no_handle_
MPA (400+ posts)
''فیلکنز'' (falcons)
ایک اصطلاحی لفظ جو اُن خاموش وطن کے چاہنے والوں کے لئے استمعال کیا جاتا رہا ہے جو خاموشی سے وطن کی عظمت، اُس کی ترقی اور اُس کے مُستقبل کیلئے ہمہ وقت، ہر حال میں محو رہتے. کب کہاں کس حال میں جئیے، کسی کو کوئی خبر نہ ہوتی.. ..کب کیسے موت واقع ہوئی شاہد کوئی کتاب، کسی جا، کسی مُقام پہ اک سطر تک نصیب میں نہ آئے .. اُنہیں حاجتِ ہاوکار کبھی ہوئی بھی نا. اُن کی مثال اُس مالی کی سی ہے جو بس پودے کو روز پلتا دیکھ محظوظ ہوتا جاتا ہے، کوئی اُس کی اس کاوش کو مانے نہ مانے، جانے نہ جانے... ''فیلکنز'' کی منزل اُن کے وطن کی کامیابی اور اُن کی تعریف اُن کے وطن کی تعریف میں زَم ہوا کرتی ہے.. اُنہیں اِس سے کوئی سروکار نہیں کہ کسی کا کل کیسا تھا، کوئی کہاں کس کے ساتھ تھا، وہ اچھا تھا کہ بُرا، اگر وطن کی خدمت کو اُن کے ساتھ آن لگے تو وہ اُس پتھر کو ہیرا بنانے کا ہُنر جانتے تھے، کہ یہی کام اُنہیں اُن کے وطن کا سب سے مُنفرد معیار ، سب سے نایاب منسب دیتا تھا. مُورخ اُنہیں کبھی کنگ میکرز اور کبھی خاموش سپاہیوں کا نام دیتے ہیں مگر در حقیقت یہ لوگ کسی بھی کامیاب قوم کی بُنیادیں ہوا کرتے ہیں اور اُس قوم کے اِک اِک شخص کی آزادی میں جیتے ہیں.
ایک اصطلاحی لفظ جو اُن خاموش وطن کے چاہنے والوں کے لئے استمعال کیا جاتا رہا ہے جو خاموشی سے وطن کی عظمت، اُس کی ترقی اور اُس کے مُستقبل کیلئے ہمہ وقت، ہر حال میں محو رہتے. کب کہاں کس حال میں جئیے، کسی کو کوئی خبر نہ ہوتی.. ..کب کیسے موت واقع ہوئی شاہد کوئی کتاب، کسی جا، کسی مُقام پہ اک سطر تک نصیب میں نہ آئے .. اُنہیں حاجتِ ہاوکار کبھی ہوئی بھی نا. اُن کی مثال اُس مالی کی سی ہے جو بس پودے کو روز پلتا دیکھ محظوظ ہوتا جاتا ہے، کوئی اُس کی اس کاوش کو مانے نہ مانے، جانے نہ جانے... ''فیلکنز'' کی منزل اُن کے وطن کی کامیابی اور اُن کی تعریف اُن کے وطن کی تعریف میں زَم ہوا کرتی ہے.. اُنہیں اِس سے کوئی سروکار نہیں کہ کسی کا کل کیسا تھا، کوئی کہاں کس کے ساتھ تھا، وہ اچھا تھا کہ بُرا، اگر وطن کی خدمت کو اُن کے ساتھ آن لگے تو وہ اُس پتھر کو ہیرا بنانے کا ہُنر جانتے تھے، کہ یہی کام اُنہیں اُن کے وطن کا سب سے مُنفرد معیار ، سب سے نایاب منسب دیتا تھا. مُورخ اُنہیں کبھی کنگ میکرز اور کبھی خاموش سپاہیوں کا نام دیتے ہیں مگر در حقیقت یہ لوگ کسی بھی کامیاب قوم کی بُنیادیں ہوا کرتے ہیں اور اُس قوم کے اِک اِک شخص کی آزادی میں جیتے ہیں.
اسی طرح "جیکیلز" (Jackals)
اُن محنت کش ورکرز کو کہا جاتا ہے جو ایک خاص مقصد کی خاطر یکجا ہو کر کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ راہِ حق کو پہنچا جائے. اس کاوش میں اُن کی اُڑان کو پہچانا ، مانا اور سمجھا جائے. یہاں تک کہ ہر عہدہ اور منصب اُن کی خواہش اور منشا کے مُطابق صرف اُنہیں دیا جائے. وہ جو منزل کے تعیون کی ابتداء میں ساتھ تھے، محنت کرتے رہے، غرض حقِ منصب اُن کا سب سے پہلے ہے. گویا ایسے کسی بھی شخص کو سطر میں اُوپر جانے کا حق نہیں جو ماضی میں آغیار کے ساتھ رہا اور اب آن ملا، اگرچہ امیرِ قافلہ اس نئے شخص کو حاضرین میں سب سے بہتر سمجھتا ہو . اس نا انصافی پہ ''جیکیلز'' اکثر اپنے ہی امیر کے فیصلے پہ علمِ بغاوت بُلند کرنے سے نہیں کتراتے. مورخ اِنہیں باغیوں کے نام سے جانا کرتے ہیں.
یہ بات قابلِ غور ہے کہ دونوں ہی وطن پرست اور وطن کے لئے لازم و ملزوم ہیں. کسی بھی قوم کی ترقی اِن کے بنا ممکن ہو ہی نہیں سکتی. نہ سب کے سب ''فیلکینز'' بن سکتے ہیں اور نہ ہی سب ''جیکیلز''. ان کا متوازن ہونا بھی ضروری ہے، جس کا فیصلہ صرف امیر کر سکتا ہے. تحریکِ انصاف میں ابتدء میں ''فیلکینز'' بہت تھے اور اب ''جیکیلز'' زیادہ ہیں. یہ غیر متوازن سلسلہ اب کسی بھی ایسے شخص کو قبول کرنے کو تیار نہیں جو ہُنر مند تو بہت ہو مگر آغیار کی گود میں پَلا ہو.
سالوں سال قبل عمران خان اس کاروان کا عَلم اُٹھائے اکیلا ہی نکلا تھا. راہ میں کتنی ہی مشکلیں، کتنی ہی رُکاوٹیں کیوں نہ آئیں، اس با ہمت جواں مرد ، اس وطن پرست نے ہمت نہ ہاری اور ہم تک جب پہنچا تو سارا زادِ سفر، تمام روشنی ہماری راہوں میں سجا دی. اور اب جو ہمیں آنکھیں ملی ہیں تو اُسی شخص کی منطق، وسیح نظری اور دُور اندیشی کو سمجھے بنا، سہی کو سہی غلط کو غلط کی منطق الاپتے اپنے ہی گھر کی چھت پہ شگاف ڈال رہے ہیں. اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ہمیں کیا منصب ملا، کس کو کیا عہدہ ملا، کون کیا ہے یا تھا، جب منزل پاکستان اور امیر عمران خان ہے تو پھر کیوں نا اس سفر میں جو ہم سے بن پڑے کر گُزریں. ایک دوسرے کے بازو، ایک دوسرے کے سہارے بنیں. جو کل غیر تھا، آج تو اپنا ہے. ہم سے اک کُرسی آگے کر لی تو کیا غم، اب وہ ہمارہ اپنا ہے. اُس کا کل جو بھی تھا، اُس کا آج ہمارے ساتھ ہے. آؤ ہر آنے والے کو احساس دلائیں کے اُس نے کُچھ نہیں کھویا، اُس نے پاکستان کمایا ہے. جس کو جو کام ملے وہ کرے، نیا ہو یا پُرانا، آؤ ہم سب مل کر اپنے پاکستان کو ڈھونڈھ نکالیں...
''تیرے منصب دے رولے نے اَڑیا...
ویکھ کِتھے مُلک نہ گنوا بیٹھیں..."
تنقید برائے تزلیل کی بجائے تنقید برائے اصلاح کرنا ہو گئ. آج ہم پہلے پورے شہر میں ڈھنڈورا پیٹتے ہیں پھر عمران خان سے اُمید رکھتے ہیں کہ اس بدنامی کو چار دیواری میں حل کیا جائے. ملک کیا ہے؟ وطن کیا ہے؟ قوم کیا ہے؟ ملت کیا ہے؟ گھر کیا ہے؟ خاندان کیا ہے؟ میں کیا ہوں؟ یہ وہ سوال ہیں جن کے جواب ہمیں ڈونڈھنا ہیں. 14 اگست پھر قریب ہے،کئی برس بیت گئے ہمیں یومِ آزادی منائے ہوئے. جس گھر کی خاطر اجداد نے گردنیں کٹوا دیں اس گھر کی تشکیل کا حقیقی جشن اور خوشیاں منائے ہوئے. دیکھو ہم میں آج بھی وطن کو چاہنے والے موجود ہیں، ترانے اب بھی ہماری روح میں سرشاری گھول دیتے ہیں. ہم ابھی بھی زندہ ہیں. اب بھی ہماری ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ جاتی ہے، جب ہم وطن کی محبت سے بھرپور نغمات، منظومات اور تقاریر سنتے ہیں. کچھ ہے، جو خون میں شامل ہے. کچھ ہے، جو خون میں گرمی کا باعث ہے. کچھ ہے، جس کی وجہ سے جذبات کا پرسکون سمندر ٹھاٹھیں مارنے پر آمادہ ہوجاتا ہے. تو کیوں نہ سب مل کر ساتھ چلئیں، کسی حسب نصب کیلئے نہیں، اے وطن تیرے لیئے......
عشقِ وطن ہے شامل, میرے لہو میں ورنہ ....
میں کب کا ٹوٹ کر پاش پاش ہو گیا ہوتا...
Source
Source
Last edited by a moderator: