مساجد یا مسلکی مورچے
خصوصی نوٹس : میں نہ تو کوئی عالم ہوں اور نہ ہی بہت اچھا مسلمان. اس بلاگ میں میری راے ایک عام مسلمان کے ذاتی مشاہدے کے سوا کچھ نہیں . شکریہ
مساجد یا مسلکی مورچے
ہمارے ملک میں مساجد عام طور پر کسی خاص مسلک سے وابستہ ہوتی ہیں. اس مسجد کی انتظامیہ خاص طور پر اس بات کا اہتمام کرتی ہے کے اپنی خاص امتیازی مسلکی شناخت کو کسی نہ کسی طرح نمایاں کیا جائے. کہیں مسجد کے نام کے ساتھ مسلک کا نام لکھا جاتا ہے اور کہیں مسجد کو ایسے رنگ سے رنگا جاتا ہے جو اس مسلک کے حاملین اپنی الگ شناخت کے لئے استعمال کرتے ہیں. پھر اسی مسجد کے جمعہ کے منبر سے دوسرے مسالک پر غیر علمی تنقید بلکہ انھیں طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے. اس طرح جو گھر الله کا گھر ہے اور جس میں ہر کلمہ گو کے آنے میں کسی قسم کی ذہنی اور سماجی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے وہ گھر کسی خاص مسلک کا مسکن بلکہ اپنی انتہائی صورت میں مسلکی مورچہ بن جاتا ہے
اس صورت حال میں آپ کو "مسجد دیوبندی" ، "مسجد بریلوی"، "مسجد اہل حدیث" اور"مسجد سلفی" ضرور مل جائیں گی مگرکوئی ایسی مسجد نہیں ملے گی جس میں ہر الله کا بندہ اپنے عقیدے اور مکتبہ فکر کے مطابق، بغیر کسی فکری اور سماجی رکاوٹ کے نماز ادا کر سکے. وہ جس نبی نے اپنا یہ امتیاز بتایا کے"میرے لئے زمین کو مسجد بنایا گیا" مسلم رقم ١١٦٧)، اسی نبی کی امّت نے زمین پر مساجد کا بٹوارہ کر لیا. ایسی صورت حال میں اگر کوئی شخص یہ چاہے کے وہ ہر مسجد کو الله کا گھر سمجھ کر وہاں نماز ادا کرے تو اسے یہ طعنہ دیا جاتا ہے کے وہ کم علم ہے، گمراہ ہے یا ہو جائے گا، اور "صحیح" علم حاصل کرنے کے بعد وہ بھی کسی خاص مسلک کی مسجد میں ہی نماز ادا کرے گا اور اسی نماز کو الله کی بارگاہ میں قابل قبول جانے گا. ایک طرف تو یہ زبو حالی ہے اور دوسری طرف ہماری امّت کے اکابرین کا یہ طرز عمل رہا کہ جب ایک مکتب فکر کا امام دوسرے مکتب فکر کے امام کی امامت میں نماز ادا کرنے لگا تو اس نے اسی کے طریقے پے نماز ادا کرنا مناسب سمجھا. یقیناً، اس سب سے یہ ظاہر ہوتا ہے کے امّت مسلمہ ، خصوصاً برصغیر پاک و ہند میں، شدید علمی و اخلاقی زوال سے گزر رہی ہے.
اس صورت حال میں ایک با شعور انسان کی نظر اگر متلاشی ہے تو ایک ایسی فضا کی جہاں تمام مساجد کے دروازے ہر کلمہ گو کے لئے کھلے ہوں جہاں مساجد کسی خاص مسلک کے نام سے نہیں بلکہ اسلام کے نام سے منسوب ہوں، جہاں جمعہ کے خطبے میں مساوات، اخلاقیات، باہمی رواداری،محبت، اور علمی رویوں کا درس دیا جایا نہ کے دوسرے فرقوں کے خلاف نفرت کا،اور جہاں ہر کلمہ گو بغیر کسی فکری اور سماجی رکاوٹ کے اپنے طریقے سے نماز ادا کر سکے. ہم سب کو ایسی فضا کے لئے محنت کرنا ہو گی تاکہ ہماری آنے والی نسلیں ایک دوسرے سے اختلاف کے باوجود محبت کریں، ایک دوسرے کی راے کا احترام کریں اور ایک دوسرے پے کفر کے فتوے صادر کر کے دائرہ اسلام سے نکالنے کی بجاے دائرہ اسلام میں لانے والے بنیں
ان مسائل کے سد باب کے لئے ہمارے ملک کے دینی علما کو اپنا بھرپور مثبت کردار ادا کرنا ہو گا. اس سلسلے میں ہمارے اس دور کے مفکر اور عالم دین جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی مندرجہ ذیل تصنیف کچھ اہم اقدامات کی طرف نشاندہی کرتی ہے. پڑھنے کے لئے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجئے.
ہماری مسجدیں
الله ہم سب کو سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق اتا فرماے. آمین.
خصوصی نوٹس : میں نہ تو کوئی عالم ہوں اور نہ ہی بہت اچھا مسلمان. اس بلاگ میں میری راے ایک عام مسلمان کے ذاتی مشاہدے کے سوا کچھ نہیں . شکریہ
مساجد یا مسلکی مورچے
ہمارے ملک میں مساجد عام طور پر کسی خاص مسلک سے وابستہ ہوتی ہیں. اس مسجد کی انتظامیہ خاص طور پر اس بات کا اہتمام کرتی ہے کے اپنی خاص امتیازی مسلکی شناخت کو کسی نہ کسی طرح نمایاں کیا جائے. کہیں مسجد کے نام کے ساتھ مسلک کا نام لکھا جاتا ہے اور کہیں مسجد کو ایسے رنگ سے رنگا جاتا ہے جو اس مسلک کے حاملین اپنی الگ شناخت کے لئے استعمال کرتے ہیں. پھر اسی مسجد کے جمعہ کے منبر سے دوسرے مسالک پر غیر علمی تنقید بلکہ انھیں طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے. اس طرح جو گھر الله کا گھر ہے اور جس میں ہر کلمہ گو کے آنے میں کسی قسم کی ذہنی اور سماجی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے وہ گھر کسی خاص مسلک کا مسکن بلکہ اپنی انتہائی صورت میں مسلکی مورچہ بن جاتا ہے
اس صورت حال میں آپ کو "مسجد دیوبندی" ، "مسجد بریلوی"، "مسجد اہل حدیث" اور"مسجد سلفی" ضرور مل جائیں گی مگرکوئی ایسی مسجد نہیں ملے گی جس میں ہر الله کا بندہ اپنے عقیدے اور مکتبہ فکر کے مطابق، بغیر کسی فکری اور سماجی رکاوٹ کے نماز ادا کر سکے. وہ جس نبی نے اپنا یہ امتیاز بتایا کے"میرے لئے زمین کو مسجد بنایا گیا" مسلم رقم ١١٦٧)، اسی نبی کی امّت نے زمین پر مساجد کا بٹوارہ کر لیا. ایسی صورت حال میں اگر کوئی شخص یہ چاہے کے وہ ہر مسجد کو الله کا گھر سمجھ کر وہاں نماز ادا کرے تو اسے یہ طعنہ دیا جاتا ہے کے وہ کم علم ہے، گمراہ ہے یا ہو جائے گا، اور "صحیح" علم حاصل کرنے کے بعد وہ بھی کسی خاص مسلک کی مسجد میں ہی نماز ادا کرے گا اور اسی نماز کو الله کی بارگاہ میں قابل قبول جانے گا. ایک طرف تو یہ زبو حالی ہے اور دوسری طرف ہماری امّت کے اکابرین کا یہ طرز عمل رہا کہ جب ایک مکتب فکر کا امام دوسرے مکتب فکر کے امام کی امامت میں نماز ادا کرنے لگا تو اس نے اسی کے طریقے پے نماز ادا کرنا مناسب سمجھا. یقیناً، اس سب سے یہ ظاہر ہوتا ہے کے امّت مسلمہ ، خصوصاً برصغیر پاک و ہند میں، شدید علمی و اخلاقی زوال سے گزر رہی ہے.
اس صورت حال میں ایک با شعور انسان کی نظر اگر متلاشی ہے تو ایک ایسی فضا کی جہاں تمام مساجد کے دروازے ہر کلمہ گو کے لئے کھلے ہوں جہاں مساجد کسی خاص مسلک کے نام سے نہیں بلکہ اسلام کے نام سے منسوب ہوں، جہاں جمعہ کے خطبے میں مساوات، اخلاقیات، باہمی رواداری،محبت، اور علمی رویوں کا درس دیا جایا نہ کے دوسرے فرقوں کے خلاف نفرت کا،اور جہاں ہر کلمہ گو بغیر کسی فکری اور سماجی رکاوٹ کے اپنے طریقے سے نماز ادا کر سکے. ہم سب کو ایسی فضا کے لئے محنت کرنا ہو گی تاکہ ہماری آنے والی نسلیں ایک دوسرے سے اختلاف کے باوجود محبت کریں، ایک دوسرے کی راے کا احترام کریں اور ایک دوسرے پے کفر کے فتوے صادر کر کے دائرہ اسلام سے نکالنے کی بجاے دائرہ اسلام میں لانے والے بنیں
ان مسائل کے سد باب کے لئے ہمارے ملک کے دینی علما کو اپنا بھرپور مثبت کردار ادا کرنا ہو گا. اس سلسلے میں ہمارے اس دور کے مفکر اور عالم دین جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی مندرجہ ذیل تصنیف کچھ اہم اقدامات کی طرف نشاندہی کرتی ہے. پڑھنے کے لئے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجئے.
ہماری مسجدیں
الله ہم سب کو سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق اتا فرماے. آمین.
http://aamir-lifelessons.blogspot.com/2012/06/blog-post.html