
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے الوداعی ریفرنس کی تقریب کے بعد بنیادی انسانی حقوق کی یادگار کا افتتاح کیا جس کی تعمیر پچھلے ایک سال سے جاری تھی اور اب آخری مراحل میں ہے۔
بنیادی انسانی حقوق کی یادگار میں مختلف بلاکس میں مختلف عبارتیں اور شعر درج ہیں جیسے کہ اجتماع کا حق، بلاتفریق عوامی مقامات تک رسائی، ملکیت کا حق، تجارت کی آزادی جینے کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی اور غیرقانونی حراست کی ممانعت جیسے الفاظ درج ہیں۔
الوداعی ریفرنس کی تقریب ختم ہونے کے بعد وکلاء نے ان سے ملاقات کی اور بعدازاں قاضی فائز عیسیٰ کے انسانی حقوق کی یادگار کا افتتاح کرنے کے موقع پر کچھ صحافیوں نے ان سے سوالات کیے وہ کوئی جواب دیئے بغیر چلے گئے۔ قاضی فائز عیسیٰ کا دور ختم ہو گیا ہے تاہم انسانی حقوق کی یادگار کا افتتاح کرنے کے بعد ان پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
بنیادی انسانی حقوق کی یادگار کا افتتاح کرنے کے موقع پر سینئر صحافی مطیع اللہ جان اور اسد طور نے بھی قاضی فائز عیسیٰ سے سوالات پوچھے جن کا انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ احمد وڑائچ نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا: 6ججز کا خط بھی انسانی حقوق کے مقبرے میں دفن ہے، اسد طور کا قاضی فائز عیسیٰ سے سوال!
https://twitter.com/x/status/1849723925825220719
صحافی بینظیر شاہ نے لکھا: میرے نزدیک جسٹس فائز عیسی کا دور بطور چیف جسٹس ان کی اہم معاملات میں خاموشی کے لیے یاد رکھا جائے گا! شہریوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل، چھ ججز کے خط کا معاملہ اور آئینی ترمیم پر ان کا رد عمل! ان کے دور میں کیے گئے فیصلوں اور الفاظ سے زیادہ ان کی خاموشی تاریخ میں شاید یاد رکھی جائے گی۔
https://twitter.com/x/status/1849758112984728061
صحافی ماجد نظامی نے لکھا: اگرچہ ثاقب نثار اور فائز عیسیٰ کے خیالات اور شخصیات میں کئی متضاد باتیں ہیں تاہم قدر مشترک یہ رہی کہ بطور چیف جسٹس دونوں نے اپنے اپنے دور کے حاضر سروس صاحبانِ شجاعت کی خواہشات کے عین مطابق اہم فیصلے دئیے! اپنے اپنے دور میں سٹیبلشمنٹ کی "ناپسندیدہ" سیاسی جماعتوں کے پر کاٹنے کے لیے اپنی عدالتی خدمات پیش کیں!
https://twitter.com/x/status/1849777564572885014
مزمل اسلم نے لکھا: قاضی صاحب کا اختتام بطور قاضی ہر صاحب اقتدار اور سرکاری ملازم کیلئے نہایت سبق آموز ہے اور وہ کیا ہے؟ (1)کرسی عارضی ہے (2)اقتدار ایک امانت ہے نا کہ اپنی زاتی ملکیت (3)عزت اور زلت اللہ کے بعد عوام فیصلہ کرتی ہے۔ (4)اخلاق اور عاجزی ایک بہترین اثاثہ ہے۔ (آخری)ایک فیصلہ آپ کا ہے اور ایک اللہ کا!
https://twitter.com/x/status/1849798045682049518
اظہر مشوانی نے لکھا: آج جسٹس یحییٰ آفریدی نے قاضی کو “غصیلے ریچھ” سے تشبیہ دی! کاش یہ غصیلہ ریچھ سپریم کورٹ میں لا کر عوام کی امیدوں کی چیر پھاڑ کرنے کی بجائے محلوں میں کتوں سے لڑائی کے لیے ہی رکھا جاتا!
https://twitter.com/x/status/1849790664453636400
بابر اعوان نے لکھا: وہ چیف جسٹس سے زیادہ کوتوال تھا! سائلین کے منہ پڑتا، معزز وکلاء سے مسلسل بدتمیزی کرتا، آزاد صحافیوں سے چھپتا پھرتا، بنچ پر بیٹھ کر بے تکی سیاسی تقریریں کرتا، عمران خان فوبیا میں جلتا رہا، اس طرزِ چیف جسٹسی نے آئین کو دفنایا!
https://twitter.com/x/status/1849775359686029600
شہید صحافی ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق نے لکھا: آج دو سہولت کار گمنامی میں چلے گئے لیکن عوام اور ڈونٹس ان کی زندگیاں پررونق رکھیں گے!
https://twitter.com/x/status/1849730350894989789
صدیق جان نے لکھا: قاضی تھا۔۔۔عمران ہے!
https://twitter.com/x/status/1849787688800379143
سینئر صحافی مطیع اللہ جان نے لکھا: چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے الوداعی عدالتی ریفرنس میں پانچ ججز کی عدم شرکت جانے اور آنے والے قاضیوں اور دیگر ججوں کے لیے سبق آموز ہونا چاہئے۔ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس ملک شہزاد احمد آج کے فل کورٹ ریفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔
انہوں نے لکھا: یہ وہ قاضی فائز عیسیٰ ہیں جو عہدہ سنبھالتے ہی فل کورٹ بلا کر سپریم کورٹ کے ججوں میں یکجہتی بحال کرنے کا دعویٰ کرتے تھے اور آج اپنے آخری الوداعی ریفرنس میں سپریم کورٹ کی یکجہتی ہی نہیں ملک اور قوم کو بھی سیاسی انتشار کا شکار کر کے جا رہے ہیں۔
https://twitter.com/x/status/1849696943271968880
صحافی اجمل جامی نے لکھا: انہیں ویسے "بنیادی حقوق یادگار" کا افتتاح زیب دیتا تھا؟ کچھ اور کر لیتے بھلا۔۔ کچھ تو ذہن میں ندامت ہوئی ہوگی، کچھ تو لجاجت محسوس ہوئی ہوگی، بنیادی حقوق اور میں؟ کچھ تو۔۔! رتی برابر بھی نہیں۔۔؟! واقعی۔۔؟ یعنی حد ہے۔۔!
https://twitter.com/x/status/1849716338786226418