
فروری 2016 میں اقوام متحدہ کی جانب سے ایجنڈا 2030 کی قرارداد کی متفقہ منظوری کے بعد پاکستان نے عالمی اہداف کو مقامی طور پر اپنانے اور قومی فریم ورک کی طرف پہلا قدم اٹھایا، جب حکومت نے پائیدار ترقی کے ہدف کو ترجیحی اہداف میں رکھا اور اس تک پہنچنے کیلئے مددگار 7 اہداف میں سے4 کو اپنانے کا فیصلہ کیا۔
پاکستان یوتھ چینج ایڈوکیٹس (پی۔وائی۔سی۔اے) اور ایجوکیشن چیپمئین نیٹ ورک (ای۔سی۔این) نے حال ہی میں ایک وائٹ پیپر شائع کیا ہے جس میں پائیدار ترقی کے ہدف 4، جس کا تعلق مساوی تعلیم سے ہے، کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس وائٹ پیپر کے مصنف عاصم بشیر خان کے مطابق شناخت کیے گئے اہم پالیسی سپورٹ شعبوں میں معیاری تعلیم اور صنفی برابری شامل ہیں۔
تعلیمی معیار
عاصم بشیر خان نے لکھا کہ سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ تعلیم تک رسائی واحد مسئلہ نہیں ہے جو ہدف 4 کی جانب پاکستان کی پیشرفت کو روک رہا ہے۔ سرکاری اسکولوں میں دی جانے والی تعلیم کا معیار اور اس کے نتیجے میں بچوں کی سیکھنے کی صلاحیت تشویش کا باعث ہے۔ پاکستانی بچوں کے سیکھنے کے نتائج خاص طور پر نچلے سماجی و اقتصادی طبقے میں خراب ہیں۔

تعلیم میں صنفی مساوات اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان میں لڑکیوں اور لڑکوں کی تعلیم تک رسائی کے درمیان فرق جنوبی ایشیا میں افغانستان کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ سماجی سطح پر صنفی امتیازات، لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کے اسکولوں کا کم ہونا اور غربت وہ ایسے عوامل ہیں جو پاکستان میں بچیوں کی تعلیم تک رسائی کو اثر انداز کرتے ہیں۔
وائٹ پیپر کے مطابق 2020 کے اعداد وشمار کو دیکھا جائے تو پاکستان میں دیہی مردوں کی شرح خواندگی 64 فیصد ہے جبکہ دیہات میں خواتین کی شرح خواندگی صرف 14 فیصد ہے۔
مجموعی طور پر پاکستان میں پرائمری سطح پر داخل ہونے والی ہر 100 لڑکیوں کے مقابلے اسی عمر کی 60 لڑکیاں اسکولوں سے باہر ہیں۔ جب کہ سیکنڈری سطح پر ہر 100 لڑکیوں کے مقابلے 223 اسکولوں سے باہر ہیں۔
پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے حالات بھی کسی حد تک اثر انداز ہوئے ہیں۔ کورونا وائرس سے گھریلو آمدنی میں زبردست کمی ہوئی جس کے نتیجے میں پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی میں مزید کمی دیکھی گئی۔
لاک ڈاؤن کے ابتدائی مرحلے سے شروع ہونے والے مالی مسائل کا ابھی تک بہت سے گھرانوں کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے اسکول جانے کی عمر کی بہت سی لڑکیوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ یا تو گھریلو آمدنی کو پورا کرنے کے لیے مزدوری کریں یا گھریلو اخراجات کو کم کرنے کے لیے انہیں اسکول جانے سے روک دیا جاتا ہے۔

لڑکوں کی تعلیم کے لیے اداروں کے مقابلے ہر تعلیمی سطح پر لڑکیوں کے اسکولوں کی بھی شدید کمی ہے۔ پاکستان کے حالیہ تعلیمی اعداد وشمار کے مطابق ملک میں 1 لاکھ 19ہزار 813 مخلوط طرز کے پرائمری اسکولوں میں سے صرف 43ہزار 741 یا 36 فیصد لڑکیوں کے ہیں۔ ثانوی اور اعلیٰ ثانوی سطح پر یہ شرح مجموعی طور پر 46 فیصد ہے۔

صنفی برابری کی جانب پیشرفت میں بجٹ سازی کا بہت مرکزی کردار ہے۔ تعلیمی نظام میں برابری کو موثر طور پر جانچنا تب تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک بجٹ دستاویز کی منصوبہ بندی، مسودہ سازی، ان پرعمل درآمد اور تشخیص سمیت بجٹ سازی کے پورے عمل میں صنفی نقطہ نظر کو سامنے نہ رکھا جائے۔
یہاں یہ بات قابل زکر ہے کہ2018 میں خیبرپختونخوا پہلا اور واحد صوبہ بنا جس نے تعلیم میں صنفی لحاظ سے بجٹ متعارف کرایا۔ تاہم بدقسمتی سے دیگر صوبوں نے ابھی تک اس کی پیروی نہیں کی۔
تعلیمی میعار میں بہتری اور صنفی مساوات کو یقینی بنانے کے لیے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ ایک جانب تو تعلیمی ترقیاتی بجٹ میں اضافہ کیا جائے اور دوسری جانب ان فنڈز کے موثر استعمال کو یقینی بنایا جائے۔

یہ مضمون پاکستان یوتھ چینج ایڈووکیٹس کی مہم کا حصہ ہے۔ مزید معلومات کے لیے ان کے فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام اور یوٹیوب ہینڈلز کو فالو کریں۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/9chils.jpg
Last edited by a moderator: