
لکی مروت کے علاقے شاہ حسن خیل میں والی بال ایک مقبول کھیل تھا، نوجوان اس کھیل کے اتنے شوقین تھے کہ جب بھی 2 ٹیموں کے درمیان میچ ہوتا تو گراؤنڈ تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوتا لیکن ایک افسوسناک واقعے نے اس گاؤں سے والی بال جیسے کھیل کا تقریبا خاتمہ کردیا۔
یکم جنوری 2010 کو شاہ حسن خیل میں ایک انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں والی بال میچ کے دوران خودکش کار بم دھماکے میں 100 سے زائد افراد جاں بحق‘ دو سو کے قریب زخمی ہو گئے ۔
یہ واقعہ یکم جنوری کو تقریباً 5 بجے گاؤں شاہ حسن خیل میں پیش آیا جب دو مقامی ٹیموں کے مابین میچ جاری تھا کہ اچانک زور دار دھماکہ ہوا
عینی شاہدین کے مطابق خودکش بمبار نے بارود سے بھری ڈبل ڈور کیبن کھیل کے میدان کے ساتھ بنی دیوار کے ساتھ ٹکرا دی مذکورہ میدان گھروں کے بیچ واقع ہے اور دھماکے سے آس پاس کے مکانات اور دوکانوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔
میدان میں موجود 12 کھلاڑیوں میں سے صرف ایک کھلاڑی اور ریفری عبدالرحمان زندہ بچ سکے۔
عبدالر حمان کی گردن، پیشانی اور جسم کے دیگر حصوں پر زخم آئے۔ سماعت اور بینائی بری طرح متاثر ہوئی۔ ایک کھلاڑی بچ گیا وہ نیٹ مین کے طور پر کھیل رہا تھا وہ جو کھیل کے دوران نیٹ کے قریب کھڑا ہونے کی وجہ سے بچ گیا۔
اس افسوس ناک واقعے کو 12 سال ہوچکے ہیں، لیکن والی بال کا کھیل آج تک اس علاقے میں دہشت کی علامت بنا ہوا تھا ۔اس کھیل پر علاقے کے لوگ جان چھڑکتے تھے وہ اسی کھیل سے بھاگنے لگے۔
بعض لوگوں کے مطابق انھیں اس کھیل سے ہی نفرت ہو گئی اور کسی کا کہنا ہے کہ اس کھیل سے ان کے زخم تازہ ہو جاتے ہیں۔
اس میدان اور اس کے قریب تباہ ہونے والے مکانات کا ملبہ آج بھی وہیں موجود ہے، اس میدان میں صرف ایک تبدیلی آئی ہے۔ جس جانب سے گاڑی میدان میں داخل ہوئی تھی اس جانب دیوار کھڑی کر دی گئی ہے ۔
لکی مروت اور اس کے قریب واقع سینکڑوں چھوٹے بڑے دیہاتوں میں والی بال سب سے پسندیدہ کھیل رہا ہے۔ یہاں سے والی بال کے کھلاڑی قومی اور محکمانہ ٹیموں میں بھی کھیل چکے ہیں۔
اس واقعے سے متاثرہ میچ ریفری عبدالرحمان کے ذہن پر آج بھی یہ واقعہ نقش ہے جس کا کہنا ہے کہ میں یہاں عصر کے وقت آتا تھا اور ریفری کے فرائض سر انجام دیتا تھا۔
عبدالرحمان کا کہنا تھا کہ دھماکے کے بعد جو منظر میں نے دیکھا وہ دیکھنے کے قابل نہیں تھا ہرطرف اندھیرا تھا۔ دھماکے کے بعد میں بے ہوش ہوگیا تھا اور جب ہوش آیا تو میرے پیشانی پر لگے زخم سے خون بہہ رہا تھا۔ اردگرد لاشیں اور زخمی پڑے تھے اور لوگ درد سے کراہ رہے تھے۔
عبدالرحمان کے مطابق اس واقعے میں اس نے اپنے بڑے بھائی اور 9 پڑوسیوں کو کھودیا تھا، گاؤں میں تقریبا ہر گھر میں کسی نہ کسی رشتہ دار کی موت ہوئی تھی۔
اسکے مطابق اس واقعے کا صدمہ اتنا بڑا تھا کہ تقریباً 12 سالوں تک کسی نے علاقے میں اس کھیل کو کھیلنے کی مت نہیں کی اور دوسرا س واقعے میں گاوں کے اکثر نوجوان جو والی بال کھیلتے تھے جان سے چلے گئے تھے۔
ایک سماجی کارکن عبدالقدوس خان جو حال ہی میں شاہ حسن خیل کی ویلج کونسل کے چیئرمین منتخب ہوئے ہیں علاقے میں اس کھیل کو دوبارہ متعارف کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
عبدالقدوس خان کا کہنا ہے کہ والی بال ہمارا پسندیدہ کھیل ہے ، گاؤں کے نوجوانوں کو ایک بار پھر اس کھیل کو اپنانے کے لیے قائل کیا، انکے مطابق والی بال گاؤں میں مقبول ہے کیونکہ یہاں کرکٹ اور فٹ بال کے لیے کوئی میدان نہیں ہے۔
انہوں نے تحریک انصاف کی صوبائی حکومت سے والی بال کیلئے سہولیات کا بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ اگر اس علاقے کو سہولیات اور جدید گراؤنڈ دیا جائے تو قومی سطح کے کھلاڑی پیدا ہوں گے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/volley-ball1i1i221.jpg