بھارت میں ایک ریلوے ملازم کا اپنی بیوی سے جھگڑا بھارتی ریلوے کو تین کروڑ روپے کا مالی نقصان پہنچانے کا سبب بن گیا۔ یہ حادثہ ایک معمولی فون کال کی وجہ سے شروع ہوا، جس نے نہ صرف اس ملازم کی ذاتی زندگی کو مشکلات میں ڈالا بلکہ اسے قانونی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
واقعے کا مرکزی کردار ایک اسٹیشن ماسٹر ہے، جس کی ازدواجی زندگی کئی سالوں سے مشکلات کا شکار تھی۔ ان کی بیوی کا اپنے سابق ساتھی کے ساتھ جذباتی تعلق تھا، جس کی وجہ سے گھر میں اکثر جھگڑے ہوتے تھے۔ ایک دن جب وہ آندھرا پردیش کے شہر وشاکھاپٹنم میں اپنی ڈیوٹی کے دوران اپنی بیوی سے فون پر بات کر رہے تھے، انہوں نے کہا: "ہم گھر پر بات کریں گے، اوکے؟" تاہم، اس دوران اسٹیشن پر کام کرنے والے مائیکرو فون کے کھلے رہنے کی وجہ سے ان کا یہ جملہ ایک ساتھی نے سن لیا۔
اس ساتھی نے اس "اوکے" کو ایک مال بردار ٹرین کو شورش زدہ علاقے میں بھیجنے کی منظوری سمجھا اور اس پیغام کو فوراً آگے بڑھا دیا۔ اس غلط فہمی کے نتیجے میں اگرچہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، لیکن اس فیصلے کے باعث رات کے وقت کی ٹریننگ کی پابندیاں توڑی گئیں، جس کے نتیجے میں بھارتی ریلوے کو 3 کروڑ بھارتی روپے (تقریباً 270,000 پاؤنڈ) کا مالی نقصان ہوا۔
اس غفلت کے باعث اسٹیشن ماسٹر کو معطلی کا سامنا کرنا پڑا، اور اس کی پہلے سے کشیدہ ازدواجی زندگی مزید پیچیدگیاں اختیار کر گئی۔ ملازمت سے معطلی کے بعد اس نے طلاق کی درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا، تاہم اس کی اہلیہ نے جواباً بھارتی قوانین کے تحت ان کے خلاف شکایت درج کروا دی، جس میں الزام عائد کیا کہ وہ اور ان کے اہل خانہ پر ظلم اور ہراسانی کی جارہی ہے۔
یہ کیس کئی برسوں تک مختلف عدالتوں میں چلا، اور اس میں بے وفائی، جہیز کے مطالبے اور دیگر الزامات کی وجہ سے ایک طویل قانونی پیچیدگی پیدا ہو گئی۔ بالآخر، یہ کیس چھتیس گڑھ ہائی کورٹ پہنچا، جہاں ججز نے اس کیس کا تفصیل سے جائزہ لیا۔ عدالت نے بیوی کے ہراسانی کے دعوؤں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے یہ واضح کیا کہ اس کے سابق محبوب کے ساتھ مسلسل رابطے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جھگڑے، شوہر کے لیے ذہنی اذیت کے مترادف ہیں۔
ہائی کورٹ کے جسٹس راجنی دوبے اور جسٹس سنجے کمار جیسوال پر مشتمل ڈویژن بینچ نے فیملی کورٹ کے پہلے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اسٹیشن ماسٹر کو طلاق دینے کی منظوری دے دی۔ اس فیصلے نے اس طویل اور پیچیدہ کیس کا اختتام کیا، جس کا آغاز ایک معمولی فون کال سے ہوا تھا اور جس نے ایک ریلوے ملازم کی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ اس کے پیشے کو بھی سنگین مسائل سے دوچار کر دیا۔