
اسلام آباد: فریڈم نیٹ ورک کی سالانہ "فریڈم آف ایکسپریشن اینڈ میڈیا فریڈم رپورٹ 2025" میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان کا میڈیا اس وقت شدید بحران کا شکار ہے اور اپنی بقا کے ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ رپورٹ کے مطابق میڈیا کو بڑھتی ہوئی پابندیوں، سیکیورٹی خدشات، ملازمتوں کے غیر یقینی مستقبل اور صحافتی سالمیت کو درپیش چیلنجز نے ایک "محاصرے" کی کیفیت میں دھکیل دیا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع اس رپورٹ کے مطابق، "آزادی اظہار اور مفاد عامہ کی صحافت محاصرے میں ہے" کے عنوان سے جاری کردہ تجزیے میں کہا گیا ہے کہ میڈیا کے بحران کی ایک بڑی وجہ جنوری 2025 میں "پیکا" قانون میں کی گئی وہ متنازعہ ترامیم ہیں، جنہوں نے حکام کو صحافیوں اور ناقدین کو آسانی سے گرفتار کرنے، جرمانے کرنے اور جیل بھیجنے کا اختیار دے دیا۔
فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے کہا کہ صورتحال پاکستان میں جمہوریت کی بنیادوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے اور ریاست اختلاف رائے کے لیے مزید سخت اور عدم برداشت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
رپورٹ کے مصنف عدنان رحمت نے مئی 2024 سے اپریل 2025 تک کے عرصے میں آزادی اظہار کی صورت حال کا جائزہ لیا، جس میں بتایا گیا کہ اس دوران ملک میں کم از کم 5 صحافی قتل کیے گئے — جن میں سے 3 سندھ اور 2 خیبر پختونخوا میں مارے گئے۔ مزید یہ کہ 82 سے زائد صحافیوں کو دھمکیوں، حملوں یا دیگر نوعیت کی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔
خیبر پختونخوا 22 کیسز کے ساتھ صحافیوں کے لیے سب سے خطرناک صوبہ قرار پایا، اس کے بعد اسلام آباد میں 20، پنجاب میں 18، بلوچستان میں 4 اور آزاد کشمیر میں 1 کیس ریکارڈ کیا گیا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ کم از کم 14 صحافیوں پر قانونی مقدمات قائم کیے گئے، جن میں سے زیادہ تر پیکا کے تحت تھے، جبکہ 8 صحافیوں کو گرفتار یا حراست میں لیا گیا۔
اس رپورٹ میں آزادی اظہار پر سنسرشپ، تشدد، خواتین صحافیوں کو درپیش چیلنجز، ڈیجیٹل حقوق پر قدغن، سیاسی دباؤ، اور معلومات تک محدود رسائی کو میڈیا کی گرتی ہوئی حالت کی بڑی وجوہات قرار دیا گیا ہے۔ اگرچہ میڈیا میں خواتین کی نمائندگی کچھ حد تک بڑھی ہے، تاہم اب بھی نمایاں عدم مساوات موجود ہے۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ آئینی سطح پر آزادی اظہار اور اختلاف رائے کے حق کو یقینی بنانے کے لیے ایک قومی تحریک کی بنیاد رکھی جائے، جس میں سول سوسائٹی، میڈیا، اور عوامی نمائندے بھرپور شرکت کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ شہریوں کے ڈیجیٹل حقوق کے تحفظ کے لیے ایک نئے قومی چارٹر پر اتفاق رائے کی بھی تجویز دی گئی ہے تاکہ آن لائن آزادی اظہار کو بھی آئینی تحفظ حاصل ہو۔