اقلیتوں کیخلاف پرتشدد کارروائیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے بھارتی حکام کی طرف سے ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں: رپورٹ
دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کہلائے جانے والے بھارت میں آزادی اظہار رائے کا پول کھل کر سامنے آ گیا۔ غیرملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کے نریندر مودی کی حکومت کے خلاف رائے کا اظہار کرنے پر چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'ژن وا سے تعلق رکھنے والے صحافی کو نئی دہلی چھوڑنے پر مجبور کر دیاگیا۔
بھارتی تاریخ میں 1980ء میں چائنا بھارت تعلقات معمول پر آنے کے بعد یہ پہلی مثال ہے کہ چائنا سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی صحافی اب بھارت میں موجود نہیں ہے۔
نریندر مودی کی پالیسیوں کے مخالف چائنا کے خبررساں ادارے ژن ہوا کے صحافی کو بھارتی حکام کی طرف سے ویزا میں توسیع نہیں ملی تھی، اس لیے اسے بھارت چھوڑ کر جانا پڑا۔
بھارتی حکام کی طرف سے 2020ء سے چائنا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے ویزا کی مدت میں توسیع پر رکاوٹیں ڈالی جا رہی تھیں جس کے باعث گزشتہ ہفتے بھارت میں موجود چائنا کا آخری صحافی بھی بھارت چھوڑ گیا۔
قبل ازیں بھارت میں موجود چینی صحافیوں کے ویزوں کی مدت 3 ماہ سے 1 ماہ تک محدود کر دی گئی تھی۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے ملک میں اقلیتوں کے خلاف کی جانے والی پرتشدد کارروائیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے بھارتی حکام کی طرف سے ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
بھارت میں اقلیتوں کے انسانی حقوق سلب کیے جا چکے ہیں جس پر عالمی دنیا شدید تحفظات کا اظہار کر رہی ہے۔
بھارتی اقدام کو دنیا بھر میں صحافی برادری کی آواز دبانے کی بدترین کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ عالمی اداروں کو مودی سرکار کے اس فاشسٹ رویے کی بڑے پیمانے پر مذمت کرنے کی ضرورت ہے۔
12 جون کو چائنا کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ اگر بھارت میں موجود صحافی کے ویزا میں توسیع نہ کی گئی تو جوابی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔