
کچھ روز قبل میڈیا ورکر فہیم مغل نے مالی مشکلات کی بناء پر خودکشی کرلی۔فہیم مغل ایکسپریس نیوز سے وابستہ تھے اور انہیں چینل نے مالی مشکلات کو جواز بناکر نکالا تھا۔
متوفی فہیم مغل 5 بچیوں اور ایک بچے کا باپ تھا۔ خودکشی کے روز فہیم کے پاس اپنے بچے کے دودھ کیلئےبھی پیسے نہیں تھے۔
فہیم مغل کی اہلیہ کے مطابق آخری رات سونے سے قبل یہ کہا تھا کہ جب بچوں کے لیے کچھ نہیں کر پا رہا ہوں تو ایسے جینے کا کیا فائدہ ہے۔جس پر اہلیہ نے سمجھایا کہ وہ کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں۔فہیم کی اہلیہ کے مطابق فہیم نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی کہ وہ اپنے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔
اہلیہ کے مطابق اسکے بعد ہم سو گئے۔ جب رات کو میں اٹھی تو دیکھا کہ فہیم کی لاش پھندے سے جھول رہی تھی۔۔
فہیم کے اہلخانہ کے مطابق ایکسپریس سے نکالے جانے کے بعد فہیم نے مختلف جگہ انٹرویو دئیے لیکن انہیں کہیں جاب نہ ملی۔ اسکے بعد فہیم نے رکشہ خریدلیا لیکن کچھ خاص آمدن نہ ہوپائی۔
فہیم کے اہلیہ شہزادی فہیم کے مطابق فہیم نے بہت پرانا رکشہ خریدا تھا جو اکثر خراب اکثر خراب ہو جاتا تھا اور پھر جمع پونجی اس کی مرمت میں ہی خرچ ہو جاتی تھی ، جس کی وجہ سے وہ بچوں کے باقی خرچے پورے نہیں کرپاتا تھا۔
شہزادی کے مطابق جب فہیم کو اس ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑے تو پھر انھیں میڈیا کے شعبے میں کہیں دوبارہ ملازمت نہ ملی۔ اس کے بعد فہیم نے اپنے ایک قریبی دوست سے ایک پرانا آٹو رکشہ قرض پر لیا کہ کم از کم بچوں کا پیٹ تو پال سکیں۔
دوسری جانب فہیم کرائے کے گھر میں رہتا تھا اور مختلف لوگوں سےقرض لے چکا تھا۔ اسی ماہ اس نے اپنے تین بچوں کو سکول داخل کرانے اور مکان کاکرایہ دینے کیلئے اپنی بہن سے قرض لے رکھا تھا۔
یوٹیوبر عبید بھٹی نے اس اخبار جس میں فہیم ملازمت کرتا تھا اور اسے نکال دیا گیا تھا، اس خبر کی خبر شئیر کی اور لکھا کہ اسی سلطان علی لاکھانی کے اخبار "ایکسپریس نیوز" نے خودکشی کرنے والے اپنے ورکر کی خبر یوں لگائی ہے، ملاحظہ ہو۔
https://twitter.com/x/status/1464250902596960272
عبید بھٹی کا کہنا تھا کہ صحافتی تنظیمیں جو دراصل مالکان اور سیاستدانوں کی چاکری کرتی ہیں مال اکٹھا کرتی ہیں۔ وہ اس پر بھی حکومت کو گالیاں دے رہے ہیں جیسے اس صحافی کی تنخواہ حکومت کے ذمہ تھی۔
فہیم کے قریبی ساتھی محمد عمیر کا کہنا تھا کہ فہیم اورمجھ سمیت ایکسپریس کے سینکڑوں صحافیوں کوکم اشتہارات ملنے کے نام پر نکالا گیا۔اربوں کے اشتہارات کے باوجود ایکسپریس میں 8 جنگ میں 10 سال سے تنخواہ نہیں بڑھی۔جو اپنے ورکر کو حق نہیں دیتے وہ کسی کےحق کے نام پردھندہ کرتے ہیں منافقت کرتے ہیں ۔صحافی تنظیمیں بھی مالکان کی محافظ ہیں
https://twitter.com/x/status/1464127904640638977
صحافی عمرانعام کا کہنا تھا کہ ایکسپریس گروپ کے مالک سلطان لاکھانی پاکستان کی 14ویں امیر ترین شخصیت ہیں۔ وہ میکڈونلڈ پاکستان سمیت درجنوں کاروبار کرتے ہیں۔ انکے اخبار سے نکالے گئے فہیم نے کل بھوک سے تنگ آکر خودکشی کرلی۔ بڑی صحافتی تنظیموں اور پریس کلبز والے سالانہ کروڑوں کماتے ہیں لیکن فہیم جیسوں کو بیچ کر
https://twitter.com/x/status/1464118553578283008
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/faheem-mughal-111.jpg