ظلم -نا انصافی اور امن ....
بات آسان تھی مگر سمجھ میں اب آئی .مارٹن لنگز کی سیرت نبی، پڑھ رہا تھا .نبوت سے پہلے حجاز اور ارد گرد کے قبائل میں خون ریز جنگیں ہوتی تھیں .سبب یہ تھا کہ اگر کسی ایک قبیلے کا کوئی فرد قتل ہو جاتا ،یا کسی کے مویشی ہتھیا لیے جاتے اور کوئی اور ظلم یا نہ انصافی ہوتی تو انصاف کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے قبیلے ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار ہو جاتے .اور کی ایک قبائل نے ایک دوسرے کے ساتھ معادے کر رکھے تھے اور حلیف تھے .یہ آ پس میں حلیف بن کر دوسرے سے لڑ پڑتے اور یہ جنگیں سالوں جاری رہتیں .
مکہ کے قریش تجارت کی غرض سے شام اورجبشہ (مجودہ مغربی افریقہ ) جایا کرتے تھے .وہاں انہوں نے دیکھا کہ اگر کسی کے ساتھ ظلم ہوتا ہے تو انصاف کا ایک مناسب نظام موجود ہے جس سے قبائل میں جنگیں بہت کم ہوتی تھیں .قریش بھی انصاف کا کوئی ایک نظام چاہتے تھے کہ کسی طرح قبائل کی خونریزی سے بچا جا سکے .نبوت کے بعد نبی کریم نے سب سے پہلے انصاف کا نظام دیا .جس میں مجرم کو سزا ملتی اور مظلوموں کی داد رسی ہوتی .قانون تلے سب برابر آ کھڑے ہوے .عدل کے آگے نہ کوئی امیر اور نہ غریب ،نہ عربی اور نہ عجمی .عدل آیا اور امن ہو گیا .اسلامی تاریخ اور سیرت نبی ایسی کی مثالوں سے بھری پڑی ہے .
میں پچھلے کی دنوں سے سوچ رہا تھا کہ پاکستان اور اس جیسے دوسرے ممالک میں انتشار اور شدت پسندی کی وجہ کیا ہو سکتی ہے ؟مجھے اس کا جواب آج مل گیا .
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ محلے کا ایک بچہ محلے کے دوسرے بچے سے مختلف اور غیر میعاری تعلیم حاصل کرے اور وہ معتدل بھی رہے .یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ شہر کے ایک بندے کے لیے بہترین علاج کی سہولت ہو اور دوسرے کے لیے ٹھوکریں ہوں اور اس کا ذھن بھی نارمل رہے .یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ماں اپنے بچوں کے لیے ایک وقت کا کھانا نہ بنا سکے اور سامنے کسی گھر کے بچے پیٹ بھر کر سوتے ہوں اور ماں کا ذھن اشتعال میں نہ آئے .یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ گرمیوں میں اپنا پانی ٹھنڈا کرنے کے لیے تپتی دوپہر میں کسی اور دروازے پر برف کی بھیک مانگ رہے ہوں اور وہ پر امن بھی رہ سکیں .یہ کیسے سے ہو سکتا ہے کہ میرا بچہ تپتی دوپہروں میں سکول سے اپنا بستے کا بوجھ اٹھاے پیدل گھسیٹتا ہو گھر آئے اور کسی اور بچے کو گاڑی اٹھانے آئے اور حالات بھی سب کے لیے موافق چلیں .رات کو ایک ماں اپنے بچوں پر پنکھا جھولتی اسے سلاتی ہو اور دوسرے گھر کے مکین ٹھنڈے کمروں میں بے ہوش سوتے ہوں .
یہی نا انصافی ایک انتشار کو جنم دیتی ہے اور مظلوم کو آپ پر امن رہنے کی تلقین بھی کرتے ہوں .آج کے خودکش نو جوان اپنے کل کے مظلوم بچے تو نہ تھے ؟یہ سوال میرا سب سے ہے .کیا ہم دوغلی اور منافقانہ زندگی تو بسر نہیں کر رہے ؟کیا ہم پروبلم کو سمجھ بھی رہے ہیں یا نہیں ؟میں نے مغربی معاشرے میں دیکھا ہے کہ ہر گھر کو ایک ہی طرح کی بنیادی سہولتیں میسر ہیں .سب کے سکول ،ہسپتال ،مواقع یکساں ہیں اور اس لیے بہتر بھی ہیں .
آج میں یہ کہ سکتا ہوں کہ ظلم کے ساتھ امن کبھی نہیں آسکتا اور نا انصافی کے ماحول میں کوئی بھی چین سے نہ جی سکے گا .اپنی اس نسل کو اور آنے والی نسلوں کو بچانا ہے تو آج سے ظالم کا سہارا نہ بنیں اور اپنے ووٹ کا ٹھیک استعمال کریں
بات آسان تھی مگر سمجھ میں اب آئی .مارٹن لنگز کی سیرت نبی، پڑھ رہا تھا .نبوت سے پہلے حجاز اور ارد گرد کے قبائل میں خون ریز جنگیں ہوتی تھیں .سبب یہ تھا کہ اگر کسی ایک قبیلے کا کوئی فرد قتل ہو جاتا ،یا کسی کے مویشی ہتھیا لیے جاتے اور کوئی اور ظلم یا نہ انصافی ہوتی تو انصاف کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے قبیلے ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار ہو جاتے .اور کی ایک قبائل نے ایک دوسرے کے ساتھ معادے کر رکھے تھے اور حلیف تھے .یہ آ پس میں حلیف بن کر دوسرے سے لڑ پڑتے اور یہ جنگیں سالوں جاری رہتیں .
مکہ کے قریش تجارت کی غرض سے شام اورجبشہ (مجودہ مغربی افریقہ ) جایا کرتے تھے .وہاں انہوں نے دیکھا کہ اگر کسی کے ساتھ ظلم ہوتا ہے تو انصاف کا ایک مناسب نظام موجود ہے جس سے قبائل میں جنگیں بہت کم ہوتی تھیں .قریش بھی انصاف کا کوئی ایک نظام چاہتے تھے کہ کسی طرح قبائل کی خونریزی سے بچا جا سکے .نبوت کے بعد نبی کریم نے سب سے پہلے انصاف کا نظام دیا .جس میں مجرم کو سزا ملتی اور مظلوموں کی داد رسی ہوتی .قانون تلے سب برابر آ کھڑے ہوے .عدل کے آگے نہ کوئی امیر اور نہ غریب ،نہ عربی اور نہ عجمی .عدل آیا اور امن ہو گیا .اسلامی تاریخ اور سیرت نبی ایسی کی مثالوں سے بھری پڑی ہے .
میں پچھلے کی دنوں سے سوچ رہا تھا کہ پاکستان اور اس جیسے دوسرے ممالک میں انتشار اور شدت پسندی کی وجہ کیا ہو سکتی ہے ؟مجھے اس کا جواب آج مل گیا .
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ محلے کا ایک بچہ محلے کے دوسرے بچے سے مختلف اور غیر میعاری تعلیم حاصل کرے اور وہ معتدل بھی رہے .یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ شہر کے ایک بندے کے لیے بہترین علاج کی سہولت ہو اور دوسرے کے لیے ٹھوکریں ہوں اور اس کا ذھن بھی نارمل رہے .یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ماں اپنے بچوں کے لیے ایک وقت کا کھانا نہ بنا سکے اور سامنے کسی گھر کے بچے پیٹ بھر کر سوتے ہوں اور ماں کا ذھن اشتعال میں نہ آئے .یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ گرمیوں میں اپنا پانی ٹھنڈا کرنے کے لیے تپتی دوپہر میں کسی اور دروازے پر برف کی بھیک مانگ رہے ہوں اور وہ پر امن بھی رہ سکیں .یہ کیسے سے ہو سکتا ہے کہ میرا بچہ تپتی دوپہروں میں سکول سے اپنا بستے کا بوجھ اٹھاے پیدل گھسیٹتا ہو گھر آئے اور کسی اور بچے کو گاڑی اٹھانے آئے اور حالات بھی سب کے لیے موافق چلیں .رات کو ایک ماں اپنے بچوں پر پنکھا جھولتی اسے سلاتی ہو اور دوسرے گھر کے مکین ٹھنڈے کمروں میں بے ہوش سوتے ہوں .
یہی نا انصافی ایک انتشار کو جنم دیتی ہے اور مظلوم کو آپ پر امن رہنے کی تلقین بھی کرتے ہوں .آج کے خودکش نو جوان اپنے کل کے مظلوم بچے تو نہ تھے ؟یہ سوال میرا سب سے ہے .کیا ہم دوغلی اور منافقانہ زندگی تو بسر نہیں کر رہے ؟کیا ہم پروبلم کو سمجھ بھی رہے ہیں یا نہیں ؟میں نے مغربی معاشرے میں دیکھا ہے کہ ہر گھر کو ایک ہی طرح کی بنیادی سہولتیں میسر ہیں .سب کے سکول ،ہسپتال ،مواقع یکساں ہیں اور اس لیے بہتر بھی ہیں .
آج میں یہ کہ سکتا ہوں کہ ظلم کے ساتھ امن کبھی نہیں آسکتا اور نا انصافی کے ماحول میں کوئی بھی چین سے نہ جی سکے گا .اپنی اس نسل کو اور آنے والی نسلوں کو بچانا ہے تو آج سے ظالم کا سہارا نہ بنیں اور اپنے ووٹ کا ٹھیک استعمال کریں