کے لیے افراط زر میں کمی اس لیے مفید ہے کہ بہت سی آسائشیں جو پہلے اس کی دسترس میں نہیں تھیں وہ بھی اسے مل سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر کرائے کم ہونے سے وہ اپنے بچوں کو گھمانے پھرانے لے جا سکتا ہے۔‘
تاہم خرم شہزاد نے بھی اس رائے سے اتفاق کیا کہ اتنی کم سطح پر افراط زر اگر زیادہ عرصے تک برقرار رہے تو اس سے معیشت کے بڑھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے جو طویل مدت میں ملک کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔

اتنی کم سطح پر افراط زر اگر زیادہ عرصے تک برقرار رہے تو اس سے معیشت کے بڑھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے جو طویل مدت میں ملک کے لیے اچھا نہیں ہو گا’اگر مہنگائی بالکل ہی کم ہو جائے گی تو مصنوعات کو بنانے اور انھیں بیچنے کا فائدہ نہیں ہو گا، یوں صنعت کا پہیہ رک جائے گا۔ لیکن پاکستان اس صورت حال سے ابھی بہت دور ہے۔ تو اگر افراط زر اس شرح پر کچھ عرصہ برقرار بھی رہتی ہے تو غریب اور متوسط درجے کے لوگوں کو اس سے فائدہ ہی ہو گا کیونکہ ہمارے ملک میں مصنوعات کی قیمتیں مصنوعی طور پر اتنی زیادہ اور ان میں نفع اتنا زیادہ ہے کہ کم افراط زر کو ہمارا صنعت کار باقی ملکوں کے مقابلے میں زیادہ طویل عرصے تک برداشت کر سکتا ہے، جہاں نفعے کا تناسب کم ہوتا ہے۔‘
شاہد حسن صدیقی کے مطابق انھیں لگتا ہے کہ اگلے سال سے افراط زر کی شرح میں دوبارہ اضافہ ہو گا اور 2018 تک معیشت پھر سے بحران کا شکار ہو جائے گی۔
’افراط زر میں اس قدر کمی کی وجہ سے آگے چل کر معیشت کے لیے بہت زیادہ خطرات ہوں گے۔ اسی مالی سال میں افراط زر بڑھے گا کیونکہ اس میں مزید کمی کی گنجائش ہی نہیں رہی۔ ویسے بھی حکومت نے گیس اور دیگر یوٹیلیٹیز کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ہے۔ دوسری طرف حکومت اپنے ملکی اور غیر ملکی قرضوں کی اقساط واپس نہیں کر سکے گی اور یوں اسے آئی ایم ایف سے ایک بار پھر قرضہ لینا پڑے گا۔‘
شاہد صدیقی کے مطابق اس طرح پاکستانی معیشت اس شیطانی چکر میں پھنس کر رہ گئی ہے جس کی وجہ سے ہر چند سال بعد ایک بحران آئے گا اور اسے حل کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے مزید قرض درکار ہو گا۔ اور اس قرضے سے ایک نیا معاشی بحران جنم لے گا۔
Source
Last edited by a moderator: