
ملک میں اس وقت صدارتی نظام حکومت سے متعلق ایک مہم چل رہی ہے جس پر سینئر تجزیہ کاروں نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام"ٹو دی پوائنٹ" میں اینکر پرسن منصور علی خان نے کہا کہ اس ملک میں ایک بار صدارتی نظام آیا جب مارشل لاء کا دور تھا، کسی سویلین دور حکومت میں اس نظام کو نہیں آزمایا گیا، اگر کسی شخص نے اس نظام کا غلط فائدہ اٹھایا تو نظام کے بجائے شخصیت کا مسئلہ ہے۔
پروگرام میں شریک سینئر تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پارلیمانی نظام کو چلنے نہیں دیا جاتا اور صدارتی نظام سے متعلق کوئی کھل کر بات نہیں کرتا، اگر عمران خان ماضی میں صدارتی نظام کے حامی تھے تو انہوں نے پارلیمانی نظام کی سیاست میں حصہ کیوں لیا؟ اگر اب بھی وہ سمجھتے ہیں کہ صدارتی نظام بہتر ہے تو وہ ترمیم کریں ۔
انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف صاحب نے 1997 میں ایک ترمیم کرنے کی کوشش کی تھی جس میں وہ امیر المومنین بننا چاہتے تھے، دو خاندانوں کو ملک کے بگاڑ کا ذمہ دار کہا جاتا ہے ، ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں خاندان گیٹ نمبر 4 کی پیداوار ہیں، تو بنیادی ذمہ دار کون ہوا ، اور کیا گارنٹی ہے کہ صدارتی نظام بھی گیٹ نمبر 4 کی پیداوار نہیں ہوگا؟
سینئر تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے اس حوالے سے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ یہ نظام اور اس نظام کو چلانے والی ساری جماعتیں فیل ہوچکی ہیں، مجھے جمہوریت چاہیے مگر آڈٹ لیس، شاہی خاندانوں کی سیاسی جماعتوں والی ، پرفارمنس لیس اور یوٹرن والی جمہوریت نہیں چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جمہوریت کی خرابی ہے یا اس کو چلانے والوں کی مجھے نہیں پتا مگر 1970 میں بھٹو نے روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگایا تھا آج بھی بلاول کا نعرہ یہی ہے ، سندھ میں لوگوں کو اس جمہوریت نے روٹی کپڑا اور مکان تک نہیں دیا۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/sadarii1i1111.jpg