maksyed
Siasat.pk - Blogger
قائد اعظم خدا کے حضور میں
علامہ سیماب اکبر آبادی مرحوم
باری تعالٰی
ہم نے دنیا میں مثالی جاہ و حشمت دی تجھے
جو حریفِ اہل شہرت تھی وہ شہرت دی تجھے
اک نئی جُوتدت عطا کی، اک اچُھوتا اجتہاد
اک بڑی قوت بفضلِ علم و حکمت دی تجھے
مشرق و مضرب تیرے افکار سے مرعوب تھے
خود معلم بن کے تعلیمِ سیاست دی تجھے
صرف پاکستان ہی تجھ کو نہیں بخشا گیا
پاک نیت، پاک طینت، پاک سیرت دی تجھے
قائداعظم تجھے سارا جہاں کہنے لگا
کاروانِ اہل ملت کی قیادت دی تجھے
اب جو ہو کر فائزِ منزل یہاں آیا ہے تُو
پیش کش کو کیا ہمارے سامنے لایا ہے تُو
قائدِ اعظم
ہدیہ منت بارگاہِ خدا لایا ہوں میں
اُمت ختم رُسل کا شکریہ لایا ہوں میں
اپنے کافوری کفن کے گوشہ محدود میں
خون بھر کر ملتِ مظلوم کا لایا ہوں میں
پیش کرنے کے لئے منجانب قومِ ضعیف
استغاثہ مشتمل بر خُوں بہا لایا ہوں میں
دفترِ مستقبلِ ملت ہے شایان کرم
دستخط کو محضرِاہل وفا لایا ہوں میں
دستِ لرزاں میں مرے نقشہ ہے پاکستان کا
اور اس کے ساتھ ہی یہ التجا لایا ہوں میں
بسکہ ہے آغاز تیرے ہاتھ میں انجام بھی
سلطنت دی ہے تو دے اب اس کو استحکام بھی
باری تعالٰی
ملتِ مرحوم کا ہم خوں بہا دیں گے تجھے
تیرے ایثارِ مسلسل کا صلہ دیں گے تجھے
خُونِ ناحق سے رنگے جن وحشیوں نے اپنے ہاتھ
کیا مآل ان کا ہوا یہ بھی بتا دیں گے تجھے
تجھ کو تاریخِ جہانِ نو بھلا سکتی نہیں
ارض پاکستان کے ذرے دُعا دیں گے تجھے
اب چراغ رہگزر ہوں گے نقوش پا ترے
ہم منارِ روشنِ منزل بنا دیں گے تجھے
قوت عزمِ و عمل بخشیں گے تیری قوم کو
مدعائے دل بقدرِ التجا دیں گے تجھے
حال بھی روشن ہے پاکستان کا استقبال بھی
اس کو استحکام بھی قدرت ہے استقلال بھی
قائداعظم
میں ہوں یا رب تنگ داماں، تیری رحمت کم نہیں
اپنے مرجانے کا اب مجھ کو ذرا بھی غم نہیں
اب میں ہوں اپنی قومِ پسماندہ کو دیتا ہوں پیام
ہے یہ وقتِ شادمانی، موقعہ ماتم نہیں
کُلُ و نفس پڑھنے والے کیوں ہیں مجھ پر نوحہ خواں
میرا مر جانا خلافِ فطرتِ عالم نہیں
زندگی نو دماغوں میں مچلنی چاہیے
یہ قنوط و یاس، شایانِ بنی آدم نہیں
اس کا مسلک، اس کا نصب العین تو موجود ہے
تم میں گو باقی تمھارا قائدِ اعظم نہیں
گر نہیں قائد، نہ ہو، کونین کا آقا تو ہے
زندہ و باقی خدائے اعظم و اعلٰی تو ہے
علامہ سیماب اکبر آبادی مرحوم
باری تعالٰی
ہم نے دنیا میں مثالی جاہ و حشمت دی تجھے
جو حریفِ اہل شہرت تھی وہ شہرت دی تجھے
اک نئی جُوتدت عطا کی، اک اچُھوتا اجتہاد
اک بڑی قوت بفضلِ علم و حکمت دی تجھے
مشرق و مضرب تیرے افکار سے مرعوب تھے
خود معلم بن کے تعلیمِ سیاست دی تجھے
صرف پاکستان ہی تجھ کو نہیں بخشا گیا
پاک نیت، پاک طینت، پاک سیرت دی تجھے
قائداعظم تجھے سارا جہاں کہنے لگا
کاروانِ اہل ملت کی قیادت دی تجھے
اب جو ہو کر فائزِ منزل یہاں آیا ہے تُو
پیش کش کو کیا ہمارے سامنے لایا ہے تُو
قائدِ اعظم
ہدیہ منت بارگاہِ خدا لایا ہوں میں
اُمت ختم رُسل کا شکریہ لایا ہوں میں
اپنے کافوری کفن کے گوشہ محدود میں
خون بھر کر ملتِ مظلوم کا لایا ہوں میں
پیش کرنے کے لئے منجانب قومِ ضعیف
استغاثہ مشتمل بر خُوں بہا لایا ہوں میں
دفترِ مستقبلِ ملت ہے شایان کرم
دستخط کو محضرِاہل وفا لایا ہوں میں
دستِ لرزاں میں مرے نقشہ ہے پاکستان کا
اور اس کے ساتھ ہی یہ التجا لایا ہوں میں
بسکہ ہے آغاز تیرے ہاتھ میں انجام بھی
سلطنت دی ہے تو دے اب اس کو استحکام بھی
باری تعالٰی
ملتِ مرحوم کا ہم خوں بہا دیں گے تجھے
تیرے ایثارِ مسلسل کا صلہ دیں گے تجھے
خُونِ ناحق سے رنگے جن وحشیوں نے اپنے ہاتھ
کیا مآل ان کا ہوا یہ بھی بتا دیں گے تجھے
تجھ کو تاریخِ جہانِ نو بھلا سکتی نہیں
ارض پاکستان کے ذرے دُعا دیں گے تجھے
اب چراغ رہگزر ہوں گے نقوش پا ترے
ہم منارِ روشنِ منزل بنا دیں گے تجھے
قوت عزمِ و عمل بخشیں گے تیری قوم کو
مدعائے دل بقدرِ التجا دیں گے تجھے
حال بھی روشن ہے پاکستان کا استقبال بھی
اس کو استحکام بھی قدرت ہے استقلال بھی
قائداعظم
میں ہوں یا رب تنگ داماں، تیری رحمت کم نہیں
اپنے مرجانے کا اب مجھ کو ذرا بھی غم نہیں
اب میں ہوں اپنی قومِ پسماندہ کو دیتا ہوں پیام
ہے یہ وقتِ شادمانی، موقعہ ماتم نہیں
کُلُ و نفس پڑھنے والے کیوں ہیں مجھ پر نوحہ خواں
میرا مر جانا خلافِ فطرتِ عالم نہیں
زندگی نو دماغوں میں مچلنی چاہیے
یہ قنوط و یاس، شایانِ بنی آدم نہیں
اس کا مسلک، اس کا نصب العین تو موجود ہے
تم میں گو باقی تمھارا قائدِ اعظم نہیں
گر نہیں قائد، نہ ہو، کونین کا آقا تو ہے
زندہ و باقی خدائے اعظم و اعلٰی تو ہے