London Bridge
Senator (1k+ posts)

امیر المؤمنین امام علی (ع) مکتب تشیع کے پہلے امام ، رسول خدا (ص) کے داماد ، کاتب وحی، اہل سنت کے نزدیک چوتھے خلیفہ، حضرت فاطمہ (س) کے شریک حیات اور گیارہ شیعہ آئمہ کے والد اور جد امجد ہیں۔
تمام شیعہ اور اکثر سنی مؤرخین کے مطابق آپ کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی۔
کعبہ میں آپ کی ولادت کی روایت کو سید رضی، شیخ مفید، قطب راوندی اور ابن شہر آشوب سمیت تمام شیعہ علماء اور حاکم نیشاپوری، حافظ گنجی شافعی، ابن جوزی حنفی، ابن صباغ مالکی، حلبی اور مسعودی سمیت بیشتر سنی علماء متواتر (مسَلَّمہ) سمجھتے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام کی جہادی زندگی
ابن قتیبہ نے لکھا ہے: امام علی جس کسی کے ساتھ بھی لڑے، اس کو زمین پر دے مارا۔
ابن قتیبہ، المعارف، بیروت: دار الکتب العلمیہ، ص 121
ابن ابی الحدید کہتا ہے: امام علی کی جسمانی قوت ضرب المثل میں بدل گئی ہے۔ آپ ہی تھے جنہوں نے در خیبر اکھاڑا اور ایک جماعت نے وہ دروازہ دوبارہ لگانے کی کوشش کی لیکن ایسا ممکن نہ ہوا۔ آپ ہی تھے جنہوں نے ہبَل نامی بت کو جو حقیقتاً بڑا بت تھا، کعبہ کے اوپر سے زمین پر دے مارا۔ آپ ہی تھے جنہوں نے اپنی خلافت کے زمانے میں ایک بہت بڑی چٹان کو اکھاڑ دیا اور اس کے نیچے سے پانی ابل پڑا، جبکہ آپ کے لشکر میں شامل تمام افراد مل کر بھی اس کو ہلانے میں ناکام ہو چکے تھے۔
ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 21
جہاد میں شرکت:
امام علی (ع) نے اسلام کے غزوات اور سرایا میں بہت ہی مؤثر کردار ادا کیا۔ غزوہ تبوک کے سوا تمام غزوات میں رسول خدا کے ساتھ دشمنان اسلام کے خلاف لڑے۔ آپ (ع) نے اسلام اور مسلمین کے خلاف لڑی جانے والی تمام جنگوں حضرت محمد (ص) کے بعد دوسری اسلامی عسکری شخصیت کے عنوان سے کردار ادا کیا ہے۔
طبقات الکبری، ابن سعد، ج 3، ص 24
جنگ بدر:
جنگ بدر، یا غزوہ بدر مسلمانوں اور کفار کے درمیان پہلی جنگ تھی جو بروز جمعہ 17 رمضان المبارک سن 2 ہجری کو بدر کے کنوؤں کے کنارے واقع ہوئی۔
انساب الاشراف، بلاذری، ج1، ص2883
اس جنگ میں مسلمانوں نے مشرکین کو ہلاک کر دیا، جن میں کفر و شرک کے بعض بڑے بڑے نام: ابو جہل، عتبہ، شیبہ، امیہ وغیرہ بھی شامل تھے۔
عرب روایات کے مطابق عمومی حملے سے قبل افراد کے درمیان تن بہ تن لڑائی ہوتی تھی۔ چنانچہ اموی خاندان کا عتبہ ابن ربیعہ اور اس کا بیٹا ولید اور بھائی شیبہ، نے پیغمبر سے کہا: ہمارے مقابلے کے لیے ہمارے ہم رتبہ آدمی روانہ کریں۔ حضرت محمد (ص)، نے على (ع)، حمزہ اور عبیدة ابن حارث کو ان کے مقابلے کے لیے بھجوایا۔ علی (ع) نے ولید کو اور حمزہ نے عتبہ کو زیادہ فرصت دیئے بغیر ہلاک کر دیا اور پھر جا کر عبیدہ کی مدد کر کے ان کے دشمن کو بھی ہلاک کر ڈالا۔
تاریخ طبری، طبری، ج 2، ص 148
نیز اس جنگ میں حنظلہ، عاص ابن سعید اور طعیمہ ابن عدی سمیت قریش کے تقریبا 20 بہادر جنگجو، امام علی کے ہاتھوں ہلاک ہوئے تھے۔
سیرہ ابن شام، ج 1، ص 708-713
جنگ احد:
جنگ احد میں مسلمانوں کی پہلی صف میں سب سے آگے علىؑ، حمزہ ، اور ابو دجانہ وغیرہ لڑ رہے تھے، جنہوں نے دشمنوں کی صفوں کو کمزور کر دیا۔ رسول خدا (ص) کو ہر طرف سے لشکر قریش کے مختلف گروہوں کی طرف سے حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جو بھی گروہ آپؐ پر حملہ کرتا، علیؑ آپ (ص) کے حکم سے اس پر حملہ کر دیتے تھے۔ اس جان نثاری کے صلے میں جبرائیل نازل ہوئے اور رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہو کر علیؑ کے ایثار کی تعریف و تمجید کی اور عرض کیا:
یہ ایثار اور قربانی کی انتہاء ہے جو وہ دکھا رہے ہیں۔
رسول خدا (ص) نے تصدیق کرتے ہوئے فرمایا:
إِنَّہ ُمِنِّي وَأَنَا مِنْہ ،
وہ مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں۔
اس کے بعد ایک ندا آسمان سے سنائی دی:
لا سیف الا ذوالفقار و لا فتٰی الا علي۔
ذوالفقار کے سوا کوئی تلوار نہیں اور علی کے سوا کوئی جوان نہیں ہے۔
ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج2، ص107
جنگ خندق (احزاب):
جنگ خندق میں رسول خدا (ص) نے اصحاب کے ساتھ مشورہ کیا تو سلمان فارسی نے رائے دی کہ مدینہ کے اطراف میں ایک خندق کھودی جائے، جو حملہ آوروں اور مسلمانوں کے درمیان حائل ہو۔
سیرہ ابن ہشام، ج3، ص235
کئی دن تک لشکر اسلام اور لشکر کفر خندق کے دو کناروں پر آمنے سامنے رہے اور کبھی کبھی ایک دوسرے کی طرف تیر یا پتھر پھینکتے تھے، بالآخر لشکر کفار سے عمرو ابن عبدود اور اس کے چند ساتھی خندق کے سب سے تنگ حصے سے گزر کر دوسری طرف مسلمانوں کے سامنے آنے میں کامیاب ہوئے۔ علی (ع) نے رسول خدا (ص) سے درخواست کی کہ انہیں عمرو کا مقابلہ کرنے کا اذن دیں اور آپ (ص) نے اذن دے دیا۔ علی (ع) نے عمرو کو زمین پر گرا کر ہلاک کر دیا۔
تاریخ طبری، ج2، ص574-573
جب علی (ع) عمرو کا سر لے کر رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ (ص) نے فرمایا:
ضَربَةُ عَليٍ يَومَ الخَندَقِ اَفضَلُ مِن عِبادَةِ الثَّقَلَینِ۔
روز خندق علی کا ایک وار جن و انس کی عبادت سے افضل ہے۔
بحار الانوار مجلسی، ج20، ص216
بغدادی،تاریخ بغداد، ج 13 ص 18
جنگ خیبر:
جنگ خیبر ماہ جمادی الاولی سن 7 ہجری میں واقع ہوئی، جب رسول خدا نے یہودیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کے قلعوں پر حملہ کرنے کا فرمان جاری کیا رسول خدا (ص) نے فرمایا:
لأعطين الراية رجلا يحب اللہ ورسولہ و يحبہ اللہ ورسولہ،
میں کل پرچم ایسے فرد کے سپرد کر رہا ہوں جو خدا اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہے اور خدا اور اس کا رسول بھی اسے دوست رکھتے ہیں۔
سیرہ ابن ہشام، ج 2، ص 328
صحیح مسلم، ج 15، ص 178-179
صبح کے وقت رسول خدا (ص) نے علی (ع) کو بلایا اور پرچم ان کے سپرد کر دیا۔
علیؑ اپنی ذوالفقار لے کر میدان جنگ میں اترے اور جب ڈھال ہاتھ سے گر گئی تو آپ نے ایک قلعے کا دروازہ اکھاڑ کر اسے ڈھال قرار دیا اور جنگ کے آخر تک اسے ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔
شیخ مفید، الارشاد، 590
فتح مکہ:
رسول خدا (ص) ماہ مبارک رمضان سن 8 ہجری کو فتح مکہ کی غرض سے مدینہ سے خارج ہوئے۔ مکہ میں داخل ہونے سے پہلے لشکر اسلام کا پرچم سعد ابن عبادہ کے ہاتھ میں تھا، لیکن سعد نے جنگ ، خون ریزی اور انتقام جوئی کے بارے میں باتیں کیں۔ پیغمبر اسلام (ص) کو جب اس بارے میں معلوم ہوا تو، آپ نے امام علی (ع) کو کہا کہ اس سے تم پرچم لے لو۔ فتح مکہ کے بعد رسول خدا کی ہدایت پر تمام بتوں کو توڑ دیا گیا اور آپ (ص) کی ہدایت پر علی (ع) نے آپ (ص) کے دوش پر کھڑے ہو کر سارے بتوں کو توڑ دیا۔ امام علیؑ نے خزاعہ کے بت کو کعبہ کے اوپر سے نیچے گرا دیا اور مستحکم بتوں کو زمین سے اکھاڑ کر زمین پر پھینک دیا۔
السیرہ الحلبیہ، حلبى، ج 3، ص 30
جنگ حنین:
جنگ حنین سن 8 ہجری میں واقع ہوئی۔ اس غزوہ کا سبب یہ تھا کہ قبیلہ ہواز اور قبیلہ ثقیف کے اشراف نے فتح مکہ کے بعد رسول اللہ کی طرف اپنے خلاف جنگ کے آغاز کے خوف سے حفظ ما تقدم کے تحت مسلمانوں پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ علی (ع) اس جنگ میں مہاجرین کے علمبرار تھے اور آپ نے 40 کے قریب دشمنوں کو ہلاک کر دیا۔
المغازی، واقدی، ج3، ص885
المغازی، واقدی، ج3، ص902 و 904
جنگ تبوک:
وہ واحد غزوہ کہ جس میں علی (ع) نے رسول اللہ (ص) کے ساتھ، خود رسول اللہ کے حکم کے مطابق شرکت نہیں کی، وہ غزوہ تبوک تھا۔ علی (ع) رسول اللہ (ص) کی ہدایت پر مدینہ میں ٹہرے تا کہ آپ (ص) کی غیر موجودگی میں مسلمانوں اور اسلام کو منافقین کی سازشوں سے محفوظ رکھیں۔
علی (ع) کے مدینہ میں ٹھہرنے کے بعد، منافقین نے علی (ع) کے خلاف تشہیری مہم کا آغاز کیا اور علی نے فتنے کی آگ بجھانے کی غرض سے اپنا اسلحہ اٹھایا اور مدینے سے باہر رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور منافقین کی تشہیری مہم کی اطلاع دی۔
یہی وہ موقع تھا جب رسول اللہ نے حدیث منزلت ارشاد فرمائی کہ:
میرے بھائی علی! مدینہ واپس پلٹ جاؤ، کیونکہ وہاں کے معاملات سلجھانے کے لیے تمہارے اور میرے بغیر کسی میں اہلیت نہیں ہے۔ پس تم میرے اہل بیت اور میرے گھر اور میری قوم کے اندر میرے جانشین ہو ! کہ تم خوشنود نہیں ہو کہ تمہاری نسبت مجھ سے وہی ہے، جو موسی سے ہارون کی تھی، سوا اس کے میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
شیخ مفید، الارشاد، ج 1، ص 156
سیرہ ابن ہشام، ج 4، ص 163
امام علی (ع) 19 رمضان سن 40 ہجری کی صبح مسجد کوفہ میں نماز فجر کے وقت عبد الرحمن ابن ملجم مرادی نامی خارجی ملعون کے ہاتھوں زخمی ہوئے اور 21 رمضان کو جام شہادت نوش کر گئے۔
حضرت علی علیہ السلام نے محراب میں گر کر اسی حالت میں فرمایا:
بسم اللہ و بااللہ و علی ملّۃ رسول اللہ ، فزت و ربّ الکعبہ،
خدائے کعبہ کی قسم ، میں کامیاب ہو گيا۔