لاہور ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ ہمارے سامنے اگر کسی رکن اسمبلی نے وزیر اعلی پنجاب کے الیکشن کو جعلی قرار دیا اس پر توہین عدالت لگ سکتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ ک میں حمزہ شہباز شریف کی حلف برداری کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت ہوئی، سماعت جسٹس صداقت علی کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کی،اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس اور پاکستان تحریک انصاف کے وکیل امتیاز صدیقی عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت کے دلائل دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کے آگے سے زیادہ ارکان کہتے ہیں کہ وزیر اعلی کا انتخاب جعلی ہے۔
جس پر ریمارکس دیتے ہوئے ارکان اسمبلی یہ ہمارے سامنے کہہ دیں کہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوسکتی ہے کیونکہ وزیر اعلی کے انتخاب کا حکم لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے دیا تھا۔
جس پر پی ٹی آئی کے وکیل نے موقف اپ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو جعلی نہیں کہہ رہے، بلکہ سارے عمل کو جعلی کہہ رہےنہیں، اسمبلی میں جو کچھ ہوا اس کی بنیاد پر یہ رائے دی جارہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ گورنر حلف لینے سے انکار نہیں کرسکتا مگر ان کے پاس اسمبلی کے سیکرٹری کی رپورٹ اور دیگر مواد آیا، اب ایسی صورتحال میں گورنر کو سوچنے کیلئے وقت چاہیے کیونکہ ایسا سیاپا پہلی بار گورنر کے سامنے آیا ہے، اب عدالت کو یہ دیکھنا ہے کہ گورنر کو سوچنے کیلئے کتنا وقت دیا جاسکتا ہے کیونکہ گورنر کے پاس سوچنے کیلئے 24 دن کا وقت ہوتا یے۔
انہوں نے موقف اپنایا کہ گورنر کو سوچنے کیلئے کتنا وقت چاہیے اس بارے میں آئین خاموش ہے لہذا عدالت فیصلہ کرسکتی ہے،حمزہ شہباز کی جانب سے حلف برداری کیلئے بار بار عدالت سے رجوع کرنا بھی بددیانتی کو ثابت کرتا ہے کیونکہ وہ گورنر کو سانس بھی لینے کا وقت نہیں دینا چاہتے تھے کہ کہیں گورنر کوئی فیصلہ نہ کرلیں۔