mehwish_ali
Chief Minister (5k+ posts)
میرا خیال ابھی تک یہ ہے کہ بہتر پالیسی ہو گی موجودہ صوبوں کو اسی حالت میں رہنے دیا جائے، مگر شہری حکومتی نظام کو مضبوط سے مضبوط تر بناتے ہوئے اختیارات کو ممکنہ حد تک نچلی سطح پر منتقل کر دیا جائے۔ اس طرح سانپ بھی مر جاتا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹتی۔
آپ کو یاد ہو یا نہ یاد ہو، مگر شہری حکومتی نظام کے تعارف کے بعد صوبائی اسمبلیوں کی اہمیت فقط "قانون سازی" تک محدود ہو کر رہ گئی اور تمام تر کرپٹ وڈیروں اور جاگیرداروں کے لیے اس کی اہمیت ختم ہو گئی۔ بہت سوں نے صوبائی اسمبلی کی سیٹ چھوڑ کر ضلعی حکومتی نظام کے لیے انتخابات لڑے۔
مضبوط شہری حکومت بن جانے کے بعد سرائیکی آبادی (یا کم از کم انکے لیڈروں) کے پاس کوئی بہانہ نہیں رہ جائے گا کہ پنجاب اکثریتی ارکان اسمبلی کی وجہ سے سرائیکی علاقے میں ترقی نہیں ہو رہی ہے۔ نہیں، اسکے بعد خود انکے اپنے لیڈر انکے علاقوں کی ترقی کے ذمہ دار ہوں گے اور دوسروں پر انگلیاں اٹھانے کا کسی کو کوئی موقع نہیں ملے گا۔
اگر غور سے دیکھا جائے تو کراچی ہو یا پھر سرائیکی یا پھر ہزارہ کا علاقہ ۔۔۔ وہاں کی عوام "قانون سازی" کے حوالے سے شکایت نہیں کر رہے کہ صوبائی اسمبلیوں میں انکے خلاف کوئی قانون سازی ہوئی ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔ نہیں، بلکہ اصل شکایت یہ ہے کہ صوبائی محکموں میں صوبائی وزراء کی سفارشیں چلتی ہیں، فقط انکے کام ہوتے ہیں اور اگر کوئی چھوٹے علاقے والے مستحق بھی ہیں تب بھی موجودہ صوبائی نظام میں ان علاقوں میں کوئی ترقی نہیں ہوتی ہے۔
یہ بات بہرحال بالکل سچ ہے کہ موجودہ صوبائی نظام میں چھوٹے علاقے کے لوگوں کی قسمت صوبائی اسمبلی میں بیٹھے کسی اور علاقے کے جاگیردار یا وڈیرے کے ہاتھ میں آ جاتی ہے۔ اُسے بھلا چھوٹے علاقوں کی ترقی سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ چنانچہ بنیادی طور پر یہ نظام غلط ہے۔
چھوٹے علاقوں کے لوگوں کی جائز شکایات کو پورا کرنا بہت ضروری ہے۔
مگر ساتھ ہی ساتھ نئے صوبے بنانا ایک پنڈورا باکس ہے، جہاں وزراء کی تعداد میں تو اضافہ ہو سکتا ہے ، مگر چھوٹے علاقوں کی شکایات شاید پھر بھی دور نہ کی جا سکیں۔ ہر ہر صورت میں شہری نظام حکومت علاقے کی ترقی کے لیے نئے صوبوں کے نظام سے بہتر ہے۔
کاش کہ ہماری عوام ان عوام پر غور کرتی اور نواز شریف کو عقل دلاتی کہ وہ شہری نظام حکومت پر نقب نہ لگائے وگرنہ پنجاب کو ٹوٹے کرنا پڑ جائے گا۔ شہری نظام حکومت کے حق مین ہمارے یہ صحافی کہلائے جانے والے دانشور اس لیے نہیں لکھتے کیونکہ یہ نظام مشرف صاحب نے متعارف کروایا تھا۔ اگر ان لوگوں نے اپنی اصلاح نہ کی تو نئے صوبوں کی صورت میں ایک نیا پنڈورا باکس کھلنے والا ہے۔
آپ کو یاد ہو یا نہ یاد ہو، مگر شہری حکومتی نظام کے تعارف کے بعد صوبائی اسمبلیوں کی اہمیت فقط "قانون سازی" تک محدود ہو کر رہ گئی اور تمام تر کرپٹ وڈیروں اور جاگیرداروں کے لیے اس کی اہمیت ختم ہو گئی۔ بہت سوں نے صوبائی اسمبلی کی سیٹ چھوڑ کر ضلعی حکومتی نظام کے لیے انتخابات لڑے۔
مضبوط شہری حکومت بن جانے کے بعد سرائیکی آبادی (یا کم از کم انکے لیڈروں) کے پاس کوئی بہانہ نہیں رہ جائے گا کہ پنجاب اکثریتی ارکان اسمبلی کی وجہ سے سرائیکی علاقے میں ترقی نہیں ہو رہی ہے۔ نہیں، اسکے بعد خود انکے اپنے لیڈر انکے علاقوں کی ترقی کے ذمہ دار ہوں گے اور دوسروں پر انگلیاں اٹھانے کا کسی کو کوئی موقع نہیں ملے گا۔
اگر غور سے دیکھا جائے تو کراچی ہو یا پھر سرائیکی یا پھر ہزارہ کا علاقہ ۔۔۔ وہاں کی عوام "قانون سازی" کے حوالے سے شکایت نہیں کر رہے کہ صوبائی اسمبلیوں میں انکے خلاف کوئی قانون سازی ہوئی ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔ نہیں، بلکہ اصل شکایت یہ ہے کہ صوبائی محکموں میں صوبائی وزراء کی سفارشیں چلتی ہیں، فقط انکے کام ہوتے ہیں اور اگر کوئی چھوٹے علاقے والے مستحق بھی ہیں تب بھی موجودہ صوبائی نظام میں ان علاقوں میں کوئی ترقی نہیں ہوتی ہے۔
یہ بات بہرحال بالکل سچ ہے کہ موجودہ صوبائی نظام میں چھوٹے علاقے کے لوگوں کی قسمت صوبائی اسمبلی میں بیٹھے کسی اور علاقے کے جاگیردار یا وڈیرے کے ہاتھ میں آ جاتی ہے۔ اُسے بھلا چھوٹے علاقوں کی ترقی سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ چنانچہ بنیادی طور پر یہ نظام غلط ہے۔
چھوٹے علاقوں کے لوگوں کی جائز شکایات کو پورا کرنا بہت ضروری ہے۔
مگر ساتھ ہی ساتھ نئے صوبے بنانا ایک پنڈورا باکس ہے، جہاں وزراء کی تعداد میں تو اضافہ ہو سکتا ہے ، مگر چھوٹے علاقوں کی شکایات شاید پھر بھی دور نہ کی جا سکیں۔ ہر ہر صورت میں شہری نظام حکومت علاقے کی ترقی کے لیے نئے صوبوں کے نظام سے بہتر ہے۔
کاش کہ ہماری عوام ان عوام پر غور کرتی اور نواز شریف کو عقل دلاتی کہ وہ شہری نظام حکومت پر نقب نہ لگائے وگرنہ پنجاب کو ٹوٹے کرنا پڑ جائے گا۔ شہری نظام حکومت کے حق مین ہمارے یہ صحافی کہلائے جانے والے دانشور اس لیے نہیں لکھتے کیونکہ یہ نظام مشرف صاحب نے متعارف کروایا تھا۔ اگر ان لوگوں نے اپنی اصلاح نہ کی تو نئے صوبوں کی صورت میں ایک نیا پنڈورا باکس کھلنے والا ہے۔